QR CodeQR Code

پاک امریکہ دوستی، اب سوچنا ہی پڑیگا

23 Nov 2013 00:57

اسلام ٹائمز: امریکی صدر کے سامنے ڈرون حملے نہ کرنے کی درخواست دینا اور بات ہے اور پورے قومی وقار کیساتھ اپنے موقف کو تسلیم کروانا دوسری بات۔ ابھی تک ہماری حکومت نہ تو کوئی واضح خارجہ حکمت عملی طے کر پائی ہے اور نہ ہی داخلی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان وہ مطلوبہ اعتمادسازی کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جس کی آج ہمارے ملک کو شدت سے ضرورت ہے۔ اب تو امریکا ہمارے گھر کے اندر تک پہنچ گیا ہے آج بھی ہم نے اس کے سامنے اپنی خودمختاری کے نام پر کشکول ہی پھیلانا ہے تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہو گا اس کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے بقراطی ذہن کی ضرورت نہیں!


تحریر: تصور حسین شہزاد

ہمارے پیارے دوست امریکہ نے آخرکار اپنے ڈرون حملوں کا دائرہ کار بڑھا کر صوبہ خیبر پختونخواہ کے بندوبستی علاقے تک آن پہنچایا ہے اور اگر یوں کہا جائے کہ حالیہ حملہ ہنگو نہیں بلکہ پشاور پر کیا گیا ہے اور اگرہم اسی دوستی کے تابع رہے تو یہ حملے لاہور تک بھی پہنچ جائیں گے اور ہم اسی طرح بےحسی کی چادر تانے سوتے رہیں گے اب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پتہ نہیں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ قومی سلامتی امور سرتاج عزیز نے امریکا کی جانب سے ڈرون حملہ نہ کرنے کی بات پر کیسے یقین کر لیا جبکہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملے کے بعد نہیں کہا جا سکتا کہ امریکا ہمارا دوست ہے۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ امریکی نمائندہ الف لیلیٰ کی یہی کہانی سنانے کیلئے ان کے پاس بھی آنا چاہتا تھا مگر انہوں نے امریکی بات سننے سے انکار کر دیا، حالیہ ڈرون حملے کے بعد کیسے کہا جا سکتا ہے کہ امریکا ہمارا دوست ہے۔ تازہ ترین حملہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا پاکستان میں نہ تو امن چاہتا ہے اور نہ ہی ہماری حکومت کے طالبان سے مذاکرات ہوتے دیکھنے کے حق میں ہے، ہمارے ملک میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ امریکی ڈالروں کی وجہ سے ہے۔ چوہدری نثار علی خاں نے کہا کہ اب ہمیں ڈالروں اور عزت نفس میں فرق کر لینا چاہیئے۔

جمعرات کی صبح خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملے کے بعد وزیر داخلہ کا سامنے آنے والا ردعمل بےشک عام پاکستانی کے دل کی صدا ہے اور بطور وزیر داخلہ ان کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ داخلی سلامتی کو زک پہنچانے والے کسی بھی بیرونی اقدام کا سخت نوٹس لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی بیرونی طاقت پاکستان کے اندر گھس کر ہمارے امن عامہ کو تباہ نہ کر سکے۔ وزیر موصوف نے اپنی حکومت کے ہی دوسرے اہم عہدیدار کی جانب سے امریکی یقین دہانی کے چرچے پر اور قومی سلامتی کے مشیر کی طرف سے اس یقین دہانی پر اعتبار کرنے پر بھی حیرت کا اظہار کرکے خود عام لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ داخلی سلامتی کے ذمہ دار کا قومی سلامتی کے ذمہ دار کی سادہ لوحی پر معنی خیز جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان بھی اہم اور حساس نوعیت کے معاملات پر یکسوئی کا فقدان ہے اسی لئے حکومت کی کارکردگی کا معیار وہ نہیں جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔ ابتدا میں تو لوگ اس گمان میں تھے کہ حالات کو سمجھنے کیلئے وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم وقت لے رہی ہے اسی لئے پھونک پھونک کر قدم اٹھائے جا رہے ہیں مگر اب تو مسلم لیگ کو حکومت میں آئے ہوئے پانچ ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے، امور مملکت کو جاننے اور معاملات کو سمجھنے کیلئے یہ عرصہ بہت ہے مگر تاحال حکمران مخمصے سے باہر نہیں نکل سکے۔

وزیراعظم وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں اور اب تک چین اور امریکا سمیت کئی غیر ملکی دورے کر چکے ہیں لیکن ان کے غیر ملکی دوروں کے مثبت نتائج پر سوالیہ نشان ہے؟ بالخصوص امریکی صدر سے ملاقات کے حوالے سے حکومتی ترجمانوں کی سب لن ترانیاں فسانۂ عجائب لگتی ہیں جو امریکی ڈرونز کے حملوں کی گونج کی صورت میں ملک بھر کی فضاؤں کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے عامۃ الناس کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ نوبت بایں جا رسید کہ امریکا نے عمران کی جانب سے نیٹو سپلائی روکنے کی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا ازخود بندوبست کرنے کیلئے پاکستان کے بندوبستی علاقے میں ڈرون داغ دیا اور کہا جا رہا ہے کہ ان علاقوں میں حقانی نیٹ ورک کے مدارس فعال ہیں جہاں افغان طالبان پناہ لیتے ہیں۔ پاکستان کی حدود میں ابھی حال ہی میں حقانی گروپ کے ایک اہم فرد کی ہلاکت اپنی جگہ تشویش کن امر ہے کہ عین وفاقی دارالحکومت میں ایک غیرملکی شدت پسند گروپ کی کھلے بندوں سرگرمیاں بہرحال ہمارے لئے رسوائی کا باعث ہیں کیونکہ انہی عناصر کی وجہ سے پاکستان اور امریکا کے درمیان اعتماد کو دھچکا پہنچا یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مشرف دور کی دوغلی پالیسی کا تسلسل پیپلز پارٹی سے ہوتا ہوا آج کی حکومت تک آن پہنچا ہے۔

حکمران ٹولے کی ناقابل فہم حکمت عملی کا نقصان قوم کو اٹھانا پڑ رہا ہے پوری دنیا میں پاکستان ایک ناقابل اعتبار ملک کے طور پر اپنا وقار کھو چکا ہے، ہمارے دوغلے پن نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا مگر اس کے باوجود وزیراعظم نواز شریف دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈرون حملے بند کرنے کا دل سے کہتے ہیں، حملوں کیخلاف پاکستانی احتجاج کو رسمی کہنا مناسب نہیں۔ ہم رسمی احتجاج کرنیوالے دوغلے لوگ نہیں اور یہ بات امریکا بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت ایسی نہیں کہ کہے کچھ اور کرے کچھ اور۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے اوباما سے اس کے سامنے بیٹھ کر ڈرون حملوں کیخلاف بات کی اور کہا کہ ڈرون حملے کسی صورت قابل قبول نہیں، یہ حملے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ وزیراعظم کا فرمان بجا مگر یہی باتیں اور یہی دعوے پیپلز پارٹی کی حکومت میں کئے جاتے تھے تو آج کے حکمرانوں کی توپوں کے دہانے کھل جاتے تھے، اگر کچھ فرق ہے تو صرف یہ کہ سابق حکومت کے دور میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خاں کل بھی امریکی ڈرونز پر جو موقف رکھتے تھے آج بھی وہ اسی شد و مد کے ساتھ انہی خیالات کا ببانگ دہل اظہار کر رہے ہیں اب کیا ان کے اظہاریے کو ان کا انفرادی عمل گردانا جائے کہ حکومت کی پالیسی کا آئینہ دار سمجھا جائے اس بارے میں کوئی بات تیقن سے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ہمارے ہاں سیاست میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک بھر میں خیبر پختونخوا میں ڈرون حملے اور عمران خاں کے نیٹو سپلائی روکنے کے اعلان کی عوامی پذیرائی دیکھ کر چوہدری نثار علی خاں نے اپنی حکومت پر سے عوامی دباؤ کم کرنے کیلئے ایسا گرما گرم بیان دیا ہے جبکہ حکومت کا عالمی دنیا کے سامنے پیش کیا جانیوالا چہرہ سرتاج عزیز ہی ہیں تو پھر ہمیں دنیا سے یہ شکایت نہیں کرنی چاہیئے کہ ہماری بات کا اعتبار نہیں کرتی اور نہ ہی آپ اپنے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ ہم دوغلے نہیں۔ امریکی صدر کے سامنے ڈرون حملے نہ کرنے کی درخواست دینا اور بات ہے اور پورے قومی وقار کیساتھ اپنے موقف کو تسلیم کروانا دوسری بات۔ ابھی تک ہماری حکومت نہ تو کوئی واضح خارجہ حکمت عملی طے کر پائی ہے اور نہ ہی داخلی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان وہ مطلوبہ اعتماد سازی کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جس کی آج ہمارے ملک کو شدت سے ضرورت ہے۔ اب تو امریکا ہمارے گھر کے اندر تک پہنچ گیا ہے آج بھی ہم نے اس کے سامنے اپنی خودمختاری کے نام پر کشکول ہی پھیلانا ہے تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہو گا اس کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے بقراطی ذہن کی ضرورت نہیں!


خبر کا کوڈ: 323679

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/323679/پاک-امریکہ-دوستی-اب-سوچنا-ہی-پڑیگا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org