1
0
Sunday 27 Oct 2013 14:03

سعودی عرب کی امریکہ سے ناراضگی

سعودی عرب کی امریکہ سے ناراضگی
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

ان دنوں سعودی عرب کی طرف سے سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کو مسترد کرنے کی خبر پر سعودی حکومت کی ”جرات مندی“ بعض حلقوں میں موضوع سخن بنی ہوئی ہے۔ 17 اکتوبر 2013ء کو سعودی عرب کو چاڈ، چلی، لیتھونیا اور نائیجریا سمیت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب کیا گیا تھا جس کے بارے میں سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے ہی روز سعودی حکومت نے اقوام متحدہ کو دوہرے معیارات کا حامل قرار دے کر اسے مسترد کر دیا۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں سعودی حکومت کو یہ موقع پہلی مرتبہ نصیب ہوا تھا۔ غیر مستقل اراکین کی رکنیت کی مدت دو برس ہوتی ہے۔ جب سلامتی کونسل کو کوئی فیصلہ کثرت رائے سے کرنا ہوتا ہے تو یہ رکنیت کسی حد تک اہمیت اختیار کر جاتی ہے لیکن پانچ ویٹو پاورز امریکا، برطانیہ، روس، چین اور فرانس میں سے کوئی ایک اگر کسی قرارداد کو مسترد کردے تو باقی تمام اراکین کا اجتماع بھی سلامتی کونسل کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد نہیں دیتا۔ تاہم اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے اس اقدام کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے اس اقدام کو ”عجیب“ قرار دیا ہے۔

سرکاری سرپرستی میں چلنے والی ویب سائٹ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے شام میں گذشتہ اڑھائی برس سے جاری تنازعے کے حل کے لیے کوئی اقدام نہ ہونے کے ردعمل میں یہ اقدام کیا۔ ویب سائٹ کے مطابق، سعودی عرب پہلے تو صرف روس اور چین سے شام کے حوالے سے نالاں تھا مگر اب وہ امریکا سے بھی مایوس ہوچکا ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے لیے معاہدے سے اب شامی صدر بشارالاسد کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان ختم ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کو اب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام کے بارے میں مصالحتی سلسلہ جنبانی شروع ہونے پر بھی تشویش لاحق ہے اور اسے یہ خدشہ لاحق ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان مفاہمت سے خطے کی سیاست میں اسے بالآخر نقصان پہنچ سکتا ہے۔

سعودی عرب کی اس ناراضی کو دور کرنے کے لیے یا پھر ”نئے عالمی حقائق“ سے آگاہ کرنے کے لیے امریکا نے بھی اپنی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کی واشنگٹن میں موجودگی کے دوران میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل سے پیرس میں ان کی نجی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کے موقع پر شہزادہ سعود الفیصل نے 21 اکتوبر کو جان کیری کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام کیا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق، اس ملاقات سے قبل ایک سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ وہ ان تمام ایشوز پر تفصیل سے گفتگو کریں گے جن میں ان کے درمیان عدم اتفاق پایا جاتا ہے تاکہ ان میں اختلاف کی خلیج کم سے کم ہو سکے۔ اس امریکی عہدے دار نے برطانوی خبر رساں ادارے رائیٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”واشنگٹن اور ریاض ان مشترکہ مقاصد کے حوالے سے متفق ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو نیز شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ اور مصر میں استحکام ہونا چاہیے لیکن ان کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہے کہ ان مقاصد کو کیسے حاصل کیا جائے۔“

جہاں تک سعودی عرب کے اس اقدام کا تعلق ہے اس پر پوری دنیا میں مختلف طرح کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ میں عرب گروپ نے سعودی عرب کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے جب کہ قطر نے سعودی اقدام کی زبردستی حمایت کی ہے۔ قطر کی حمایت کو شام اور ایران کے حوالے سے دونوں ممالک کی مشترکہ پالیسی کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب خود دہرے معیارات پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف وہ شام میں حکومت مخالف جنگجوﺅں کی سرپرستی کررہا ہے اور دوسری طرح بحرین میں اپنے جمہوری حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کو کچلنے کے لیے بحرین کی شاہی حکومت کی حمایت میں اس نے اپنی فوج داخل کر رکھی ہے۔ سعودی عرب پر یہ بھی اعتراض ہے کہ اس نے مصر کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والی فوج کی نہ فقط زبانی حمایت کی بلکہ سب سے بڑھ کر اس کو مالی مدد فراہم کی۔ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے 2011ء میں عالمی سطح پر مذاہب کے مابین مکالمے کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا اور اپنے ملک میں مسلمانوں کے مابین یکجہتی کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ایرانی نمائندگان کو نمایاں اہمیت دی گئی آج وہی سعودی حکومت شام میں حکومت کے خلاف مسلح تحریک کی حمایت اور سرپرستی میں پیش پیش ہے جو فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو اپنے سب سے اہم حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

مبصرین اس سوال کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا سعودی عرب کی امریکا سے ناراضی دیرپا ثابت ہوگی یا پھر یہ وقتی ہے۔ سعودی خاندان کے مغربی طاقتوں سے دیرینہ مراسم اور ان پر اس کے انحصار کو پیش نظر رکھا جائے تو اس سوال کا جواب نہایت آسانی سے دستیاب ہو سکتا ہے۔ سعودی خاندان کو خود اپنے خطے اور داخلی طور پر جزیرہ نمائے عرب کے عوام میں جس درجے کی ”مقبولیت“ حاصل ہے اس کو سامنے رکھا جائے تو بھی یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ یہ ”ناراضی“ بالکل وقتی اور سطحی ہے۔ امریکا بھی اس حقیقت کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔ امریکا اور سعودی خاندان کے درمیان ”طرفین کی سہولت پر مبنی اس شادی“ کو فی الحال ”طلاق“ کا کوئی اندیشہ لاحق نہیں۔ سعودی خاندان تو بحرین میں امریکا کے پانچویں بحری بیڑے کے خاتمے کے اپنے لیے ”منفی اثرات“ کو برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا چہ جائیکہ پورے خطے میں امریکی انحصار سے علیحدگی۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سیکٹرری جنرل بان کی مون کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ اقوام متحدہ کو سرکاری طور پر سعودی عرب کی طرف سے سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کو مسترد کیے جانے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

سلامتی کونسل کی رکنیت کو ٹھکرانے کا اعلان کرتے ہوئے سعودی عرب نے عرب عوام اور مسلم دنیا کے سامنے احتیاطی طور پر فلسطین کا نام بھی لیا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ فلسطینی کاز سے سعودی عرب کی دلچسپی ماضی میں کس درجے کی رہی ہے۔ وہی سعودی عرب جس نے شام میں دہشتگردوں کی حمایت میں انتہا کردی، اخوان المسلمین کی حکومت کے مصر میں خاتمے کے لیے زیر زمین سازشوں میں حصے دار رہی ہے، حماس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ہموار کرنے میں ہمیشہ سرگرم عمل رہی، لبنان میں اپنی سرزمین کا دفاع کرنے والوں کے خلاف کھل کر کردار ادا کرتی رہی اور جس نے بحرین میں اپنے حقوق کے لیے اٹھنے والے عوام کو اپنے ٹینکوں کے نیچے روندنے کے لیے اپنی افواج بحرین کی سرزمین میں داخل کیں اس نے آج تک ایک گولی بھی فلسطینی حقوق کے لیے نہیں چلائی۔ ایسے میں فلسطین کا نام لینا مسلم رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا یہی وجہ ہے کہ ایک اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے یہ کہہ کر سعودی فیصلے کا مضحکہ اڑایا ہے.
:
After Saudi Arabia became the first country to reject a seat on the UN Security Council on Friday, speculation has been rife as to why.
Was it because of Israel and the Palestinian issue, or – more likely – because of frustration and anger directed at the US and other world powers over inaction in Syria and the recent rapprochement underway with Iran?
جب سے سعودی عرب نے جمعہ کے روز یو این کی سلامتی کونسل کی سیٹ کو ٹھکرایا ہے اس وقت سے چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیا یہ اسرائیل اور فلسطین کی وجہ سے تھا یا اس کا سبب وہ جھنجلاہٹ اور غصہ ہے جو شام کے معاملے پر امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے اقدام نہ کرنے پر نیز ایران کے بارے میں نئی حکمت عملی کے خلاف تھا۔

اخبار مزید لکھتا ہے:
Perhaps the general dysfunction of the council, along with the blocking action by China and Russia preventing effective measures against Syria and Iran, have left the Saudis feeling they have nothing to gain from joining.

شاید کونسل کی عمومی عدم فعالیت کے ساتھ چین اور روس کی جانب سے شام اور ایران کے خلاف موثر انضباطی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا کرنے کے سبب سعودیوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ سلامتی کونسل کی رکنیت اختیار کرنے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

یروشلم پوسٹ سعودی حمایت یافتہ اخبار الشرق الاوسط میں حسین سبوخچی کے ایک کالم کا حوالہ دیتے ہوئے کالم نگار کا نظریہ یوں بیان کرتا ہے:
“Saudi Arabia made the Syrian revolution one of the pillars of its foreign policy
.
سعودی عرب نے شام میں انقلاب کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی ستون بنا لیا ہے۔

آگے چل کر اخبار اقوام متحدہ میں ایک سابق اسرائیلی سفیر اور یروشلم سنٹر برائے پبلک افیئرز کے صدر ڈور گولڈ کی رائے ان الفاظ میں بیان کرتاہے:
As a result of Bashar Assad’s concession of chemical weapon disarmament, “his government has gotten a new international lease on life, thereby undermining the entire Saudi strategy in Syria for the last two years and providing an enormous victory for Iran
.”
کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں بشارالاسد کی طرف سے دی گئی رعایت کے نتیجے میں اس کی حکومت کو عالمی سطح پر ایک نئی زندگی مل گئی ہے اس کے نتیجے میں گذشتہ دو سال سے شام کے بارے میں جاری سعودی حکمت عملی کھوکھلی ہو کر رہ گئی ہے جس سے ایران کو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی ہے۔
سعودی عرب کا اصل غم سمجھنے کے لیے یہ عبارات کافی ہونا چاہئیں۔
مصنف : تنویر حیدر سید
خبر کا کوڈ : 314639
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

piyara kalum hai. khoda salamat rakay
ہماری پیشکش