0
Monday 25 Nov 2013 12:23

شاہراہ قراقرم کی اہمیت اور خطرات

شاہراہ قراقرم کی اہمیت اور خطرات
تحریر: شیر علی انجم  

دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی شاہراہ قراقرم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے اور  جغرافیائی حوالے سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس شاہراہ کو پاکستان اور چین کے اشتراک سے بیس سال کے عرصے میں 1986ء میں مکمل کیا گیا اور دوران تعمیر 810 پاکستانی اور 82 کے قریب چینیوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شاہراہ کو پاک چین طویل دوستی کی ایک  علامت بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہی شاہراہ پاکستان کو اپنے مخلص ترین دوست ملک چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ بھی ہے۔ شاہراہ قراقرم کی لمبائی تقریبا 1300 کلومیٹر ہے جو پاکستان کے شہر حسن ابدال سے شروع ہو کر چین کے شہر کاشغر میں ختم ہوتی ہے۔ اس شاہراہ کے دامن سے دریائے سندھ، اور دریائے گلگت گزرتے ہیں، اسکے علاوہ کےٹو، نانگا پربت اور راکاپوشی بھی اس خطے کی عظمت کے ستون ہیں۔ یہ شاہراہ پاک فوج کیلئے سیاچن جیسے اہم محاذ کی واحد سپلائی لائن ہے۔ اسکے علاوہ پاک چین تجارت میں بھی ایک مرکزی حیثیت رکھنے کے ساتھ گلگت بلتستان کے سویلین کو پاکستان سے ملانے کا واحد ذریعہ بھی ہے کیونکہ خطے میں فضائی سروس کے بہتر مواقع ہونے کے باوجود عام آدمی کیلئے نایاب اور ایک خواب کی طرح ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں فلائٹ شیڈول کی غیر اعلانیہ تعطّلی اور قومی ائرلائن کی بدنظمی شامل ہے لیکن اگر کبھی قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے تو کرایہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے، کیونکہ گلگت بلتستان کی آبادی کے ذیادہ تر لوگ دوسرے شہروں میں محنت مزدوری کر کے سیزن میں گھروں کو لوٹتے ہیں، ایسے میں بہت زیادہ کرایوں کے سبب عام آدمی کیلئے ہوائی سفر ایک خواب سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے باسی تمام خوف و خطر کے باوجود زمینی راستے سے سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ 

اس شاہراہ پر مناسب سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کے  شدید خدشات ہیں جن کا ازالہ کرنے والا کوئی نہیں۔ اس شاہراہ کی دفاعی، جغرافیائی اور علاقائی اہمیت کے باوجود پاکستان کی سرکار اب تک اس شاہراہ کو پُرامن نہیں بنا سکی ہے۔  یہاں سے گزرنے والے مسافر ہر وقت موت کو محسوس کرتے ہوئے سفر کرتے ہیں اور سلامتی سے منزل تک پہنچنے  پر شکرانے کی نماز ادا کرتے ہیں جو کہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور وفاق پاکستان کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ شاہراہ جہاں ایک طرف دنیا کی اس آخری کالونی کے رہنے والوں کیلئے سہولت لیکر آئی دوسری طرف اس شاہراہ کے افتتاح کے ٹھیک دو سال بعد 1988ء میں اس شاہراہ کے ذریعے گلگت بلتستان پر لشکر کشی کی گئی۔ چند روز قبل سانحہ راولپنڈی کے رونما ہونے کے بعد اس شاہراہ پر پھر سے خطرے کی گھنٹی بجنی شروع ہو گئی جس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں جان بحق ہونے والوں کو  اسی سانحے کا شہید کہہ کر کبھی ان کا تعلق چلاس سے تو کبھی دیامر اور کوہستان کے کسی حصے سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انٹرنیٹ پر عبور رکھنے والے لوگوں نے جب ان تمام تصاویر کی حقیقت سوشل میڈیا پر شائع کی تو تمام مکاتب فکر کے علماء نے تمام نجی چینلز پر اس بات کی تصدیق کی کہ سانحہ راولپنڈی کو جس طرح سوشل میڈیا پر ایک خاص طبقہ فکر کے خلاف استعمال کیا گیا، حقیقت اس کے برعکس ہے لیکن ایک نجی چینل کی متعصب رپورٹ کے بعد گلگت بلتستان کے عوام میں بےچینی مزید بڑھ گئی اور ایک دفعہ پھر راولپنڈی اسلام آباد میں زیرتعلیم طلباء کو اس تمام واقعے کا ذمہ دار ٹھہرا کر گلگت بلتستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی گئی، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

ہماری حکومت اور انتطامیہ کا فرض بنتا تھا کہ اس میڈیا رپورٹ کے حوالے سے ثبوت طلب کریں لیکن افسوس کی بات ہے کہ شائد ہمارے کسی وزیر یا مشیر نے یہ خبر دیکھی تک نہیں ہو گی۔ ہمارا اصل موضوع شاہراہ قراقرم ہے کیونکہ پاکستان میں کہیں بھی، کسی قسم کا فساد ہوتا ہے تو سب سے پہلے گلگت بلتستان کی عوام کو سزا بھگتنی پڑتی ہے اور اسکی ابتداء اسی شاہراہ سے ہوتی ہے۔ راولپنڈی سانحے کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوا، دشمن نے پھر سے گلگت بلتستان کی اکثریتی آبادی کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی، اس وجہ سے یہاں کی حکومت نے ایک دفعہ پھر شاہراہ قراقرم کو غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیا، اس اعصاب شکن دھمکی نے گلگت بلتستان کے عوام کی پھر سے نیندیں اُڑا دیں لیکن انتظامیہ نے شاہراہ کو بند کر کے ہی اپنی ذمہ داری نبھا لی۔ ایک عجیب بات ہے کہ اس شاہراہ کو ایک طرف پاک چین دوستی کی علامت سمجھا جاتا ہے، دوسری طرف افواج پاکستان کیلئے دفاعی اعتبار سے بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اس شاہراہ پر کئی دلخراش سانحات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں لیکن لگتا ہے وہ تمام دعوے صرف اخباری بیان  کی حد تک تھے جن میں کہا گیا تھا کہ اس شاہراہ کیلئے اسپیشل فورس تشکیل دی جائے گی، یہاں جدید سیٹلائٹ فون مہیا کئے جائیں گے، ہر دو کلو میٹر پر سکیورٹی فورس کی چیک پوسٹیں قائم کی جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ آج سانحہ راولپنڈی نے وفاق پاکستان سمیت گلگت بلتستان انتظامیہ کا پول کھول دیا کہ اس شاہراہ پر اب بھی سفر محفوظ نہیں، یہاں اب بھی دہشت گرد کسی بھی وقت کاروائی کر سکتے ہیں۔

یااللہ آخر گلگت بلتستان کے عوام کب تک موت کی وادی میں سفر کرتے رہیں گے؟ وہ نام نہاد لیڈران جن کو ووٹ دیکر مرکز تک پہنچایا گیا تھا، کب عوام کو پُرامن سفر مہیا کرنے کیلئے اقدامات کریں گے؟ کب تک یہاں کے عوام مکتب فکر کے اختلاف کی بنیاد پر مرتے رہیں گے یا ڈر ڈر کے زندگی گزاریں گے؟ کب تک ہمارے علماء ایک دوسرے کی مسجدوں میں سیاسی نمازیں پڑھ کر منافقت کے چہرے دکھاتے رہیں گے؟ کیا ایک دوسرے کی مساجد میں نماز پڑھنے سے شاہراہ قراقرم محفوظ ہو جائے گی؟ کیا اجتماعی پریس کانفرنس کرنے سے اس خونی شاہراہ پر سفر کرنے والوں کے دلوں سے خوف کا سایہ ہٹ جائے گا؟ بالکل نہیں عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے سوشل میڈیا کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت گلگت شہر سے ایک مخصوص گروپ سوشل میڈیا کے ذریعے مکتب تشیع کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈے پھیلا رہے ہیں لیکن روکنے والا کوئی نہیں، حالانکہ گلگت بلتستان میں اس طرح کے انتشار پھیلانے والوں کا بڑی آسانی سے سراغ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ اطلاع کے مطابق یہاں کی ٹیلی کمونیکیشن سروس کو باقاعدہ سکیورٹی ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔

آخر میں ایک گزارش گلگت بلتستان کے عوام خاص طور پر دیامر کے عوام سے کروں گا خدارا دشمن ہماری بقاء ختم کرنے کی کوشش میں ہے مگر ہمیں خبر نہیں۔ بقول امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے کہ "ہم ہاتھ کھولنے اور باندھنے پر جھگڑے میں لگے ہوئے ہیں اور دشمن ہمارے ہاتھ کاٹنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے"۔ یہ دھرتی ماں ہماری بقاء ہے جب دھرتی نہ رہے تو ہمارے رہنے کے کوئی اسباب نہیں۔ ہمیں اپنے صفوں میں چھپے دشمنوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں دینداری کے نام پر فرقہ واریت میں الجھا کر مفاد حاصل کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بسنے والے شیعہ، دیوبندی، سنی، اسماعیلی اور نوربخشی ایک گھر کے پانچ بھائی ہیں۔ یہ پانچ بھائی ایک دوسرے سے گھر کی حد تک ناراض ہو سکتے ہیں لیکن محلے کے فساد کو گھر میں لا کر ایک دوسرے سے دست گریباں نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اسی فلسفے کے تحت شاہراہ قراقرم کو شاہراہ امن بنانے کیلئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہماری بقاء کا مسئلہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 324374
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش