0
Tuesday 20 Jul 2010 13:07

پاک افغان تجارتی معاہدہ؟

پاک افغان تجارتی معاہدہ؟
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا دورہ پاکستان شروع ہوتے ہی بھارت اور افغانستان کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔بھارت کئی عشروں سے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا کہ اسے واہگہ اور تورخم کے راستے اپنی برآمدات افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچانے کی اجازت مل جائے۔مگر پاکستان آڑے آرہا تھا۔کیونکہ اسکے نتیجے میں نہ صرف اسکے تجارتی مفادات متاثر ہوتے ہیں،بلکہ اسکی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔لیکن امریکی دباؤ کے تحت بھارت نے وہ کچھ حاصل کر لیا،جس کا خواب وہ طویل عرصہ سے دیکھ رہا تھا۔
 پاکستان اور افغانستان کے مابین اتوار کو ایک وسیع البنیاد مفاہمتی دستاویز پر دستخط ہوئے ہیں، جسکی رو سے بھارت کو واہگہ کے راستے افغانستان کیلئے برآمدات کی بالواسطہ اجازت مل گئی ہے۔اسے افغانستان تک اپنے سامان کی نقل وحمل کیلئے پاکستان کے فضائی اور سمندری راستے استعمال کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔سمجھوتے کے تحت پاکستان کو بھی افغانستان کے راستے اپنی برآمدات وسط ایشیاء کے ممالک تک لے جانے کی سہولت مل گئی ہے اور بظاہر یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے،مگر عملی طور پر کوئی نئی بات نہیں۔پاکستان کی برآمدات تو پہلے ہی افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں کو جا رہی ہیں۔البتہ اس معاہدے میں راہداری کی اس سہولت کو ایک باقاعدہ شق کے تحت تحفظ دے دیا گیا ہے،جبکہ اصل فائدہ امریکہ کے گٹھ جوڑ سے بھارت اور افغانستان نے اٹھایا ہے۔افغانستان کو اپنی اشیاء فضائی راستہ استعمال کرتے ہوئے واہگہ سے بھارت برآمد کرنے کی اجازت ہو گی۔مفاہمتی دستاویز جسے بہت جلد قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد باقاعدہ معاہدے کی شکل دے دی جائے گی،کے تحت افغانستان کا برآمدی سامان لے جانے والے ٹرکوں کو واہگہ اور پاکستانی بندرگاہوں تک طے شدہ روٹس کے ذریعے جانے کی اجازت ہو گی۔
معاہدہ کی رو سے پاکستان نے افغانستان کو اپنی سمندری حدود کے علاوہ فضائی حدود حتیٰ کہ زمینی راستے سے بھی بھارتی برآمدات منگوانے کی اجازت دے دی ہے۔وفاقی وزیر تجارت امین فہیم نے دستاویز پر دستخط کے بعد بتایا کہ افغان تجارتی سامان کو کراچی سے لے کر افغانستان کی سرحد تک ترسیل کیلئے راہداری دی جائے گی،جبکہ لاہور کے قریب واہگہ بارڈر سے تجارتی سامان کو افغان ٹرکوں پر لاد کر افغانستان بھیجا جا سکے گا۔معاہدے کے تحت بھارت کے ٹرک واہگہ بارڈر پر سامان اتارنے کے پابند ہوں گے،جسے پاکستانی یا افغان ٹرکوں پر لاد کر افغانستان روانہ کیا جائے گا۔ افغانستان کا برآمدی سامان جس میں زیادہ ترخشک اور تازہ پھل شامل ہیں،پہلے ہی پاکستانی شاہراہوں سے گزر کر واہگہ کے راستے بھارت جا رہا ہے اس لئے وہاں سے کوئی نئی اشیاء کی تجارت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں،البتہ اس سے سمگلنگ میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔جس سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ 
بھارتی سامان افغانستان پہنچنے کی بجائے سمگل ہو کر پاکستان میں ہی بکنا شروع ہو جائے گا۔ افغان ٹرانسپورٹ گاڑیاں واپسی میں پاکستانی مصنوعات اور اشیاء افغانستان لے جائینگی۔اس سے پاکستانی ٹرانسپورٹروں اور کنٹینر مالکان کو نقصان پہنچے گا۔چنانچہ چمن کے تاجروں نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ افغان ٹرکوں کو چمن سے نہیں گزرنے دیں گے۔پاک افغان ٹرک یونین کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ افغان ٹرکوں کو واہگہ سرحد اور کراچی تک جانے کی اجازت دینے سے سینکڑوں ملکی ٹرانسپورٹرز تباہ ہو جائینگے،اور اس صنعت سے وابستہ ہزاروں مقامی مزدور اور دوسرے لوگ بے روزگار ہو جائینگے۔ افغان ٹرکوں کو پاکستانی شاہراہیں استعمال کرنے کا موقع دینے کا فیصلہ متعلقہ شعبے سے وابستہ پاکستانیوں کے معاشی قتل عام کے مترادف ہے۔اس لئے چمن کے راستے افغان ٹرکوں کو پاکستان کے اندر داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
عوامی اور تجارتی حلقوں نے نئے پاک افغان ٹریڈ ایگریمنٹ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے مفادات کے سراسر منافی قرار دیا ہے۔ان حلقوں کی رائے میں امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کا بنیادی مقصد ہی اس معاہدے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالنا تھا۔ان حلقوں کے مطابق اب اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف تخریب کاری کیلئے استعمال کر رہا ہے،تاکہ اسے غیر مستحکم کیا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والے تجارتی معاہدے سے بھارت کو اپنے عزائم کی تکمیل میں مدد ملے گی۔پاکستان کی تاجر برادری کو اس طرح کے معاہدے پر پہلے بھی اعتراض تھا،اور اب بھی ہے۔ان کے تحفظات دور کئے بغیر اس معاہدے کو قابل عمل نہیں بنایا جا سکتا۔حکومت کو چاہئے کہ محض ایک بڑی طاقت کے ناروا دباؤ پر اپنے ملک کے مفادات کو داؤ پر نہ لگائے،اسے ملکی مفاد کو اولیت دینی چاہئے۔بہتر ہو گا کہ اس مقصد کیلئے عوام سے تجاویز طلب کی جائیں۔ 
تاجروں کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کی جائے اور ان کی روشنی میں کوئی لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔وفاقی وزیر تجارت،تاجروں اور صنعت کاروں کی کانفرنس بلا کر معاہدے کے مضمرات کا جائزہ لیں اور مشترکہ تجاویز تیار کر کے معاہدے پر نظرثانی کریں۔امریکہ کو بھی چاہئے کہ وہ پاکستان پر بلاجواز دباؤ نہ ڈالے۔پاکستان اس کا اتحادی ہے اور اس اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے وہ جان و مال کی بے پناہ قربانیاں دے رہا ہے۔اس سے اب مزید قربانیوں کاتقاضا نہ کیا جائے۔
 "روزنامہ جنگ"

خبر کا کوڈ : 31597
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش