0
Wednesday 9 Oct 2013 23:55

مصر میں فوجی جنتا کا ظلم جاری ہے

مصر میں فوجی جنتا کا ظلم جاری ہے
تحریر: ثاقب اکبر
 
جولائی 2013ء میں اخوان المسلمین کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے فوجی جنتا کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ظلم کی تازہ لہر 6 اکتوبر 2013ء کو دیکھنے میں آئی جب 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کی یاد میں دن منایا جا رہا تھا۔ یہ دن ہر سال مصر میں حکومت اور فوج کی طرف سے منایا جاتا ہے جس میں 1967ء کی بدترین شکست کے بعد مصری فوج نے اسرائیل کے مقابلے میں نسبتاً جرأت مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ حکومت کی طرف سے یہ دن منانے کا اعلان کیا گیا تو اخوان المسلمین نے بھی اس موقع پر مظاہروں کا پروگرام بنایا۔ اخوان نے ان فوجی جرنیلوں کے کردار کو واضح کرنے کی کوشش کی، جنھوں نے اسرائیل کے مقابلے میں حقیقی طور پر بہادری کا ثبوت دیا اور جنھیں بعدازاں اس بہادری کے صلے میں ہیرو کے طور پر نمایاں کرنے کے بجائے ان کے خلاف طرح طرح کے اقدامات کئے گئے، جن میں سے ریٹائر کیا جانا تو ایک ابتدائی قدم تھا۔ ان مصری ہیروز میں جنرل سعدالدین الحسینی الشاذلی بھی شامل تھے جنھوں نے اسرائیل کا ناقابل تسخیر ہونے کا غرور توڑ کر رکھ دیا، لیکن بعدازاں عالم اسلام کے غدار انوار السادات نے دسمبر 1973ء میں ان کو فوج سے معزول کر دیا۔
 
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مصر میں برطرف صدر مرسی کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی تازہ ترین جھڑپوں میں کم ازکم 50 افراد ہلاک اور 240 زخمی ہوئے ہیں۔ یہ امر لائق ذکر ہے کہ بی بی سی کی رپورٹ میں ’’جھڑپوں‘‘ کا لفظ یہ تاثر دینے کے لئے ہے کہ دونوں طرف مسلح تھے، حالانکہ حکومت مخالف مظاہرین نہتے تھے اور وہ جنرل السیسی کو قاتل قاتل کہہ رہے تھے۔ فوج نے گلیوں میں جمع ہو جانے والے ہزاروں نہتے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل پھینکنے کے علاوہ گولیاں بھی چلائیں، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مظاہرین جن میں خواتین بھی شامل ہیں، قتل اور زخمی ہوئے۔ مصر میں چونکہ میڈیا آزاد نہیں ہے اور اخوان المسلمین کے حامی چینلز کو بند کر دیا گیا ہے، اس لیے خبروں کے لیے سوشل میڈیا، مغربی ذرائع ابلاغ اور حکومتی ذرائع پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ فوج نے برسراقتدار آتے ہی اخوان المسلمین کے ٹی وی چینل کے علاوہ تین دیگر چینل بھی بند کر دیئے تھے، جن میں احرار25، القدس اور لیرموک بھی شامل ہیں۔
 
دوسری طرف مصر میں جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے کے موقع پر عالم اسلام میں جو ردعمل دیکھنے میں آیا تھا، وہ رفتہ رفتہ مدھم پڑ گیا ہے جبکہ فوجی حکومت کی حامی قوتیں پہلے سے زیادہ منظم اور یکسو ہوکر اس کے مظالم میں شریک ہوگئی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تو پہلے ہی روز سے مالی اور سیاسی تعاون کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت قطر جو مرسی حکومت کو مالی تعاون مہیا کرتی رہی ہے، فوجی حکومت کے قیام پر بظاہر خوش نہ تھی لیکن اب اس کا تعاون بھی فوجی حکومت کو حاصل ہے بلکہ اس نے اخوان المسلمین اور مصری فوج کے درمیان ’’آشتی‘‘ کے قیام کی بھی کوششیں کی ہیں۔ اسے عالمی طاقتوں کی طرف سے یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ وہ اخوان کی قیادت کو اس امر پر قائل کرے کہ وہ مرسی حکومت کی بحالی کا مطالبہ ترک کرکے موجودہ حکومت میں حصہ داری قبول کرلے۔ اس سلسلے میں اخوان کی نچلے درجے کی قیادت کے بعض عناصر قائل بھی ہوگئے تھے، جن سے اخوان کی مرکزی قیادت نے لاتعلقی کا اظہار کرکے اس پیش رفت کو ناکام بنا دیا۔
 
یہ بات قابل ذکر ہے کہ صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ممکن ہے نئی فوجی حکومت کو سالانہ امریکی امداد مہیا نہ کی جائے، لیکن اسی وقت عالمی سیاست کے دانش وروں پر یہ بات واضح تھی کہ یہ تاثر صرف اس لیے دیا جا رہا ہے تاکہ دنیا پر یہ امر نہ کھل سکے کہ مصر کی فوجی جنتا کا اقدام کامل امریکی ہم آہنگی کے ساتھ عمل میں آیا ہے۔ اسرائیل بھی اس فوجی اقدام کا حامی تھا، کیونکہ اخوان المسلمین کی حکومت نے اگرچہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی پاسداری کا اعلان کیا تھا، لیکن روایتی طور پر اخوان قیادت اور اس کے حامی عرب عوام صہیونی حکومت کے مخالف رہے ہیں اور اس کا ایک نمونہ حماس کا وجود ہے، جسے فلسطین میں اخوان کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جلد از جلد اخوان حکومت کے خاتمے کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا۔
 
فوجی حکومت کے قیام کے بعد اسرائیل نے امریکی حکومت کے ساتھ مصر کے موضوع پر ہم آہنگی کی کوششوں کے دوران میں یہ واضح کر دیا تھا کہ مصر کو امریکی فوجی امداد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، کیونکہ یہ بندش اسرائیل کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی روزنامے ہارتیز نے 9 جولائی کو ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں ایک امریکی عہدیدار کا نام ذکر کئے بغیر اس کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے ایک اعلٰی رتبے کے عہدیدار نے امریکہ سے تقاضا کیا ہے کہ وہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی سالانہ مصری امداد کا سلسلہ جاری رکھے۔ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو عالم اسلام کی مصر کے مسئلے پر تقریباً نیم خاموشی حیران کن معلوم ہوتی ہے۔
 
پاکستان میں ابتدا میں مختلف مذہبی جماعتوں نے مصر کی فوج کے اقدام کی مذمت کی تھی۔ جماعت اسلامی نے صدر مرسی کی حکومت برخاست کئے جانے پر مظاہرے بھی کئے، لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے عالم اسلام کے دیگر مسائل پر ہم ایک فوری ردعمل کے اظہار کے بعد صورت حال کے ساتھ اپنے آپ کو عادی کر لیتے ہیں، یہی معاملہ اب مصر کے ساتھ ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری رائے میں نہ فقط مصر کی فوجی جنتا کے مسلسل مظالم پر آواز بلند کرتے رہنا چاہیے اور منتخب مصری حکومت کی بحالی کا مطالبہ کرتے رہنا چاہیے بلکہ عالم اسلام کے جن حکمرانوں کے تعاون سے مصر پر فوجی آمریت مسلط ہوئی ہے، ان کی ماہیت اور حقیقت کو بھی عوام پر آشکار کرتے رہنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 309810
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش