0
Saturday 2 Nov 2013 23:03

حکیم اللہ محسود، بربریت کا ایک باب بند ہوگیا

حکیم اللہ محسود، بربریت کا ایک باب بند ہوگیا
تحریر: ابو فجر

ہزاروں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو بے رحمی سے ہلاک کرنے کی خونی وارداتوں کا ماسٹر مائنڈ، عصر جدید کا خونخوار ڈریکولا حکیم اللہ محسود خود بھی آخرکار بے موت مارا گیا۔ شنید ہے اسے ہلاک کروانے کیلئے خود اس کے دست راست لطیف اللہ محسود نے امریکیوں کو رہنمائی دی، جنہوں نے ایک مغربی ٹیلی ویژن کے ساتھ اس کے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کرکے نہایت ہنرمندی کے ساتھ اس کی گاڑی میں وہ ’’کمپیوٹر چپ‘‘ چپکا دی، جس نے گذشتہ رات اس کی ڈرون ہلاکت کا سامان کیا، واللہ اعلم۔۔۔ امریکی ڈرونز حملوں میں سے یہ حملہ اس لحاظ سے اہم ترین شمار کیا جا رہا ہے کہ اس میں ایک ایسا شخص ہلاک ہوا جس نے نہایت کم عمری میں اپنی شیطانی سوچ سے انسانیت سوز مظالم کی ایسی تاریخ رقم کرنے کا آغاز کیا جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی تھی۔ اس کی بھیڑیائی جبلت نے پاکستان کے گلی کوچوں میں عورتوں، بچوں سمیت انسانوں کا جس بے رحمی سے خون بہایا، وہ اپنی جگہ ایسی قابل نفرین داستان ظلم و ستم ہے جس پر تاریخ انسانیت ہمیشہ اسے مطعون کرتی رہے گی۔

دینی مدرسے کا بھگوڑا طالبان نامی تحریک کے سربراہ کے طور پر پاکستان جیسی نظریاتی مملکت میں ایک ایسے خودساختہ اسلامی نظام اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتا رہا، جس کی ابجد کے بارے میں خود کچھ بھی نہیں جانتا تھا اور یہی حال طالبان نامی تحریک میں شامل ان سب جرائم پیشہ عناصر کا ہے جو محض اپنی مجرمانہ جبلت کی تسکین کیلئے اس مسلح طاقتور گروہ میں شامل ہو کر جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے نکلے ہوئے ہیں۔ ان کی اکثریت قرآن و سنت، فقہ و حدیث اور علوم دینیہ کے بحر ذخار کے شناور ہونا تو دور کی بات ،دین کی بنیادی واجبی معلومات سے بھی بے بہرہ اور لاعلم تھی اور ہے۔ اسی لئے یہ لوگ بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں نہ صرف یہ کہ ذرا سا تامل نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی سفاکیت ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ گئی۔ حکیم اللہ محسود ایک خودپسند، جاہ پرست اور دولت کا ایسا پجاری تھا جس نے اغوا برائے تاوان کی گھناؤنی وارداتوں اور بھتہ خوری کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس نے کئی گھرانوں کی نیندیں اچاٹ کر دیں، ہزاروں انسانوں کو زندہ درگور کر دیا، بے گناہ و معصوم بچوں کو یتیم اور جوان سہاگنوں کو بیوگی کے عذاب سے دوچار کر دیا۔

وحشت و بربریت کی علامت یہ شخص خودپرستی اور خودنمائی کا چلتا پھرتا نمونہ تھا جسے میڈیا والوں سے یارانہ گانٹھنے اور انہیں اپنے حق میں استعمال کرنے کا ہنر بھی خوب آتا تھا۔ اپنے تحریکی کارکنوں کیساتھ بھی اس کے جبر و استبداد کے ان گنت واقعات نے اسے طالبان حلقوں میں ایک بے رحم آدمی کے طور پر بدنام کر رکھا تھا مگر حیران کن طور پر اس سے رابطے میں رہنے والے میڈیا پرسنز اس کی دن رات ستائش اور مدح میں مصروف رہتے تھے۔ اس کیساتھ ساتھ خود کو علماء کی صف اول میں شمار کرنیوالے مذہبی سیاست دان بھی اپنے مخصوص مقاصد کیلئے ان بے رحم اور سفاک جرائم پیشہ عناصر کے ہمدرد و بہی خواہ بن کر مطلب برآری میں مصروف رہے، کئی ایک بزعم خویش لیڈرز حکومت کو ان سے مذاکرات کروانے کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے رہے مگر کسی میں بھی اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ مبینہ طور پر طالبان کے نرغے میں سے ان مغوی لوگوں کو بازیاب کروا کر لاسکے، جنہیں ان درندہ صفت عناصر نے عرصہ دراز سے اپنے ہاں محض اس لئے محصور کر رکھا ہے کہ ان کے سرپرست ان کیلئے تاوان کی ان بھاری رقوم کا بندوبست نہیں کر سکے جن کا یہ طالبان ان سے مطالبہ کر رہے ہیں، مبینہ طور پر ان میں سابق گورنر سلمان تاثیر کا بیٹا شہباز تاثیر اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا بیٹا بھی شامل ہے۔

شنید ہے کہ یہ دونوں طالبان کے ایک گروہ سے دوسرے کے ہاتھ فروخت ہوتے ہوتے حکیم اللہ محسود کے گروہ کے ہاتھ لگے اور ابھی تک اسی کے پاس تھے۔ ان جرائم پیشہ طالبان کے کردار و عمل کا جائزہ لیا جائے تو کون ذی فہم اس بات پر اعتبار کرنے کو تیار ہوگا کہ ان نام نہاد اسلامی شدت پسندوں کا دین سے کوئی واجبی سا تعلق بھی ہوسکتا ہے۔ اسلام تو امن و سلامتی کا دین ہے۔ آقا و مولا نے تو اپنی فوجوں کو کوئی علاقہ فتح کرنے پر مفتوحہ علاقے میں درختوں اور فصلوں تک کو تباہ کرنے سے روک دیا تھا چہ جائیکہ بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جائے۔ اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا بنیادی سبب یہ تھا کہ مسلمان جہاں فاتح بن کر داخل ہوئے، انہوں نے جنگ میں شریک ہتھیار بند لوگوں کے سوا سب کیلئے امن و سلامتی کا اعلان کرکے انہیں آبرومندانہ زندگی کرنے کی ضمانت دی۔ کسی مفتوحہ علاقے میں لوگوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ ان علاقوں کے لوگوں نے مسلمانوں کے کردار و عمل اور اخلاق سے متاثر ہو کر ازخود برضا و رغبت اسلام قبول کیا تو کیا۔ مسلمان حاکموں کی طرف سے جبراً ان پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی، جبکہ ہمارے یہ خودساختہ شریعت نافذ کرنے والے طالبان تو اپنی قوت تسلیم کروانے کے خوگر اور اپنی حاکمیت قائم کرنے کیلئے حدود سے گزرنے والے ہیں۔

اسلام عورتوں کو برابر کے انسانی حقوق دیتا ہے جبکہ ان کے نزدیک عورت گائے بھینس کی طرح زرخرید جانور اور غلام سے زیادہ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ حیرت ہے کہ عمران خان جیسا مغرب زدہ جدید تعلیم یافتہ شخص بھی انہی قدامت پسند، تنگ نظر اور متعصب لوگوں کا حمایتی ہے جو خود اس کی جماعت کی کے پی کے میں حکومت کے سخت خلاف ہیں اور اس کی جماعت کے کئی عہدیداروں کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی خاطر عمران خان کی جانب سے نیٹو سپلائی بند کرنے کی دھمکی پاکستان کو امریکہ سے بھڑوانے کی ایسی فاش غلطی ثابت ہوگی جس کے مابعد اثرات سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عمران خان کو اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ اقدام سے اجتناب کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی خارجہ پالیسی کے مطابق چلنا چاہئے۔ پاکستان ان شدت پسندوں کی احمقانہ اور وحشیانہ کارروائیوں کی وجہ سے پہلے ہی دنیا میں اپنا مقام کھو چکا ہے۔ اب کسی جذباتی تشخص کا اشتعال انگیز اقدام دنیا میں ہمیں مزید تنہائی کا شکار بنا سکتا ہے۔ معاشی گرداب میں گھرے پاکستان کیلئے کسی نئے بحران کا سامنا کرنا دشوار ترین امر ہوگا۔ یہ وقت وقتی طور پر جذباتیت کی رو میں بہہ جانے کا نہیں بلکہ نہایت دانشمندی اور صبر و استقامت سے قومی اتحاد و یگانگت کی فضا پیدا کرنے کا ہے، تاکہ ملک و قوم کو درپیش مسائل سے بحسن و خوبی نمٹا جاسکے!
خبر کا کوڈ : 316977
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش