0
Sunday 24 Nov 2013 01:05

پاکستان پر حکومت کی حکمرانی یا دہشتگردوں کا راج

پاکستان پر حکومت کی حکمرانی یا دہشتگردوں کا راج

تحریر: عاشق حسین طوری

پاکستانی طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے جمعہ کی رات کو کراچی کے علاقے انچولی میں دو بم دہماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ عاشورہ کے دن سانحہ راولپنڈی کا انتقام تھا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ شیعوں کے خلاف مزید حملے کئے جاینگے۔ کراچی میں کل رات ہونے والے بم دھماکوں میں چار اہل تشیع سمیت سات افراد شہید اور چالیس سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ علماء کونسل پاکستان نے ان دھماکوں پر تین روزہ جبکہ سنی اتحاد کونسل نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور اگر حکمران خواب خرگوش سے بیدار نہ ہوئے اور انہوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا  تو آخری واقعہ بھی نہیں ہوگا۔ ڈر کے مارے یا مصلحت کی خاطر پاکستان کی حکومت نے مظلوم عوام کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

پچیس سال سے زائد  عرصہ سے ایک مخصوص ٹولے نے اہل تشیع اور تقریباً پچھلے نو دس  سال سے بریلوی اہلسنت پر آرام کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی دن شیعہ اور سنی اس معلوم الحال ٹولے کے ظلم کے شکار نہ ہوں۔ اگرچہ اس مخصوص ٹولے نے جسے القاعدہ اور طالبان کی سرپرستی بھی حاصل ہے، اہل سنت کا مبارک نام چرا کر اپنے لئے مخصوص کر رکھا لیا ہے، اور اس حوالے سے سنی تحریک کے علماء بورڈ نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا تھا کہ ملک میں شیعہ سنی فسادات کا کوئی وجود نہیں، کالعدم جماعتیں اہل سنت کا نام استعمال کرکے ملک کے پرامن اور محب وطن طبقہ کو بدنام کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔ 

یہ ایک حقیقت ہے اور تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ صدیوں سے اہل تشیع محرم الحرام میں عزاداری سیدالشہداء کرتے ہیں اور اہل سنت بھائیوں نے ہمیشہ سبیلیں لگا کر ان کا استقبال کیا ہے۔ شیعہ اور سنی آپس میں رشتے کرتے ہیں، دونوں پیغمبر اسلام کے خاندان (اہل بیت) کے پیروکار ہیں۔ اگر شیعہ ایک طریقے سے پیغمبر کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی برسی مناتے ہیں تو اہل سنت دوسرے طریقے سے امام عالی مقام  کی حقانیت اور یزید کی اصلی حقیقت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بیچ میں ایک ٹولہ گذشتہ تین دہائیوں سے ملک کے مظلوم مسلمانوں پر ٹھونسا گیا ہے، جسکے گفتار اور کردار سی تو یہی لگتا ہے کہ ان میں  یزیدیت اب بھی پائی جاتی ہے۔ جو امام حسین کی حقانیت کو برداشت نہیں کرسکتے اور نہیں چاہتے کہ یزید کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے آشکار ہو۔

گذشتہ پچیس سالوں میں ہزاروں اہل تشیع اس دہشتگرد ٹولے کی بدمعاشیون کی شکار ہوئے ہیں، انکی امامبارگاہوں پر حملے ہوئے اور انہیں جلایا گیا۔ ادھر اہل سنت بریلویوں کے مزاروں پر خودکش حملے کئے گئے اور  انکے مزاروں کو دھماکوں سے اڑایا گیا۔ ایک ایک حملے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لیکن حکومتی مشینری اب تک ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ لیکن اس بار سانحہ راولپنڈی میں جب اس ٹولے کے چند افراد مارے گئے تو حکومتی مشینری بھی اور اس دہشتگرد ٹولے کے بعض حامی علماء بھی شدید حرکت میں آگئے اور اس سانحہ کے ذمہ داروں کو سخت سزا دینے کے مطالبے کرنے لگے۔ اگرچہ سانحہ راولپنڈی میں جو کچھ ہوا وہ قابل تائید نہیں ہے، لیکن یہ بھی غور طلب بات ہے کہ سانحہ راولپنڈی جو ایک خطرناک سازش تھی، اسکی اگر صحیح طور پر اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں تو  اس میں حکومت کی بےحسی، جانبداری اور اسی مخصوص دہشتگرد ٹولے کی بدمعاشی سب شیعہ سنی مسلمانوں پر عیاں ہوجائیگی۔ 

اگر حکومت دوسرے شہروں میں عاشورا سے قبل اس مخصوص ٹولے کے چند دہشتگردوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے جو عاشور میں دہشتگردی کے عزائم رکھتے تھے تو پھر راولپنڈی کے راجہ بازار کی مسجد کے لاوڈ اسپیکر کے ناجائز استعمال کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاسکتا، جسکے ذریعے اہل تشیع اور انکے مقدسات (امام حسین) اور واقعہ عاشورا کی توہین کی جاتی رہی، اور سوشل میڈیا  کے ذریعے اس ٹولے کے افراد کو اس مسجد میں دعوت دینے پر حکومت کیوں حرکت میں نہیں آئی۔ اگر بروقت اس واقعہ کا نوٹس لیا جاتا تو سانحہ راولپنڈی رونما ہی نہ ہوتا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ  عزادار خالی ہاتھ تھے اور آگ لگانے اور دوسروں کو قتل کرنے کے لئے ان کے پاس وسایل کہاں سے آئے بلکہ ایسی موثق رپورٹیں موجود ہیں کہ  عزادار تو آگ بجھانے میں بھی دیکھے گئے ہیں۔

حکومت کو چاہیئے کہ ان سازشیوں کو تلاش کرے جو اس تاک میں بیٹھے تھے کہ اہل تشیع کے بعض جذباتی جوانوں کے ردعمل سے فائدہ اٹھا کر معمولی سی آگ پر تیل چھڑک کر اسے خطرناک آگ میں تبدل کریں۔ یہ خود اس ٹولے کی بھی سازش ہوسکتی ہے جو ہمیشہ اس تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ  کسی طرح بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہو کہ جسکی آڑ میں امام حسین علیہ السلام کے مشن کو روکیں۔ اب پاکستان کے حکمرانوں کو ذرا سوچنا چاہیے کہ اس ملک پر انکی حکمرانی ہے یا دہشت گردوں کا راج۔

خبر کا کوڈ : 324007
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش