3
0
Friday 18 Oct 2013 23:02

بیہودہ ڈرامے اور حکومتی ذمہ داریاں

بیہودہ ڈرامے اور حکومتی ذمہ داریاں
تحریر: تصور حسین شہزاد

سینئر صحافی حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ دنوں نیویارک میں وزیراعظم نواز شریف کی ترکی کے صدر عبداللہ گل سے ملاقات ہوئی تو دونوں ممالک کے وفود نے چائے کے دوران ترک ڈرامہ ’’میرا سلطان‘‘ پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے عبداللہ گل کو بتایا کہ پاکستان میں ترک ڈرامے بڑے ذوق و شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ پہلے ڈرامہ ’’عشق ممنوع‘‘ بڑا مقبول ہوا تھا، آج کل ’’میرا سلطان‘‘ بہت دیکھا جا رہا ہے ۔ یہ سن کر ترک کے وفد کے ارکان نے خواجہ محمد آصف کو بتایا کہ ’’میرا سلطان‘‘ خلافت عثمانیہ کے دسویں سربراہ سلطان سلیمان کی زندگی کے متعلق بنایا گیا ہے جس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ سلطان سلیمان نے 1520ء سے 1566ء تک یورپ سے لے کر افریقہ کے کئی ممالک کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ اس نے اپنی کنیز سے شادی ضرور کی تھی لیکن سلطان سلیمان کے خاندان کی عورتیں کھلے گریبان والا بیہودہ لباس پہننے کا سوچ نہیں سکتیں بلکہ اس زمانے میں ترکی کے کسی بھی علاقے میں عورتیں اس قسم کا بے ہودہ لباس نہیں پہنتی تھیں جو ’’میرا سلطان‘‘ میں دکھایا جا رہا ہے۔

اس سے قبل بھی عبداللہ گل نے ’’عشق ممنوع‘‘ جیسے بے ہودہ ڈرامے سے اعلان لاتعلقی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ڈراموں میں جو بے ہودہ کلچر دکھایا جا رہا ہے وہ ترکی کلچر نہیں بلکہ لگتا ہے کہ کسی سازش کے تحت ترکی کو بدنام اور پاکستانی قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ترکی ایک مسلمان ملک ہے اور مسلمان جتنا مرضی سیکولر ہو جائے اس میں سے مسلمانیت ختم نہیں کی جا سکتی۔ حالیہ ترک ڈرامے جو پاکستان میں دکھائے جا رہے ہیں وہ نہ تو ترکی کا کلچر ہے اور نہ ہی اسلام ایسے ڈراموں اور ایسے افعال کی اجازت دیتا ہے۔ پاکستان میں ایک سازش کے تحت یہ ڈرامے چلوائے جا رہے ہیں جن کا مقصد نسل نو کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا ہے۔ ان ڈراموں کے ذریعے مسلمان بچوں کے جسم سے ’’روح محمدی‘‘ نکالنے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ وہ سیکولر ازم کی آڑ میں مسلمان نہ رہیں۔ اس حوالے سے ترکی کے صدر عبداللہ گل کا یہ کھلے عام انکشاف کہ یہ ترک ڈرامے ہمارے نہیں پاکستانی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

ہمارے ہاں پہلے بھارتی ڈراموں کا طوطی بولتا تھا اس کے بعد ترک ڈرامے چھا گئے، جن میں وہ لچر پن دکھایا گیا کہ بھارتی ڈرامے بھی شرما گئے۔ بھارت میں ڈراموں کی سب سے بڑی خرابی جو ناقدین کو نظر آئی وہ ہندو مت کا پرچار ہے۔ بھارتی ڈراموں اور فلموں میں اس انداز میں مذہب کا پرچار کیا جاتا ہے کہ ہمارے بچوں کے ذہنوں میں ہندو مت کی رسومات چھائی ہوئی ہیں۔ اس سے بچوں کے ذہن خراب ہو رہے تھے۔ اب ایک بھارتی کارٹون چینل اس کام کو ’’احسن‘‘ انداز میں کر رہا ہے۔ اس چینل پر کارٹونز کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں بھگوانوں کی کہانیاں ٹھونسی جا رہی ہیں اور والدین اس حوالے سے خاموش ہیں کہ بچے کارٹون دیکھنے میں مصروف ہیں ہمیں تنگ نہیں کر رہے۔ والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا، اور ان کے لئے وقت نکالنا ہو گا، یہ بھی حقیقت ہے کہ بھاگ دوڑ کے اس دور میں والدین کے پاس بہت کم وقت ہے جو وہ اپنی اولاد کو دیتے ہیں۔ کچھ والدین تو سنڈے کے سنڈے اپنے بچوں کو ملتے ہیں اور اسی دن پورے ہفتے کی کارگزاری کی تفصیل لے کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ براء ہو جاتے ہیں، لیکن ایسے والدین کیلئے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں، معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے۔

لاہور جیسے شہر میں روزانہ چالیس سے پچاس ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ دس سے پندرہ گاڑیاں چوری ہوتی ہیں، اسی طرح طلاق کی شرح میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، قتل کرنا ہمارے معاشرے میں ایک عام سا فعل بن کر رہ گیا ہے، یہ سب کیوں ہے؟ اس کی واحد وجہ ہمارا میڈیا ہے۔ ہمارے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں ہیں۔ گلوبل ویلج کے شوق میں ہم نے بےہودگی کو اپنے گھروں میں داخل کر لیا ہے جس کے نتیجہ میں بیٹیاں اپنے والدین کی عزت پامال کر کے اپنی پسند کی شادی کر لیتی ہیں۔ تین سے چار ماہ بعد جب عشق کا بھوت سرسے اتر جاتا ہے اور اس عاشق نامراد کی حقیقت کھلتی ہے تو انہیں ذلیل کرکے وہاں سے نکال دیا جاتا ہے تو پھر والدین کی عظمت یاد آتی ہے اور پچھتاتے ہوئے سوچتی ہیں کہ کاش والدین کو رُلا کر آنے کے بجائے ان کی دعائیں لے کر آتیں۔ تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور وہ لڑکی راستے کا وہ پتھر بن جاتی ہے جسے ٹھوکر مارنا ہر شخص اپنا فرض سمجھتا ہے۔

یہ سب کچھ، یہ سارے معاشرتی بگاڑ صرف ان ڈراموں کی وجہ سے ہیں جو نہ ترکی ہیں نہ پاکستانی، بلکہ اسلام و پاکستان دشمنوں کی سازش کے تحت پاکستان میں نشر کئے جا رہے ہیں، ان کیلئے ایک ٹی وی چینل ہی مخصوص کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر چینلز پر بھی ترکی کے کہہ کر بہت سے بےہودہ ڈرامے نشر کروائے جا رہے ہیں، حکومت نے ان ڈراموں پر ٹیکس بھی عائد کر دیا ہے لیکن ان ڈراموں پر ٹیکس کا نفاذ کر دینے سے فحاشی عریانی تو کنٹرول نہیں ہو جاتی۔ اس حوالے سے حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اگر غیر ملکی ڈراموں کا ’’چارم‘‘ پاکستان میں بڑھ ہی گیا ہے تو ایسے مسلمان ممالک کے ڈرامے چلوائے جائیں جن کی روایات اسلامی ثقافت کے عین مطابق ہیں، ان میں ایرانی ڈرامے پوری دنیا میں بےمثال ہیں جن میں اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا، ترک ڈراموں ایسے بےہودہ ڈرامے ہماری نسل کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں اور اگر نسل ہی نہ رہی تو ہمارے حکمران حکومت کس پر کریں گے؟
خبر کا کوڈ : 312169
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
لگتا ہے موصوف کو ترکی کی ہوا نہیں لگی جو یہ کہہ رہے ہیں ترکی ایک مسلمان ملک ہے اور مسلمان جتنا مرضی سیکولر ہو جائے اس میں سے مسلمانیت ختم نہیں کی جا سکتی۔
جو کلچر ترک ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے ویسا وہاں نہیں ہے؟ کس ترکی میں ایک شادی شدہ عورت چار چار معاشقے رکھتی ہے؟ میں کچھ عرصہ انقرہ رہی ہوں، وہاں ظاہری طور پر تو لگتا ہے کہ یورپ میں ہیں لیکن لوگوں کی سوچ میں، ذہن میں ابھی مسلمانیت ہے۔ تصور حسین شہزاد صاحب نے درست لکھا ہے، مسلمان مسلمان ہی رہتا ہے، غازی علم الدین شہید یا ممتاز قادری کیا تھےِ؟
شمع سید، لاہور
جی ہاں واقعی اسلام بڑی مضبوط شٗے ہے۔ لوگوں نے اماموں کو زہر دیا پھر بھی مسلمان رہے، خود کش حملے کرتے ہیں پھر بھی مسلمان ہیں، شراب پیتے ہیں پھر بھی مسلمان رہتے ہیں۔۔۔۔ میں ابھی ترکی میں ہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب مسلمان ہیں، بس کافر وہ ہے جو یاعلی کہہ دے۔
ہماری پیشکش