QR CodeQR Code

المیہ اور کیا ہوتا ہے؟

19 Oct 2013 23:41

اسلام ٹائمز: اگرچہ نون لیگ اور تحریکِ انصاف، کالعدم تحریکِ طالبان سے مذاکرات کی دل و جان سے حامی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور منور حسن آئے روز حکومت کو یاد کراتے رہتے ہیں کہ اس نے اگر امن کو ممکن بنانا ہے تو اسے طالبان سے مذاکرات ہی کرنا ہوں گے۔ لیکن کیا یہ درست نہیں کہ چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان سے لے کر پاکستان کے دفاعی اداروں پر حملہ آور ہونے تک، یہی لوگ ملوث ہیں۔ کتنے بے گناہوں کو انھوں نے اپنے فہمِ اسلام کی بھینٹ چڑھا دیا؟


تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
المیہ مگر یہ ہے کہ ہم فیصلہ کرنے میں تامل کا شکار ہیں، لیکن وہ جنھیں اپنے اہداف کا پتہ ہے، وہ ڈنکے کی چوٹ پر ریاست کو چیلنج کرتے پھر رہے ہیں۔ ادھر سے لیکن صرف مذاکرات اور ’’عین نوازش ہوگی‘‘ جیسی التجائیں ہی کی جا رہی ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب کا فرمانا ہے کہ ہم خلوصِ نیت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، جبکہ گاہے کہا جاتا ہے کہ خفیہ مذاکرات ہو رہے ہیں، لیکن صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خاں نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔ طالبان سے مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں طاقت کا استعمال آخری آپشن ہے، حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ملک کو ہر صورت دہشت گردی کی لعنت سے پاک کیا جائیگا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو عدالتوں میں پیش کرتے ہیں تو ججز اور گواہوں کو دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں، دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے انسداد دہشت گردی فورس بنا رہے ہیں، اور یہ فورس صرف دہشت گردوں سے ہی تفتیش کرے گی۔

جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام (س)کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ ’’وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت پوری حکومت امریکی دباؤ میں ہے۔ طالبان کہہ چکے ہیں کہ ہم غیر مشروط مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے، وہ کیا کرتی ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی بغیر پیشگی شرائط کے طالبان سے مذاکرات شروع کرے، اسی میں بہتری ہے۔‘‘ لیکن کیا یہ سچ ہے کہ واقعی طالبان غیر مشروط مذاکرات کرنے پر آمادہ ہیں؟ نہیں، قطعی نہیں، طالبان کا تازہ بیان اس امر پر شاہد ہے۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ کبھی بھی پاکستانی آئین کے تحت مذاکرات نہیں کریں گے۔ انھوں نے واضح کیا کہ حکومت جنگ بندی میں پہل کرے، انھوں نے اس نظام کو ایک بار پھر کفریہ قرار دے کر یہ شرط بھی عائد کی کہ مذاکرات کے لیے ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنا ضروری ہے، جن میں سرِفہرست ڈرون حملے بند کرنا اور قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان نے عمران خان کو بھی مشورہ دیا کہ اگر وہ مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور اس حوالے سے سنجیدہ ہیں تو پہلے اس ’’کفریہ جمہوری‘‘ نظام سے باہر نکلیں۔
 
اس امر میں کلام نہیں کہ طالبان بہرصورت مذاکرات کے لیے پیشگی شرائط رکھتے ہیں، مگر ان کی سیاست کاری دیکھئے، وہ چاہتے ہیں کہ جو ڈرون حملے امریکہ کر رہا ہے ان حملوں کو پاکستان بند کرے، وہ چاہتے ہیں کہ وہ تمام دہشت گرد جنھوں نے ریاستِ پاکستان کو زخم زخم کیا اور جن کی وجہ سے کئی گھرانے اجڑ گئے، انھیں عدالتوں سے ’’باعزت‘‘ رہا کر دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات تو ہوں لیکن حکومت جنگ بندی میں پہل کرے، یعنی جو حملے وہ کئے جا رہے ہیں انھیں حکومت بند کرے؟ وہ حکومتی پیشکش کو خوش آئند بھی کہتے ہیں، لیکن اپنے ذیلی گروپوں کو متحرک بھی کر رہے ہیں، چرچ پر حملے کی ذمہ داری خود قبول نہیں کرتے لیکن اسے ’’شریعت کے مطابق‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔ 

کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ طالبان (کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان) بغیر کسی شرط کے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں؟ ساری باتیں ایک طرف، آیئے یہ طے کر لیں کہ وہ مسلح دہشت گرد گروپ، جو اپنی ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے، کالعدم قرار دیے جاچکے ہیں، اب انھوں نے کون سا ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو ریاست کے لیے سود مند ثابت ہوا؟ اور ریاست کو یہ احساس ہونے لگا کہ اس نے انھیں دہشت گرد قرار دے کر ان پر جو پابندی عائد کی تھی وہ غلط تھی؟ ان سے مذاکرات کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہی نا کہ آپ بے گناہوں کو قتل کرنا بند کر دیں۔ یہی نا کہ خودکش حملے نہ کریں، لیکن اس کے بدلے میں وہ ریاست سے کیا مانگیں گے؟ وہ اس نظام کے خاتمے کی بات کریں گے جو ان کی دانست میں ’’کفریہ‘‘ نظام ہے۔ وہ چاہیں گے کہ ڈرون حملے فی الفور بند ہو جائیں۔ کیا پاکستان ایسا کر سکے گا؟ اور اہم بات، وہ یہ بھی تو چاہیں گے نا کہ، ان پر جو ’’کالعدم‘‘ کی قدغن لگی ہوئی ہے، اسے ختم کر دیا جائے۔
 
ان کی یہ بھی خواہش ہوگی کہ اس ملک میں ان کا فہمِ اسلام نافذ کر دیا جائے۔ وہ یہ بھی خواہش کریں گے کہ غیر مسلموں سے وہ جذیہ وصول کرکے اس رقم کو ’’فروغِ دین‘‘ کے کام لائیں، اور پھر ان کی یہ بھی تمنا ہوگی کہ دنیا کے جس جس کونے میں ’’جہاد‘‘ ہو رہا ہے، پاکستان اس میں اپنا حصہ سب سے زیادہ ڈالے۔ کیا یہ سب ریاست کے لیے ممکن ہے؟ اگرچہ نون لیگ اور تحریکِ انصاف، کالعدم تحریکِ طالبان سے مذاکرات کی دل و جان سے حامی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور منور حسن آئے روز حکومت کو یاد کراتے رہتے ہیں کہ اس نے اگر امن کو ممکن بنانا ہے تو اسے طالبان سے مذاکرات ہی کرنا ہوں گے۔ لیکن کیا یہ درست نہیں کہ چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان سے لے کر پاکستان کے دفاعی اداروں پر حملہ آور ہونے تک، یہی لوگ ملوث ہیں۔ کتنے بے گناہوں کو انھوں نے اپنے فہمِ اسلام کی بھینٹ چڑھا دیا؟
 
آج کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کوئی تیسری طاقت طالبان کو بدنام کر رہی ہے، سوال بڑا سادہ سا ہے، کیا پاکستان کے اندر ہونے والے تباہ کن دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری طالبان تسلیم نہیں کرتے ہیں؟ کیا وہ اب بھی نہیں کہہ رہے کہ پاکستان کا نظام ’’کفریہ‘‘ نظام ہے؟ دراصل کالعدم تحریکِ طالبان متوقع مذاکرات میں بہتر سودے بازی کے لیے اپنی ذیلی تنظیموں کو متحرک کرکے، اپنی طاقت اور اپنی تنظیموں کے درمیان بہتر رابطہ کاری کا اظہار کر رہی ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ، حکومت دل سے مذاکرات بھی چاہتی ہے، لیکن ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب امریکہ کے دورے پر جا رہے ہیں، وہاں دہشت گردی کے سدباب کے لیے پاکستانی کوششوں پر لازمی بات ہوگی۔ 

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی شرطِ اول ہے کہ امریکہ کی جانب سے کئے جانے والے ڈرون حملے بند ہو جائیں، کیا وزیرِاعظم ڈرون حملے بند کرا آئیں گے؟ اگر نہیں تو پھر مذاکرات کیسے ہوں گے؟ حکومت کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک ہی وقت میں اس کے لیے امریکہ اور ان عرب ممالک کو راضی کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، جو طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں۔ آخری تجزیے میں ریاست اپنی بقا کے لیے دہشت گردوں کی شرائط تسلیم نہیں کیا کرتی بلکہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں کسی ریاست نے دہشت گردوں سے مذاکرات کرکے انھیں ریاستی قوانین کا تابع بنایا ہو۔ المیہ مگر یہ ہے کہ حکومت یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہی کہ اس نے کرنا کیا ہے؟ صرف باتوں سے تو امن قائم ہونے سے رہا۔


خبر کا کوڈ: 312441

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/312441/المیہ-اور-کیا-ہوتا-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org