0
Saturday 5 Oct 2013 22:11

باغیوں کو کچلنے میں ہی عافیت ہے

باغیوں کو کچلنے میں ہی عافیت ہے
تحریر: ابو فجر

پاک فوج کی کور کمانڈرز کانفرنس میں کل جماعتی کانفرنس کے بعد ملک بھر میں اور خصوصاً خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے محرکات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں حکومتی پالیسی اور کراچی میں قیام امن کے لئے جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میں بھی غور و فکر کیا گیا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی صدارت میں ہونے والی کانفرنس میں تمام کور کمانڈرز اور پرنسپل سٹاف افسران نے بھی شرکت کی تھی۔ جنرل کیانی نے شرکاء کو خطے کی جغرافیائی سکیورٹی کی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ شرکائے کانفرنس نے دیر میں شہید ہونے والے میجر جنرل ثناءاللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ دفاع وطن کے لئے پاک فوج ہمیشہ کی طرح سینہ سپر رہے گی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوج کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے بھی داخلی سلامتی اور پشاور میں دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات کے محرکات کے بارے میں بھی تفصیلی بریفنگ دی اور شرکائے کانفرنس کو بتایا کہ ان واقعات کی اس پہلو سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ طالبان نے ہمیشہ کی طرح ایسے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کے رویے سے ہٹ کر اس دفعہ ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ قیام امن کے لئے حکومتی مذاکرات کی پالیسی کو غنیمت جانتے ہوئے امن کو موقع دینے کے لئے فوج سول حکومت کے ساتھ ہے۔ اسی کانفرنس میں کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کے لئے ٹارگٹڈ آپریشن کے نتائج پر بھی غور کیا گیا۔

اے پی سی میں حکومت، فوج اور تمام سیاسی جماعتیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ایک ہی صفحے پر نظر آئیں مگر مابعد پیدا شدہ حالات و واقعات نے مذاکراتی عمل پر شکوک و شبہات کی دھند کے بادل گہرے کر دیئے۔ اسی لئے چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں اور دہشت گردی کے شدید ترین واقعات نے ملک بھر میں مذاکرات کے مخالف طبقوں کو اکسایا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ حکومت کے ذمہ داران نے بھی اسی قسم کے عزائم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں کی طول پکڑتی کارروائیوں کو ناگواری سے دیکھتے ہیں اور ان کے تدارک کے لئے کوئی بھی حتمی اقدام کیا جا سکتا ہے۔ اسی دوران میں حکومت نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنی طرف سے جو اقدامات کئے، فریق مخالف کی طرف سے اس کے جواب میں جاری ہونے والے بیانات اس بات پر تشویش گہری کرتے چلے گئے کہ حکومت کی قیام امن کی کوششوں کو عسکریت پسند کمزوری پر محمول کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں مذاکرات کے حامیوں نے اپنی کوششیں تیز کیں اور طالبان کے خیرخواہوں نے حکومت کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ طالبان کے بااثر گروہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں اس لئے ریاست ان کے ساتھ سلسلہ جنبانی کو تیز تر کرے۔ علمائے کرام کے ایک بڑے طبقے نے طالبان اور حکومت سے اللہ اور رسول کے واسطے پر جنگ بندی کرنے کی التجا کی تاہم سرکاری حلقے اس بات پر زور دیتے نظر آئے کہ ریاست نے تو پہلے سے ہی مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ ہی سیز فائر کر رکھی ہے البتہ جنگجو عناصر اپنی اپنی قوت منوانے کے لئے مختلف طریقوں سے میڈیا کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لئے عجیب و غریب قسم کے بیانات دیتے نظر آئے جن سے یہ اندازہ لگایا جانے لگا کہ حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کے گروہوں میں باہمی چپقلش اور رسہ کشی کا آغاز ہو گیا ہے اور ہر گروہ اپنی بالادستی منوانے کے لئے شدت پسندی پر اتر آیا ہے۔

اسی شدت پسندی کا شاخسانہ ہے کہ گذشتہ روز قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں خودکش طالبان حملہ آور نے مبینہ طور پر حکومت کے حامی طالبان کمانڈر ملا نبی حنفی کے مرکز پر کار بم خودکش حملہ کیا جس کے نتیجے میں ملا نبی حنفی سمیت 22 افراد زخمی ہوئے، جنگجوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 17 افراد موت کے گھاٹ اترے اور اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اعتراف کیا کہ کیونکہ حنفی حکومت کے حامی ہیں اس لئے وہ ہمارا ہدف تھے اور رہیں گے۔ طالبان گروہوں کے اس خوفناک تصادم سے یہ صاف عیاں ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان کو اپنے جن دشمنوں سے سامنا ہے ان کے درمیان پڑنے والی پھوٹ پاکستان میں قیام امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنتی جا رہی ہے۔ طالبان کے حامی علمائے کرام یقیناً سر پکڑ کے بیٹھے ہوں گے کہ وہ کس برتے پر حکومت کو ان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھانے پر زور دیں۔ پاک فوج نے بھی کور کمانڈرز کانفرنس میں ان محرکات کا جائزہ لیا ہو گا جو ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں یقیناً قومی سلامتی کے ضامن ادارے ان پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کر سکتے جو مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کے حوالے سے زیرغور لائے گئے ہوں گے۔

حکومت کے مختلف وزراء اس بات کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں کہ مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہے۔ اس غیرملکی ہاتھ کی دخل اندازی کو روکنے کے لئے اقدامات کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے اور یہی وہ پیچیدہ گتھی ہے جسے سلجھانے کے لئے ہمارے پالیسی سازوں کو بہت زیادہ دماغ سوزی کی ضرورت ہے۔ حکومت کی یہ کامیابی ہے کہ اس کی وضع کردہ پالیسیوں کو عسکری ادارے کی تائید حاصل ہے اور اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر نظر آ رہے ہیں مگر ریاست کی جانب سے کئے جانے والے مثبت اقدامات کو عسکریت پسندوں کے مختلف گروہ جس انداز میں لے رہے ہیں وہ مستقبل کے منظر نامے کے حوالے سے تشویشناک صورتحال کی طرف نشاندہی کرتا نظر آتا ہے۔ دشمن ایک ہی اور کھلے بندوں سینہ تانے سامنے کھڑا ہو تو اس کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنے میں بھی لطف آتا ہے اور جنگ ختم کرنے کے لئے مذاکرات کی میز سجے تو بات کرنے میں بھی۔۔۔! مگر یہاں پر معاملات ہی بالکل مختلف اور صورتحال یکسر پیچیدہ ہے۔ حکومت کی مذاکرات کی پیشکش کو مسلح جنگجوؤں نے کمزوری پر محمول کر کے اپنی اپنی طاقت دکھانے کے لئے ایک دوسرے کو ہدف بنا کر جس کشمکش کو طول دیا ہے اس سے یہ بات تو صاف ظاہر ہو گئی کہ اب حکومت کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نئے انداز اختیار کرنا ہوں گے۔ طالبان نام کے مختلف برانڈز سامنے آنے پر مذاکرات کی کوششیں ازخود غیرموثر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ عمران خان بھی آخری چانس کے بعد قوت کے استعمال کو ناگزیر سمجھنے لگے ہیں تو یقیناً آخری چارہ کار کے طور پر ریاستی طاقت منوانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ ایک آزاد و خودمختار ریاست باغیوں کو طاقت سے کچل کر ہی باقی رہ سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 308279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش