QR CodeQR Code

مسجد اقصیٰ خطرے میں ہے

25 Oct 2013 16:23

اسلام ٹائمز: آج سے تیرہ برس قبل صیہونی غاصب ریاست کا وزیراعظم ایریل شیرون اعلانیہ طور پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا تھا جس کے بعد فلسطینیوں نے قبلہ اول کے تقدس کی پامالی کے خلاف (اسرائیل کے خلاف) دوسرے انتفاضہ کا آغاز کر دیا تھا، اس دن کے بعد سے آج تک متعدد مرتبہ صیہونی شدت پسند مسجد اقصیٰ میں نہ صرف داخل ہوتے رہے ہیں بلکہ اپنی خاص عبادات جسے تلمودی عبادات کہا جاتا ہے بھی انجام دینے کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ (قبلہ اول) میں رقص کی محافل بھی بپا کرتے رہے ہیں۔


تحریر: صابر کربلائی 
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان و ریسرچ سکالر) 

مسجد اقصیٰ جو کہ عالم اسلام کے لئے نہ صرف ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ مسلمانان عالم کا قبلہ اول بھی ہے جسے بیت المقدس کے نام سے جانا جاتا ہے، اور آج مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) خطرے میں ہے، القدس غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے غاصبانہ تسلط میں ہے اور القدس کو دور حاضر میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ یوں تو فلسطین کے بارے میں بات کی جائے تو فلسطین اور فلسطینی عوام درجنوں مسائل اور ان گنت مصائب کا سامنا کر رہے ہیں جن میں غزہ کا اسرائیلی محاصرہ، فلسطین میں فلسطینی سرزمینوں پر یہودی بستیوں کا قیام، فلسطینیوں کے کھیتوں پر اسرائیلی قبضہ، فلسطین کی سمندری حدود پر صیہونیوں کا غاصبانہ تسلط سمیت فلسطینیوں پر صیہونی غاصب افواج کے حملے، جنگیں اور درجنوں مسائل موجود ہیں لیکن ان تمام مصائب اور مسائل میں سب سے اہم مسئلہ قبلہ اول کو یہودیانے کا ہے جسے غاصب اسرائیل نے گذشتہ تیرہ برسوں میں مزید تیز کر دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ القدس کو صیہونیوں سے درپیش خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

آج سے تیرہ برس قبل صیہونی غاصب ریاست کا وزیراعظم ایریل شیرون اعلانیہ طور پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا تھا جس کے بعد فلسطینیوں نے قبلہ اول کے تقدس کی پامالی کے خلاف اسرائیل کے خلاف دوسرے انتفاضہ کا آغاز کر دیا تھا، اس دن کے بعد سے آج تک متعدد مرتبہ صیہونی شدت پسند مسجد اقصیٰ میں نہ صرف داخل ہوتے رہے ہیں بلکہ اپنی خاص عبادات جسے تلمودی عبادات کہا جاتا ہے بھی انجام دینے کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ (قبلہ اول) میں رقص کی محافل بھی بپا کرتے رہے ہیں۔ مزید اس پر ظلم یہ ہے کہ فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے سے بھی روک دیا جاتا ہے جوکہ نہ صرف ریاست کے قوانین کے خلاف بات ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے بھی دیکھا جائے تو کسی شخص کو اس کی اپنی عبادتگاہ میں داخلے سے نہیں روکا جا سکتا لیکن یہاں اسرائیل نے تو الگ ہی قانون بنا رکھا ہے کہ مسلمانوں کی عبادتگاہ میں گھس کر قبضہ کرو اور پھر مسلمانوں کو ہی اپنی عبادتگاہ میں داخلے سے روک دو۔

حال ہی میں ایک مرتبہ پھر صیہونیوں نے اپنے ایک مذہبی تہوار کو منانے کے لئے مسجد اقصیٰ میں داخلے کا اعلان کیا جس کے بعد فلسطین بھر میں صیہونیوں کے خلاف زبردست احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔  16ستمبر کو اسرائیلی کی جارح پارلیمنٹ جسے کنیسٹ کہا جاتا ہے نے ایک قانون منظور کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں داخل ہو کر اپنی عبادات ادا کریں اور مسلمانوں کو اس دوران مسجد اقصیٰ میں داخلے پر پابندی ہو گی۔ آخر کار وہی ہوا، صیہونیوں کے منظور کردہ قانون کے مطابق تمام صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر مسجد کی نہ صرف بےحرمتی کی بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل دکھانے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کی بھی دھجیاں اڑا کر ثابت کر دیا کہ اسرائیل ایک غیر قانونی ریاست ہے جو دنیا کے کسی قانون کو نہیں مانتی ہے۔ 

دوسری طرف صیہونی غاصب ریاست اسرائیل نے القدس میں جگہ جگہ فوجی چوکیاں قائم کر دی ہیں جہاں پر بیٹھے صیہونی فوجیوں کا صرف یہ کام ہوتا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والے مسلمان فلسطینیوں کو روک کر ان کو تنگ کرتے ہیں اور ان کو مسجد اقصیٰ کی طرف جانے سے روکتے ہیں، اس طرح صیہونی یہ چاہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ پر اپنا تسلط قائم کر لیں اور بیت المقدس کو یہودیا بنا لیا جائے۔ اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے ان تمام اقدامات کا مقصد فلسطینی مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ سے دور رکھ کر قبلہ اول پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنا ہے۔ اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کو روز مرہ کے ایام میں مسجد اقصیٰ میں داخل نہیں ہونے دے رہا ہے بلکہ مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز پر بھی پابندی عائد کر دی جاتی ہے تا کہ مسلمانوں کا بڑا اجتماع مسجد اقصیٰ میں انجام نہ پائے۔

غاصب اسرائیل چاہتا ہے کہ بیت المقدس کو مسلمانوں اور صیہونیوں کے درمیان تقسیم کر دے جس کے لئے کئی برس قبل صیہونی یہ کام انجام دے چکے ہیں اور مسجد ابراہیم کو مسلمانوں کو لئے مختص کر دیا گیا ہے جبکہ بیت المقدس کو یہودیوں کی جاگیر قرار دیا جا رہاہے، جو کہ اسلام کے مقدسات کی توہین کے مترادف ہے۔ کیونکہ حال ہی میں اسرائیلی کنیسٹ نے بھی قانون سازی کرتے ہوئے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسجد ابراہیم مسلمانوں کے لئے وقف کر دی جائے جبکہ بیت المقدس کو یہودیوں کی عبادت گاہ قرار دیا جائے، در اصل اسرائیل القدس کو جو کہ مسلم امہ کا مقدس مقام ہے اسے یہودیانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔

اسرائیلی کنیسٹ کے چند اراکین نے یہ تجویز بھی پیش کر دی ہے کہ صیہونیوں کے لئے مسجد اقصیٰ کو ہر وقت کھلا رکھا جانا چاہئیے اور تمام دروازے ان کے لئے کھلے رکھے جائیں تا کہ صیہونی جہاں سے چاہیں مسجد اقصیٰ میں داخل ہو جائیں، اسی تجویز کے پیش نظر حال ہی میں یہودیوں کے ایک تہوار کے موقع پر مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے لئے مکمل طور پر کھلا رکھا گیا تھا اور فلسطینیوں کو مستقل طور پر کئی روز تک مسجد میں داخلے پر پابندی عائد رکھی گئی تھی، اس دوران فلسطین میں لا کر بسائے جانے والے یہودی آباد کاروں اور صیہونی دہشت گردوں کو کھلی آزادی حاصل تھی کہ وہ جب چاہیں مسجد اقصیٰ میں کسی بھی دروازے سے داخل ہو جائیں۔ واضح رہے کہ اس دوران صیہونیوں نے درجنوں مرتبہ مسجد اقصیٰ میں رقص کی محافل منعقد کر کے مسجد اقصیٰ کے تقدس کی پامالی کی جس پر پورے فلسطین میں غم و غصہ کی لہر پائی جاتی ہے۔
دنیا بھر کی وہ ریاستیں جو خود کو قانون کا علمبردار اور انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیتی ہیں فلسطین میں ہونیوالی تمام ناانصافیوں پر ہمیشہ کی طرح خاموش رہتی ہیں، مسلم امہ کے حکمران امریکہ کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں لیکن ان کو مسجد اقصیٰ جو کہ مسلمانوں اور اسلام کے مقدسات میں سے ہے کی صیہونیوں کے ہاتھوں ہونے والی توہین نظر نہیں آتی بلکہ مسلم حکمران تو صرف اور صرف امریکہ کی خوشامد میں مصروف ہیں اور اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اسرائیل سے بہتر تعلقات قائم کر لئے جائیں، شرم کا مقام ہے۔


خبر کا کوڈ: 313245

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/313245/مسجد-اقصی-خطرے-میں-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org