1
0
Monday 18 Nov 2013 22:57

سانحہ راولپنڈی اور میڈیا کا کردار

سانحہ راولپنڈی اور میڈیا کا کردار

تحریر: ڈاکٹر ابو بکر عثمانی 

میڈیا کی ترقی نے پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی اپنے مثبت و منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس ترقی کے مدارج کا اگر حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کیسے میڈیا نے رفتہ رفتہ معاشرے کو ہپناٹائز کیا اور آج عام افراد تو کجا صاحب دانش بھی وہی کچھ سوچتے، بولتے اور لکھتے ہیں جو میڈیا ان کے ذہنوں میں انڈیلتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا کون، کیا، کیسے، کہاں، کب اور کیوں جیسے سوالوں کے جواب نامے کی حد تک ہی محدود تھا، مگر آہستہ آہستہ ترقی کے زینے طے کرنے کے بعد اس میڈیا نے ممکن ہے، خیال ہے، ہوسکتا ہے، شک ہے، یہاں تک کہ جواب دو، سامنے آؤ کی لغت کا بھی الاپ شروع کر دیا۔ 

میڈیا کی اس ترقی (جو کہ تنزلی سے مشابہہ ہے) کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جاسکا۔ جس کا نتیجہ بے راہروی کی صورت میں برآمد ہوا۔ ماضی اور عصر حاضر کے جدید میڈیا میں فرق فقط اتنا ہے کہ ماضی میں میڈیا خبر نشر کرتا تھا اور آج کا میڈیا من پسند ماحول تخلیق کرکے اسے خبر بناتا ہے۔ جس کی بڑی مثال نائن الیون کا واقعہ ہے۔ جس میں ممکنہ تخریب کاری سے قبل اس جہاز کو بھی کیمروں کے ذریعے فلمایا گیا جو ٹاور سے جا کر ٹکرایا۔ بعد ازاں اس میڈیا ایونٹ نے دنیا پر کیا اثرات مرتب کئے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

سوات میں رہنے والی بچی کو جب میڈیا نے شناخت دی اور طالبان کی ایک گولی جو اسے چھو کر پورے امریکہ و مغرب مخالف ذہنوں میں جاکر لگی وہی بچی ہیرو بن گئی۔ بیسویں صدی کی پراسرار ترین شخصیت اسامہ بن لادن جس کی تلاش کے بہانے افغانستان سمیت پورا خطہ امریکی گولہ بارود سے تہس نہس ہوتا رہا، میڈیا ایونٹ کے ذریعے ہی دی اینڈ ہوا۔ وجہ یا موضوع کی عدم دستیابی کے باعث جب بھی مذہبی جماعتوں کے اجتماعات، جلوسوں اور دھرنوں میں کوئی کمی واقع ہوئی اور عوام نے سکھ کی سانس لی تو مغربی ممالک کے کسی تھرڈ کلاس اخبار میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں نے پوری اسلامی دنیا کو پھر سے سڑکوں پر لابٹھایا۔ 

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دنیا بھر کے عوام بالعموم اور پاک عوام بالخصوص کنویں کے بیل کی طرح نظر نہ آنے والے ایک دائرے میں بس چکر لگا رہے ہیں۔ اپنی دانست میں وہ میلوں کی مسافت طے کرچکے ہیں مگر حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہیں پر موجود ہیں جہاں سے چلے تھے۔ میڈیا نے پورے پاکستان کو اوبامہ اس کی مسز اور ان کی بچیوں کے نام تو یاد کرا دیئے۔ بولی وڈ کی کس فلم نے کتنے کروڑ کا بزنس کیا۔ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے۔ فرقہ واریت میں بیرونی ہاتھ کارفرما ہے۔ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ دار سی آئی اے، را، موساد ہیں۔

لیکن یہ باور نہیں کرا سکا کہ شیعہ اور سنی کے مابین اختلافات کم اور مشترکات زیادہ ہیں۔ تمام مسالک کے نزدیک امام عالی مقام حضرت حسین نواسہ رسول ﷺ جنت کے سردار ہیں، وارث دین ہیں، ان کا ذکر تمام مسالک کے نزدیک عبادت یا عبادت نما کا درجہ رکھتا ہے۔ یزید فقط امام عالی مقام حضرت حسین کا دشمن ہی نہیں بلکہ اسلام و انسانیت کا بھی مجرم تھا۔ یزید کے حکم پر جب امام عالی مقام کو شہید کیا گیا تو حضرت حسین حالت سجدہ میں تھے۔ چنانچہ نماز و ذکر حسین کے مابین گہرا تعلق ہے۔ لہذا راولپنڈی میں پیش آنے والے سانحے کی بنیادی وجہ ہرگز یہ نہیں کہ مسجد کے سامنے ذکر حسین برپا تھا، اس لیے مسجد والوں اور جلوس والوں کے درمیان مسلح تصادم ہوا۔

مقام افسوس ہے کہ جو میڈیا گھروں میں موجود بچوں کو فیشن، ڈانس اور لو میرج کے نت نئے طریقوں کی تربیت دیتا ہے، آج تک مسلک و لسانیت سے بالاتر صرف مسلمان یا فقط پاکستانی ہونے کی تلقین نہیں کرسکا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میڈیا نے اسلام کے مختلف مسالک کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے بجائے اختلافات کو زیادہ ہوا دی ہے۔ میڈیا فقط اپنی من پسند خبروں کی اشاعت کے لیے ماحول ہی پیدا نہیں کر رہا بلکہ بساء اوقات کسی حقیقت کو چھپانے کے لیے غیر اہم کو اہم بناکر بھی پیش کر تا رہا ہے۔ ماضی میں سوئس عدالتوں کو حکومت کی جانب سے لکھا جانے والا خط، میمو گیٹ سکینڈل، یا ارسلان چوہدری کیس میں آنے والا اتراؤ چڑھاؤ آج ان میں سے کوئی بھی کیس میڈیا کے لیے باعث کشش نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کسی بھی سانحہ یا واقعہ کے بعد شخصیت یا اداروں کا میڈیا ٹرائل کے ذریعے نہ صرف معاشرے بلکہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی نظر میں ایک خاص تاثر قائم کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد کی تمام تر قانونی کارروائی اسی قائم شدہ تصور کے گرد ہی چکر لگاتی رہتی ہے اور بعد ازاں فیصلے کے وقت انصاف کے تقاضے پوری طرح ادا نہیں ہو پاتے۔

روز عاشور راولپنڈی میں فرقہ واریت کی جو آگ لگی کوئی بھی فرد واحد، ادارہ یا مسلک اس کا تنہا ذمہ دار نہیں ہے۔ پورے سانحہ میں جہاں انتظامیہ کی نااہلی اور غفلت کارفرما ہے، وہاں خطباء کا غیر ذمہ درانہ خطاب، مشتعل افراد کا اندھا جذباتی پن اور سب سے بڑھ کر پٹرول کے کین اور اسلحہ تھامے وہ نادیدہ چہرے ہیں جنہوں نے پتھراؤ کی حد تک کے واقعے کو آگ و خون میں تبدیل کر دیا، مگر اس کے بعد ہوا کیا؟ مایہ ناز میڈیا کے ادارے کے ایک رپورٹر نے سارا ملبہ پہاڑی علاقوں سے آئے ہوئے طلباء پر ڈال دیا۔ 

رپورٹر نے تو اپنی ذمہ داریوں کا کوٹہ پورا کرنے کے لیے چند صفحات کالے کرکے اپنی تنخواہ کھری کرلی، لیکن مقامی انتظامیہ جو کہ سانحہ میں فریق ہے، نے پارہ چنار و شمالی علاقہ جات کے طالب علموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ کیا دس محرم کے اجتماعات میں ان پردیسوں کو اسلحہ اور پٹرول لانے کی اجازت انتظامیہ نے دی تھی؟ کیا ہاسٹلز میں رہائش پذیر طلباء کو اسلحہ رکھنے کی اجازت پنجاب حکومت نے دی ہوئی ہے۔؟ حیرت تو ڈان نیوز کے ذمہ داران پر بھی ہوتی ہے، جنہوں نے ایک ایسی رپورٹ کو شائع کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کی، جس میں درخت پر رکھے انڈے توڑنے کا الزام مچھلیوں کے سر پر عائد کیا گیا۔ ویسے میڈیا ہمیشہ سے ہی بڑی مچھلیوں کے ٹائٹل دیکھا کر چھوٹوں کو کاسٹ کرتا رہا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور پاکستانی اگر 17 نومبر کے قومی اخبارات اور 16 نومبر کے غیر ملکی اخبارات کا فقط سرورق ہی دیکھ لے تو اس کا سر مارے شرم کے جھک جائے گا۔ 


پوری دنیا کے اخبارات کی ہیڈ لائنز میں روز عاشور کے جلوسوں، سیمنارز، کانفرنسوں، اجلاسوں، جلسوں کی احوال و تصاویر نمایاں ہیں۔ جس میں مسیحی، ہندو، سکھ، مسلمان، شیعہ و سنی بلاتفریق مکتب و مسلک حضرت حسین کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں مگر پاکستان کے قومی اخبارات میں اسلحہ تھامے فوجی، بکتر بند، مشتعل افراد، جلتی مسجد، آگ کے شعلوں میں لپٹی امام بارگاہیں اور مقدسات، زخمی اور جاں بحق افراد کی تصویریں نمایاں ہیں۔ بڑی خبر یہ نہیں کہ نواسہ رسول کی قربانی کو اہل پاکستان و اہل اسلام نے اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا بلکہ ہیڈ لائنز یہ ہیں کہ روز عاشور مساجد، مدارس، امام بارگاہیں، کتب خانے، مارکیٹیں نذرآتش۔
کاش کہ یہ سانحات رونما نہ ہوتے اور آج کے اسلامی اخبارات میں بھی غیر اسلامی اخبارات کی طرح عقیدت، تحسین، ستائش، کی خبریں نمایاں ہوتیں۔ اے کاش میڈیا ہمیں، ہمارے بچوں کو اتنا ہی بتا دے کہ امام عالی مقام سب کے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 322256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت ہی ذمہ دارانہ ہے
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش