0
Sunday 17 Nov 2013 12:38

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
تحریر: جاوید عباس رضوی

وجود انسانی کا راہ حق، راہ صداقت، راہ استقامت اور انسانی قدروں کی بلندی میں فنا ہونے کا نام شہادت ہے شرط یہ ہے کہ انسانی اذہان مین احکاماتِ اسلامی کی خاطر جدوجہد کا مقصد محفوظ ہو، اگر ایسے بنیادی مقاصد و شرائط سے موت کشمکش خالی ہو تو اسے شہادت کے سوا کوئی بھی نام بھی دیا جا سکتا ہے لیکن شہادت ہرگز نہیں، دور حاضر میں شہادت کو اس قدر ارزاں اور بے وقعت کیا گیا ہے کہ کسی بھی محبوب، ملا، مفتی اور دہشت گرد کے مرنے کو شہادت کے درجہ سے نوازا جاتا ہے اگرچہ شہادت ایک عظیم مرتبہ و بلند منزل ہے جو صرف خاص بندوں کو حاصل ہوتی ہے جو خاص بندے مثل شمع اپنی ہستی کو ختم کرکے انسان آبرو و عزت کی خاطر بزمِ انسانیت کو روشن و منور کرتے ہیں، اس لئے عظیم لوگ ہمارے معاشرے میں شمع کا رول ادا کرتے ہیں اور ایسے افراد مثل سورج ہمیشہ تابناک ہوتے ہیں اور ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ دینِ حق کے سورج ہرگز ڈوبا نہیں کرتے ہیں۔

موت ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے اور موت کا مزہ ہر ذی حیات کو چکھنا ہے لیکن قرآن حکیم نے شہداء کو مخصوص امتیاز سے نوازا ہے اور ارشاد فرمایا ’’خبردار! کہ جو راہ حق میں قتل ہو گئے ان کو مردہ (اموات) شمار نہ کرو، وہ زندہ ہیں اور اللہ کے یہاں رزق پا رہے ہیں‘‘، یہ بات واضح ہے کہ جو راہ حق میں مارا جاتا ہے اسے شہید کہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ شہید زندہ ہوتا ہے اور وہ مرتا نہیں ہے یعنی شہید کے ساتھ یہ خصوصیت مخصوص ہے کہ وہ زندہ رہ کر بھی موت کا مزہ چکھ لیتا ہے، شہید کے علاوہ تمام ہی لوگ مرنے کے بعد موت کا مزہ چکھ لیتے ہیں۔ شہید موت کے مزہ سے واقف اور خبردار ہوتا ہے اور اس کو چکھنے کے لئے اپنی زندگی میں بارہا کوشش کرتا ہے اور کوشش میں رہتا ہے اور پھر رب العالمین بھی اس کی کوشش اور دعائیں منظور و قبول کرتا ہے اور شہید کو زندہ رکھ کر بھی موت کا مزہ چکھواتا ہے کہ جو مزہ شہید کی نظر میں ’’شہید‘‘ سے بھی زیادہ شیریں ہوتا ہے۔

انسان مختلف مقاصد کی حصول یابی کے لئے کوشش کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ان مقاصد کو حاصل کرسکے اور اکثر انسان اس جدوجہد میں اپنے آپ سے بےخود و بےخبر ہو جاتے ہیں، اس عمل میں بعض افراد کو موت بھی نصیب ہوتی ہے لیکن ہرفنا ہونے والے کو شہید کا رتبہ ہرگز نہیں دیا جا سکتا ہے بلکہ جو اپنے وجود کو اس مجازی و ناپائیدار دنیا سے ہٹائے اور راہ خدا میں اسے مصروف عمل رکھے اور بیچ راہ میں موت واقع ہو جائے تو اسے شہید کہتے ہیں، فنا اللہ اور اللہ کی راہ میں قربان ہونے کے تین درجے ہیں:

1۔ الہی امور میں وجود انسانی کا فنا ہو جانا:
یعنی اپنے امور و افعال اور حرکات و سکنات کو الہی احکامات میں سمو دینا اور انہیں الہی رنگ می رنگ دینا یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ الہی امور میں محو و مست ہوجانا ایسی سورت میں انسان کو دنیا کے نامور سلاطین و حکام ضعیف و ناتواں نظر آتے ہیں اور صرف وحدہ لاشریک کو حاضر و ناظر تصور کیا جاتا ہے پھر اللہ بھی اس کے خلوص کی لاج رکھتا ہے اور اس کے امور کو اپنے ذمہ لیتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے (وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمٰی) القرآن

2۔ الہی صفات میں اپنے آپ کو ختم کرنا:
رب العالمین کی مخصوص صفات جو صرف اللہ سے ہی مختص ہیں ایسے صفات کے ساتھ اس حد تک لگاؤ ہونا کہ دیگر دنیاوی صفات کو ہیچ و عبث سمجھنا، اس مقام پر انسان کو اللہ اور اللہ کے جاہ و جلال، جمال و کمال کی پرتو کا محور شمار کیا جاتا ہے، ایسے حضرات اور اللہ کے درمیان پھر کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا بلکہ دوری کی تمام دیواریں ختم ہو جاتی ہیں، الہی صفات کا عکس ایسے دکھائی دیتا ہے جو اپنے وجود کو صفاتِ حق میں فنا کرتے ہیں اور اپنی فانی زیست کو حیات ابدی بناتے ہیں۔

3۔ الہی صفات کے ساتھ ساتھ الہی ذات سے لگاؤ اور اس لگاؤ کے نتیجہ میں قربانیاں:
الہی ذات کو تسلیم کرنے کے بعد اپنے وجود کو الہی ذات میں ختم کرنا یعنی خدا کے واحد و لاشریک ہونے کی تلقین کرنا اور تلقین کرتے کرتے فنا ہو جانا، اللہ کی ذاتِ پاک کے سامنے کوئی بھی ہستی قائم نہیں کی جا سکتی اور صرف رب العالمین کی ذات ہی لافانی ہے اس لافانی ذات میں فنا ہونے کا نام ہی ابدی حیات ہے، اور اس لافانی ذات سے تعلق ہی انسان کو دیگر مادی اشیاء سے آزاد کر دیتا ہے اور پھر دنیاوی طاقت و کمزوری، غریبی و امیری آپس میں برابر نظر آتے ہیں۔ یہ تین اقسام ہیں اللہ کی یاد میں فنا ہونے کی، واضح رہے کہ ایسی فنا میں ہی حیاتِ جاودانی کی ضمانت موجود ہے اور حقیقی بقا کی تصدیق ہے۔
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
غرض کہ ایسے ہی اپنے وجود کو ختم کرکے الہی وجود کے ساتھ اپنے وجود کو ملا کر شہادت کا درجہ حاصل کیا جاتا ہے، استاد شہید مرتضی مطہری (رہ) شہادت کے سلسلے میں فرماتے ہیں’’ شہید کی مثال شمع جیسی ہے خود کو جلا کر فنا کرنا البتہ اپنی روشنی سے ماحول و معاشرے کو منور کرنا اسلام کو ہمیشہ ایسے خون کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اسلام کو ہمیشہ دلاوری اور شجاعت ہی روح بخشتی ہے۔

شہید زندہ جاوید ہوتا ہے:
شہید اپنے وجود کو ختم کرکے اپنے خون کی تاثیر معاشرے میں چھوڑ دیتا ہے یعنی وہ لوگوں کی رگوں میں زندہ خون کو پیدا کرتا ہے، استاد ہو موجد، فنکار ہو یا قلمکار صرف اپنی حکمتِ عملی کے ذریعے لوگوں کی خدمت کرتا ہے لیکن شہید اپنے وجود کی ناء پر شہید ہوتا ہے اور اپنے خون کا ہدیہ پیش کرکے معاشرے کو زندگی بخشتا ہے اسی لئے شہید کا خون ہمیشہ معاشرے کی رگوں میں دوڑتا رہتا ہے، استاد شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں ’’پس ہر شخص یا گروہ صرف اپنے ایک پہلو کو زندہ کر دیتا ہے لیکن شہید اپنے تمام پہلوؤں اور اپنے تمام وجود کو زندگی عطا کرتا ہے۔ شہادت کے سلسلے میں رسول اکرم (ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ ایک نیکی دوسری سے بڑھ کر اور دوسری، تیسری نیکی سے بڑھ کر موجود ہے یہاں تک کہ آدمی راہ حق میں شہید ہو جائے اور پھر شہادت سے بڑھ کر نیکی کا وجود ہی نہیں ہے۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا


(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 321005
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش