0
Monday 4 Nov 2013 17:35

امریکی ڈرون حملہ، پاکستان کو پالیسی بدلنا ہو گی

امریکی ڈرون حملہ، پاکستان کو پالیسی بدلنا ہو گی
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان نے اسلام آباد میں امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کو ہلاک کئے جانے پر امریکا سے احتجاج کیا ہے اور باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ملک میں قیام امن کیلئے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کی کوششوں پر منفی اثر پڑے گا۔ امریکا نے طالبان سے بات چیت کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ حکیم اللہ محسود شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کا سربراہ تھا اور اس تنظیم نے مئی سال 2010ء میں نیویارک میں ناکام بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ تنظیم کے سربراہ اور دوسرے رہنماؤں نے کھلے عام امریکا اور امریکی شہریوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس لئے وہ اس ہلاکت کو بالکل جائز سمجھتے ہیں البتہ اس واقعے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے باوجود امریکا نے کہہ تو دیا ہے کہ تشدد کے خاتمے اور خطے میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کیساتھ مشترکہ اسٹریٹیجک مفاد کو جاری رکھیں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا کہ امریکی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران حکیم اللہ محسود کو نشانہ نہ بنانے کی تجویز کو رد کرتے ہوئے پاکستان کو پیشکش کی تھی کہ وہ حکیم اللہ محسود کے علاوہ اور کسی ایسے طالبان رہنما کو نشانہ نہیں بنائیں گے جو پاکستان کی سرحد عبور کر کے افغانستان میں داخل نہیں ہو گا۔ جسے پاکستان نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ البتہ امریکا نے پاکستان کے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ مگر اس نے ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کو ہلاک کر دیا جس پر پاکستان نے امریکی سفیر کو طلب کر کے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر احتجاج کیا ہے کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہفتے کے روز حکومت پاکستان کے حمایت یافتہ ایک وفد نے شمالی وزیرستان میں طالبان سے ملاقات کرنی تھی، اس وفد میں کوئی حکومتی نمائندہ شامل نہیں تھا بلکہ اس وفد میں تین علماء شامل تھے جنہوں نے مذاکرات کے ایجنڈے سے متعلق بات چیت کر کے اس عمل کی راہ ہموار کرنا تھی مگر امریکی ڈرون نے ہماری امن کی آشا کو نراشا بنا کے رکھ دیا۔

اگر امریکا نے حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنانا ہی تھا تو اس نے اس پہلے اتنے مواقع کیوں ضائع کیے جب حکیم اللہ محسود کئی بار افغانستان آتا جاتا رہا اگر امریکا چاہتا تو باآسانی اسے نشانہ بنا سکتا تھا لیکن عین مذاکرات کا عمل شروع کرنے کے لمحات میں ڈرون حملہ قیام امن کے عمل پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ تاہم وہ پرامید تھے کہ امریکی ڈرون حملے کے محرکات کو مذاکراتی عمل میں شریک سارے اسٹیک ہولڈرز خوب سمجھتے ہیں اس لئے مذاکرات کے عمل کو لگنے والا دھچکا  ’وقتی‘ ثابت ہو گا۔ ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی دھمکی سامنے آئی ہے کہ ان کی جماعت پاکستان کے راستے افغانستان میں نیٹو افواج کی سپلائی روک دے گی۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پیدا حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس پیچیدہ صورت حال کو سنبھالا دینے کیلئے سب امن کے خواہاں لوگ اپنے دلی جذبات پر قابو رکھیں اور اشتعال انگیز گفتگو کی بجائے معاملے کی نزاکت کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات ماضی کے مقابلے میں یکسر نیا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ امریکا داخلی مسائل کا شکار ہے وہاں جاری معاشی بحران نے امریکہ کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ایسی صورت میں امریکہ کے قریبی دوست بھی اسے چھوڑتے جا رہے ہیں یوں اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

امریکہ افغانستان میں گذشتہ ایک دہائی سے اوپر عرصے سے بیٹھا ہوا ہے اس کی حربی قوت بھی کمزور ہو چکی ہے اور اب اس میں کسی بھی جنگ میں اپنی افرادی قوت جھونکنے کی ہمت نہیں، اسی لئے اب وہ 2004ء سے ڈرون طیارے چلا کر اپنا کام پورا کر رہا ہے، ان حملوں میں اس نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس سے پوری دنیا میں اس کی دفاعی طاقت کی ’’کھوکھلی دھاک ‘‘ تو بیٹھ گئی ہے لیکن ایران جیسے ممالک اس کے حقیقت سے بھی آگاہ ہیں۔ جنہوں نے امریکا کے بطور ورلڈ سپر پاور امیج کو کافی غیر مستحکم کیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان مستقل طور پر ترقی معکوس کا شکار ہے۔ ہماری ساری سیاسی قیادت بداندیش، خودغرض، دروغ گو اور ضمیر فروش ہے جس کی بدعنوانی، دھوکہ دہی، لوٹ مار کی داستانیں عام ہیں۔ ہماری اصل حکمران اشرافیہ سول حکومتوں کو ورغلا کر ان کی بشری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں ید طولیٰ رکھتی ہے۔ ہماری مذہبی جماعتیں مسلکی منافرت کے باعث آپس میں جوتم پیزار ہیں۔ ان میں سے بیشتر مبینہ طور پر ان بیرونی اداروں کی سرپرستی میں کام کر رہی جن کو پاکستان دشمن ممالک فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ کئی ایک کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں کے پاس دستاویزی ثبوت ہیں کہ و ہ براہِ راست بھارت، اسرائیل، افغانستان، عرب ممالک اور دیگر ان ممالک سے بھاری رقومات بطور عطیات وصول کرتے ہیں جو پاکستان کو اپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔

کراچی، کوئٹہ، پشاور اور پنجاب کے جنوبی علاقوں میں ان کے مبینہ مراکز ہیں جہاں سے تخریبی سرگرمیوں کی سرپرستی جاری ہے۔ یہی وہ دستاویزاتی شواہد تھے جن کی بنا پر وزیراعظم نواز شریف کو حالیہ دورۂ امریکا میں یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ پہلے ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔ اندرونی حالات کی درستگی اور امن کی بحالی اولین ترجیح قرار پائی تو اتمام حجت کے طور پرامن مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا جو بوجوہ تاخیر کا شکار ہوا جس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتری کی طرف چلے گئے اور خود وزیر داخلہ کو ماننا پڑا کہ پاکستان کیلئے یہ مشکل کی کھڑی ہے۔ اسے اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کرنی ہے اور یہ بھی جاننا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً وزیر داخلہ درست کہتے ہوں گے مگر کیا زمینی حقائق بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ وزیر موصوف کو واقعی ابھی تک حالات اس نہج پر پہنچانے والے ذمہ داروں کے بارے کچھ علم نہیں؟
خبر کا کوڈ : 317296
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش