0
Tuesday 29 Oct 2013 19:52

نواز شریف اوباما ملاقات اور پاکستانی مفادات

نواز شریف اوباما ملاقات اور پاکستانی مفادات
تحریر: ابن آدم راجپوت

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے دورہ امریکہ کو حکمران پارٹی مسلم لیگ نون حسب معمول کامیاب قرار دے رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی حمایت اور قومی معاملات میں نواز شریف کو تعاون کے یقین کے باوجود دورے سے کیا حاصل ہوا، یہ حکمرانوں کی باڈی لینگوئج اور وضاحتوں سے واضح ہے۔ امیدیں باندھی اور بندھوائی جارہی ہیں۔ میڈیا نے تو اس ایشو کو خوب اچھالا، بہت امیدیں پیدا کیں، ایسے ہی جیسے کہ ملالہ یوسف زئی کو نوبل ایوارڈ کے لئے ہاٹ فیورٹ قرار دیتا رہا۔ دورے سے پہلے بھی سنجیدہ تجزیہ کار یہی کہتے رہے کہ امریکہ سے کسی بھی قسم کی انڈرسٹینڈنگ سے پہلے وزیراعظم کے دورے کا کوئی فائدہ نہیں تھا اور کم از کم وزیراعظم کو خود نہیں جانا چاہیے تھا، لیکن میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم نے خود بھی تو سوچا ہوگا کہ انہیں دورہ امریکہ سے ملا کیا ہے۔؟
ایک مفاہمت شروع اور ملاقات ضرور ہوئی ہے کہ وزیراعظم نے 11 مئی کے عام انتخابات کے نتیجے میں اقتدار حاصل کیا ہے اور پاکستان کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، ان کا کسی نہ کسی طرح سے تعلق امریکہ اور اس کی ایجنسیوں سے ضرور رہا ہے۔ اس لئے یہ ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ تعلقات کے حوالے سے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

دورہ امریکہ میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور خاص طور پر ڈرون حملوں کی شکل میں جو دہشت گردی خود امریکہ پاکستان پر مسلط کئے ہوئے ہے، اس کا کوئی مداوا نہیں ہوا، بلکہ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں بھی امریکی صدر باراک اوباما اس کا جواب گول کرگئے، یعنی انہوں نے تو اس پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس سے بڑھ کر امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان کا بیان دلچسپی سے خالی نہیں۔ جس میں بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ڈرون حملے بند کرنے کا کہا اور ہم نے سن لیا ہے۔ اس سے آگے کچھ نہیں اور درحقیقت وزیراعظم کا دورہ بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ میاں نواز شریف امریکہ گئے۔ انہوں نے نائب صدر کے ساتھ کھانا کھایا اور امریکی صدر سے ملاقات کی۔ میاں نواز شریف نے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا، جو باراک اوباما نے سن لیا اور پھر بس آگے کچھ نہیں۔

پاکستان کو سب سے زیادہ امید تھی کہ امریکہ توانائی کے بحران پر قابو پانے میں اس کی مدد کرے گا۔ مگر معاہدہ تو بہت دور کی بات، سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر کوئی وعدہ تک نہیں کیا گیا۔ رہی بات ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی تو اس کو سراہا جانا چاہیے کہ میاں نواز شریف نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر سے اس موضوع پر بات کی ہے اور یہ انکے ایجنڈے میں شامل تھا۔ اب امریکہ کی دلچسپی اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد دینے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل کی رہائی ہے۔ جس پر دونوں ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ ڈاکٹر شکیل کو دی جانے والی سزا کے خلاف عدالت میں کیس جاری ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ عدالتی فیصلہ امریکی مفادات کے عین مطابق ہوگا۔ پھر شاید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے میں پاکستان کو اپنے غدار شہری کو امریکہ کے حوالے کرنا پڑے گا اور پھر امکان ہے کہ عافیہ صدیقی رہا ہو جائیں گی۔

کشمیر پر بیک ڈور ڈپلومیسی تو پہلے بھی جاری تھی، اب پاکستان امریکہ کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ ثالثی کروا دے جو کہ فی الحال نظر نہیں آتا اور شاید اس کے لئے پاکستان کو بھارت کے ساتھ مل کر کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا ہوگا۔ جس کی شروعات فروری 1999ء میں خود مسلم لیگ نون ہی کی حکومت کرچکی تھی۔ دورہ امریکہ کے میڈیا میں آنے والے مندرجات سے واضح ہے کہ امریکی صدر نے پاکستانی وزیراعظم کو احکامات زیادہ دیئے اور پوچھ گچھ کی، جبکہ پاکستان صرف منت سماجت تک ہی محدود رہا۔ جو کہ افسوسناک ہی نہیں اقوام کی تقدیر میں خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 315279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش