2
0
Tuesday 3 Dec 2013 20:33

ہاسٹل کیطرح پنجاب یونیورسٹی بھی واگزار کرائی جائے

ہاسٹل کیطرح پنجاب یونیورسٹی بھی واگزار کرائی جائے
تحریر:ابو فجر

سینئر استاد پر ہونے والا تشدد آخر کار جمعیت کو لے ہی ڈوبا، پنجاب یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر نعیم اللہ نے کینٹین سے جمعیت کے عہدیداروں کا مفت کھانا پینا بند کیا کیا، جمعیت کے کرتا دھرتائوں نے اس اقدام کو اپنی توہین سے تعبیر کرتے ہوئے سینئر استاد کو ’’سبق سکھانے‘‘ کا فیصلہ کر ڈالا اور پھر لاء ڈیپارٹمنٹ میں یونیورسٹی کے سینئر استاد کو پیٹ ڈالا۔ جمعیت والے یہ بھول گئے کہ
استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تول
استاد  تو  ہر  دور  میں انمول  رہا   ہے

لیکن نام نہاد ’’اسلامی‘‘ جمعیت، جس نے اسلام کا صرف لبادہ اوڑھ رکھا ہے اسے کیا علم کہ استاد کی کتنی قدر و اہمیت ہوتی ہے، جمعیت کا اسلامی پن تو ہاسٹل نمبر سولہ کے آپریشن کے دوران اس کے عہدیداروں کے کمروں سے ملنے والی شراب کی بوتلوں سے ہی بےنقاب ہو گیا، نجانے منصورہ میں شراب کی کتنی بھٹیاں ہوں گی، پولیس کو وہاں بھی آپریشن کرنا ہو گا تاکہ وہاں کے بارے میں بھی علم ہو کہ وہاں کیا گل کھلائے جا رہے ہیں۔ اب اگر انتظامیہ نے ہمت کر کے ہاسٹل سے جمعیت کی اجارہ داری ختم کر ہی دی ہے تو تھوڑی سی محنت اور کر کے یونیورسٹی کو بھی جمعیت کے قبضہ سے واگزار کرا لیا جائے، اس اقدام کے  ردعمل میں زیادہ سے زیادہ جمعیت یہ کرے گی کہ دو بسیں اور جلا دے گی، کیمپس پل دو چار گھنٹوں کے لئے بند کر دے گی، ملتان روڈ پر بھی ٹائر جلائے گی، لیکن صوبے کے عوام یہ سب برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی جاگیر داری برداشت کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔

بہت سے والدین اپنے بچوں کو صرف اس لئے پنجاب یونیورسٹی نہیں بھیجتے کہ کہیں جمعیت والے اسے ’’مجاہد‘‘ بنا کر کسی جہاد کے محاذ پر نہ بھیج دیں۔ یا ایسا نہ ہو کہ ان کا بیٹا کسی طالبان گروپ کا امیر بنا پھرے۔ پنجاب یونیورسٹی کی سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی بھی سنا ہے جماعت اسلامی ہی ہر سال معمولی سی رقم دے کر ٹھیکہ پر لے لیتی ہے اور اسے کاشت کر کے اس سے حاصل ہونے والی آمدن منصورہ کے فنڈ میں جمع کرائی جاتی ہے، تو یونیورسٹی کی زرعی اراضی کو بھی جماعت اسلامی سے واگزار کرا کر شفاف انداز میں بولی پر ٹھیکے میں دی جائے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کے سٹاف، درجہ چہارم کے ملازمین اور سکیورٹی گارڈز میں بھی جماعت اسلامی کے بہت سے ’’خیر خواہ‘‘ موجود ہیں جن سے مادر علمی کو پاک کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اصل میں وہ لوگ ہیں جو ’’اندر‘‘ کی باتیں جمعیت اور جماعت اسلامی تک پہنچاتے ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی بہت سے پالیسیاں عمل درآمد سے قبل ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت کو اس حوالے سے راست اقدام کرنے کی ضرورت ہے کہ مادر علمی میں طلباء حصول علم کے لئے آتے ہیں لیکن جمعیت کی اجارہ داری کے باعث وہ نہ بہتر انداز میں پڑھ پاتے ہیں اور نہ اپنا مستقبل بنا پاتے ہیں۔

ویسے تو جماعت اسلامی کے ذمہ داران یہ دعویٰ کرتے تھکتے نہیں کہ ملک میں ’’جیو اور جینے دو‘‘ کا اصول ہونا چاہیئے لیکن پنجاب یونیورسٹی میں اس کے برعکس صورت حال ہے۔ یہاں تو صرف یہ اصول لاگو ہے کہ’’ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنا ہے تو جمعیت کی بالادستی تسلیم کرنا ہو گی‘‘ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں، یہاں کوئی دوسری طلباء تنظیم پنپ سکتی ہے اور نہ کسی جگہ چار سے زائد طلباء جمع ہو سکتے ہیں کیوں کہ جمعیت والوں کو شک پڑ جاتا ہے کہ یہ کوئی نئی تنظیم بنانے کیلئے جمع ہو رہے ہیں اور ان بچارے چار طالب علموں کی شامت اعمال آ جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں کا وجود بری بات نہیں، بہت سی طلباء تنظیموں نے بہت بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دان، ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرین تعلیم، مفکر اور دانشور دیئے ہیں لیکن جمعیت خود کو برگد کا وہ درخت سمجھتی ہے جس کے نیچے کوئی اور پودا پرورش ہی نہیں پا سکتا، ملک میں جمہوریت کیلئے رات دن ایک کر دینے والی جماعت اسلامی نے پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کو اپنا آلہ کار بنا کر آمریت قائم کر رکھی ہے۔

کئی بار جمعیت کے دوسری طلباء تنظیموں کے ساتھ جھگڑے بھی ہو چکے ہیں لیکن فوری طور پر لیاقت بلوچ صاحب درمیان میں پڑ کر معافی مانگ کر بیج بچاؤ کرا دیتے ہیں۔ اپنی اسی اجارہ داری کی بقا کے لئے جمعیت نے پنجاب یونیورسٹی میں کئی بےگناہ طلباء کی زندگیوں کو بھی ’’بَلی‘‘ چڑھا دیا ہے۔ ابھی پچھلے سال ہی ایک طالب علم اویس عقیل، جو جمعیت کا ہی عہدیدار تھا کو جمعیت کے ہی سابق عہدیداروں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی طرح جمعیت نے بلوچستان کے طلباء پر بھی تشدد کیا، پختونوں کو بھی نہ بخشا، اس کے علاوہ یونیورسٹی میں یوم حسین (ع) کی تقریب کو بھی صرف اس لئے روک دیا گیا کہ اس کا اہتمام آئی ایس او نے کیا تھا، وہ تو بھلا ہو وائس چانسلر کا، جنہوں نے کہا کہ ہم حسینی ہیں اور ہم نواسہ رسول (ع) کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یہ تقریب خود کرائیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا یونیورسٹی میں انتظامیہ کی جانب سے یوم حسین (ع) کا انعقاد کیا گیا۔ جمعیت کی یہ اجارہ داری تعلیم کے راستے میں بہت بڑی رکاؤٹ ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے زیر کنٹرول چلنے والے بہت سے تعلیمی اداروں میں جمعیت کا وجود تک نہیں، پھر آخر کیا وجہ ہے کہ صرف پنجاب یونیورسٹی میں ہی جمعیت کا قبضہ کیوں کرایا گیا ہے۔ کیوں جمعیت طلباء کو دل جمعی کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتی، کیوں یونیورسٹی میں کسی دوسری طلباء تنظیم کو پنپنے نہیں دیا جاتا؟

گذشتہ رات ایک نجی ٹی وی چینل پر فرید پراچہ صاحب فرما رہے تھے کہ بس کو آگ لگانے والے جمعیت کے کارکن نہیں تھے بلکہ نقاب پوش تھے جو باہر سے آئے تھے، یہ جمعیت کو بدنام کرنے کی سازش ہے، لیکن بھیکے وال موڑ پر واقع پٹرول پمپ کا عملہ تو جانتا ہے کہ وہ نقاب پوش نہیں بلکہ سائنس کالج سے جمعیت کے عہدیدار تھے، جنہوں نے شاپروں میں وہاں سے آ کر پٹرول خریدا اور لے جا کر بس کو آگ لگا دی، فرید پراچہ صاحب آپ دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے، میڈیا کا دور ہے، اب تو فوری دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلباء کے عہدیداروں نے سینئر استاد پر یہ الزام عائد کر ڈالا کہ وہ لڑکیاں لے کر کمرے میں موجود تھے، باپ جیسے شفیق انسان پر ایسے بیہودہ الزامات لگاتے ہوئے نام نہاد اسلامیوں کو ڈوب مرنا چاہیئے۔ یونیورسٹی میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، آنے جانے والوں کی ہر حرکت مانیٹر ہوتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک پروفیسر یونیورسٹی کے کلاس روم میں ایسی گھٹیا حرکت کر مرتکب ہو، ایک استاد کے لئے طلباء و طالبات کی حیثیت اپنی اولاد کی سی ہوتی ہے اور اولاد کیلئے انسان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اولاد ترقی کر کے اعلیٰ مقام پر پہنچ جائے، یہ الگ بات ہے کہ کچھ اولادیں ایسی بھی نکل آتی ہیں جن کو عاق کرنا پڑتا ہے، تو تعلیم کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ اب جمعیت کو یونیورسٹی سے عاق کر دیا جائے۔ بصورت دیگر اس نافرمان بچے نے جہاں باپ کی عزت خاک میں ملا دی ہے وہاں گھر کا بھی نقصان کرے گا۔ دہشت گرد تک تو یہاں سے پکڑے جا چکے ہیں مزید پنجاب حکومت اور کیا برآمد کرانا چاہتی ہے؟ اس سے قبل کہ فضل اللہ اور ملا عمر یہاں سے پکڑے جائیں، جمعیت سے پنجاب یونیورسٹی کو واگزار کرا لیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 326910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سو فیصد درست بات ہے، پنجاب یونیورسٹی میں امن کے لئے جمعیت سے نجات ضروری ہے۔
عابدہ شکیل لاہور
یہ جمعیت اسلام نہیں جمعیت شیطان ہے، اسکو زیاده رسوا کرو، خدا انکو زدوتر برباد کر۔
سلیم الله نیازی kpk
ہماری پیشکش