1
0
Wednesday 27 Nov 2013 09:29

امریکہ ایران ایٹمی معاہدے کے پاکستان پر اثرات

امریکہ ایران ایٹمی معاہدے کے پاکستان پر اثرات
تحریر: قیوم نظامی

عوامی سطح پر امریکہ کے ایران کے ساتھ تعلقات 1953ء میں کشیدہ ہوئے، جب سی آئی اے نے سازش کے ذریعے ایران کے قوم پرست وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا، جنہوں نے ایران کی تیل کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور اقتدار میں حکومتی سطح پر امریکہ ایران تعلقات دوستانہ اور خوشگوار رہے۔ ایران ایشیا میں امریکہ کا تھانے دار بن گیا۔ 1979ء میں امام خمینی نے ایران میں عوامی انقلاب برپا کرکے شہنشاہ ایران کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ شہنشاہ کا انجام اس حد تک عبرتناک تھا کہ وہ دیار غیر میں دربدر پھرتا رہا اور اسے قبر کے لیے …ع
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
ایران کے انقلابیوں نے امریکی سفارت خانے میں سفارت کاروں کو یرغمال بنا لیا۔ اس اقدام سے امریکہ ایران تعلقات انتہائی کشیدہ رہے اور گذشتہ سالوں کے دوران ایٹمی مسئلہ پر تنائو اس حد تک بڑھ گیا کہ امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کر دیں اور ایران پر حملہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ کے اس اعلان کے بعد عالمی طاقتیں سرگرم ہوگئیں اور انہوں نے جنگ کو ٹالنے کے لیے خفیہ سفارت کاری شروع کردی۔

ایران کے نئے منتخب صدر حسن روحانی اور ان کے رفقاء نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی مفادات کے پیش نظر خارجہ پالیسی پر نظرثانی کا فیصلہ کرلیا اور امریکہ سے براہ راست خفیہ مذاکرات کا آغاز کیا۔ عالمی پابندیوں سے ایران کی معیشت دبائو کا شکار ہو رہی تھی۔ ایران کی قیادت کو یہ ادراک بھی تھا کہ اس کا ہمسایہ برادر اسلامی ملک پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود عالمی قوتوں کی مداخلت کو نہیں روک سکا اور چین نے محاذ آرائی سے گریز کرکے ہی معاشی ترقی حاصل کی ہے، البتہ ایرانی قیادت نے اپنے ملکی وقار اور عزت پر حرف نہ آنے دیا۔ ایران نے امریکی ڈرون کو مار گرایا اور خفیہ ڈپلومیسی بھی جاری رکھی۔ ایرانی قیادت نے نیشنلزم کے جذبے کو ختم نہ ہونے دیا اور آزادی و خود مختاری کے اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہوئے امریکہ اور عالمی طاقتوں سے باوقار معاہدہ کرلیا۔

خفیہ ڈپلومیسی کے نتیجے میں امریکہ اور ایران کے درمیان معاہدہ جنیوا میں طے پایا، جس پر سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکہ، روس، برطانیہ، چین، فرانس اور جرمنی نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ ایران 5 فیصد سے زیادہ یورنیم افزودہ نہیں کرے گا اور 20 فیصد سطح کا یورنیم کا ذخیرہ ضائع کر دے گا۔ ایران اپنی ایٹمی تنصیبات اور پلانٹس کا روزانہ کی بنیاد پر معائنہ کرائے گا۔ ایران اراک ایٹمی پلانٹ پر کام روک دے گا۔ چھ ماہ تک ایران پر مزید پابندیاں نہیں لگیں گی اور ایران کو 7 بلین ڈالر کا ریلیف ملے گا۔ ایران نے دنیا کے اہم ملکوں سے پرامن ایٹمی مقاصد کے لیے ایٹمی صلاحیت کا حق تسلیم کرالیا۔ چھ ماہ کے جائزے کے بعد ایک جامع معاہدہ تشکیل پائے گا۔ 

عالمی لیڈروں نے امریکہ ایران معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ امریکی صدر اوبامہ نے کہا ہے کہ ’’امریکہ نے اپنے اتحادیوں اور شراکت کاروں کے ساتھ مل کر پہلا اہم قدم اُٹھایا ہے، جس کے تحت ایران کے ایٹمی پروگرام پر خدشات کے سلسلے میں مکمل حل تلاش کیا جائیگا۔‘‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے کہا ’’یہ معاہدہ مڈل ایسٹ اور ریجن کی اقوام کے لیے مکمل تاریخی معاہدے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔‘‘ توقع کے مطابق اسرائیل نے اس معاہدے کو ’’تاریخی غلطی‘‘ قرار دیا ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے محتاط خیر مقدم کیا ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ امریکہ ایران معاہدہ پابندیوں اور سفارت کاری کا بہترین نمونہ ہے۔ مجموعی طور پر دنیا کے مختلف ممالک نے اس معاہدے کو عالمی امن کے لیے مثبت قرار دیا ہے۔

پاکستان نے امریکہ اور ایران کے معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے علاقائی امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات کشیدہ نہیں تو خوشگوار بھی نہیں رہے۔ پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے جاتے جاتے قومی جذبے یا سیاسی چال کے تحت ایران سے گیس درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور پاک ایران سرحد پر ہونے والی ایک تقریب میں بھی شرکت کی تھی، جس میں ایران کے صدر احمدی نژاد نے پاک ایران گیس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ میاں نواز شریف نے امریکی دبائو کے تحت پاک ایران گیس کے معاہدے کو التواء میں ڈال دیا۔ وہ عوامی سطح پر اس معاہدے کی تائید کرتے رہے مگر حکومتی سطح پر گذشتہ چھ ماہ کے دوران عملی طور پر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا۔ ایران اس سلسلے میں اپنے حصے کا کام مکمل کرچکا ہے۔
 
پاکستان کے عوام کو گیس کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کی جائے گی، مگر اس کے باوجود مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کے سلسلے میں سرد مہری کا مظاہرہ کیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت قومی جذبے سے عاری ہے اور امریکی دبائو میں قومی مفادات کو ترک کرنے کے لیے بھی آمادہ ہے۔ امریکہ ایران معاہدے کے بعد پاکستان کی قیادت کو سنہری موقع مل گیا ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر ایران کو اعتماد میں لے کر قومی مفاد کے حامل منصوبے پر کام کا آغاز کرے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز ایران کا دورہ کر رہے ہیں۔ اُمید ہے وہ ایرانی قیادت کا اعتماد (جسے پاکستان کی سردمہری سے ٹھیس پہنچی) بحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

امریکہ ایران ایٹمی معاہدے کا پاکستان کے لیے سبق یہ ہے کہ اگر ایران اپنے دشمن امریکہ سے اپنے معاملات باوقار طور پر حل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے تو پاکستان اپنے روایتی دوست امریکہ سے اپنے معاملات مستقل بنیادوں پر طے کیوں نہیں کراسکتا۔ امریکہ ایران سمجھوتہ نیشنلزم اور زمینی حقائق کے ادراک کا مثالی نمونہ ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی اور قومی مفاد کے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم تقاضے کیا ہیں، اس کا بہتر فیصلہ سیاسی اور عسکری قیادت ہی کرسکتی ہے جو ریاست کی طاقت اور کمزوریوں سے آگاہ ہے۔ تبصرہ نگار، تجزیہ نگار اور اینکرز نظر آنے والے حقائق اور دستیاب معلومات کی روشنی میں ہی حکومت کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ 

پاکستان کی قیادت ایران سے سبق سیکھ کر سنجیدہ، خاموش اور فعال سفارت کاری سے اپنے خارجہ امور طے کرسکتی ہے۔ پاکستان شاید ریاستی طاقت کو بروئے کار لانے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ حکمران اگر منافقت نہ کرتے تو ریاست کی طاقت کمزوری کا سبب نہ بنتی۔ اب سفارت کاری ہی شاید واحد آپشن ہے۔ امریکہ ایران معاہدے سے جنوبی ایشیا میں استحکام آئے گا۔ ایران کے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ تعلقات معمول پر آجائیں گے۔ 2014ء میں جب نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں گی تو افغانستان کے استحکام اور امن کے لیے ایران کا کردار بڑھ جائے گا۔ پاک ایران گیس منصوبے کی تکمیل سے دونوں ملکوں کے درمیان نئے دور کا آغاز ہوگا۔
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 325035
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

bahtareen tahreer hai mobarak ho.
ہماری پیشکش