0
Sunday 8 Dec 2013 19:39

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے (2)

حزب اللہ کے کمانڈر شہید حسان اللقیس کے نام
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے (2)
تحریر: جاوید عباس رضوی

استاد شہید مرتضٰی مطہری شہادت کے فلسفے کو روشن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شہید کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شہید ہوجائے، فنا ہوجائے اور شمع کی طرح جل جائے، تاکہ اپنے اردگرد کے ماحول کو روشن کرسکے، شہید کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شہید ہوکر اس معاشرے کی بقاء کے لئے اپنے وجود کو ختم کرکے معاشرے کو نئی زندگی بخش دے، اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں کہ شہید کا رتبہ صرف اس کی شہادت پیش کرنے سے اہمیت کا حامل نہیں ہوتا، اس دنیا میں روز بروز مختلف مقاصد کے لئے لوگ اپنی جان مفت میں گنواتے ہیں اور لوگ ان کی موت کو ان کی بدقسمتی سے جوڑتے ہیں اور ان کے مرنے سے انہیں کوئی امتیاز و افضلیت ہرگز حاصل نہیں ہوتی اور بعض مواقع پر ایسی موت ذلت کی موت کہلاتی ہے، استاد مطہری (رہ) فرماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے کو شہادت کہتے ہیں، اس مرحلہ میں انسان تمام خطرات زندگی کو جانتے ہوئے بھی مقصد اور ہدف کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے راہ خدا میں اپنی جان فدا و قربان کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے، ایسی موت کو حیات پر ترجیح دی گئی ہے۔

شہید مقصد اور ہدف کو بچانے کے لئے خدا کی راہ میں صرف خدا کے لئے اپنی جان کو فدا کرتا ہے، شہادت میں چونکہ شہداء اچھے طرح سے واقف ہوتے ہیں کہ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جان کو اہداف کے لئے قربان کر دیں گے، اس لئے شہادت کو ایک عمل شجاعانہ، دلیرانہ اور مردانہ خیال کیا جاتا ہے اور ایسی اموات زندگی سے بہتر و بالا، محترم و مقدس ہوا کرتی ہے، شہادت ایک بلند و بالا اور پروقار درجہ ہے جسے شہید آگاہانہ و اختیارانہ طور پر مقصد کو بچانے کے لئے تمام حیات و مافیھا کو مٹا کر حاصل کرتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کی جنت متلاشی ہوتی ہے۔
جب تک نہ جلے دیپ شہیدوں کے لہو کا
کہتے ہیں جنت میں چراغان نہیں ہوتا


شہید کی شجاعت:
جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ دین اسلام ناب کو ہر آن شجاع و دلاور لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے لوگ کہ جو درجہ شہادت پر فائز ہونے کو زندگی پر ترجیح دیں، شہادت کا مقصد تنہا دشمن کو شکست دنیا نہیں ہوتا ہے بلکہ شہادت سے اسلام کی خاطر جوش و جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے، یہ شہید کی شجاعت ہی ہوتی ہے جو محل و مواقع، طاقت و سلطنت، طاغوت و جارحیت اور زد و کوب کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر ہدیہ جان پیش کرتا ہے اور باقی ماندہ سرمایہ حیات کی ہرگز پرواہ نہیں کرتا اور اپنے امور کی شجاعت کے ساتھ اللہ کو سونپ دیتا ہے۔ بقول آنند نارائن
حیات عارضی صدقے حیات جاودانی پر
 فنا ہونا ہی اب اک زیست کی صورت سمجھتے ہیں


یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ راہ حق پر چلنے والا اپنے حقوق کو پامال ہوتے ہوئے ہرگز نہیں دیکھتا اور اگر اسے حق دیا نہیں جاتا وہ اسے حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک کوشش کرسکتا ہے، غور طلب ہے کہ اہل مغرب کا نظریہ یہ ہے کہ ’’حق لینے کی چیز ہے‘‘ اب یہ فکر ہمارے ممالک میں بھی پروان چڑھنے لگی ہے، یعنی جس کے حقوق پامال ہو رہے ہوں یا ہوئے ہوں، اگر اس میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی ہمت و طاقت ہے تو حاصل کرے، اہل مغرب حق دینے کے قائل ہرگز نہیں ہیں، لیکن درحقیقت ’’حق لینے اور دینے کی چیز ہے‘‘، یعنی اگر کسی کے پاس کسی کا حق ہے تو وہ اسے ادا کرے اور اگر صاحب حق کے حقوق ادا نہ کئے جائیں تو صاحب حق کے لئے لازم ہے کہ اپنے حقوق حاصل کریں، اس کے لئے جدوجہد کرے۔

اللہ کی ذات اور صفات میں محو ہونے کے بعد یقین کی شعائیں انسانی دل و دماغ میں جنم لیتی ہیں اور پھر انسان اپنی زندگی کو مکمل پابندِ احکام الہی بناتا ہے، جب اسے اللہ کی ذات و صفات پر یقین محکم پیدا ہوتا ہے تو شوق شہادت پیدا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر عارف حضرات شہادت کے لئے ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں، پرودگار عالم کی معرفت حاصل ہونے کے بعد دنیا اور دنیاوی چیزوں سے لاتعلقی کے بارے میں ابو سعید ابوالخیر فرماتے ہیں کہ: 
 ہرکس کی تو را شناخت جان را چہ جند
 فرزند و عیال و خانمان را چہ کند
دیوانہ کنی، و ہر دو جہانش بخشی
 دیوانہ تو ہر دو جہان را چہ کند

 ترجمہ: جس نے بھی تجھے (اللہ) پہچانا وہ اپنی زندگی کا کیا کرے گا
 اپنی اولاد، اپنے عیال اور اپنی خانم کا کیا کرے گا  
اے اللہ، تو نے اسے اپنا دیوانہ بنایا اور دونوں جہاں عطا کئے
  لیکن تیرا دیوانہ دونوں جہاں لے کر کیا کرے گا

دنیا و مادہ پرستی سے لاتعلقی ہی انسان کو اللہ سے قریب تر کر دیتی ہے اور انسان دلوں میں شوق شہادت کے جذبے کو بیدار و اجاگر کرتی ہے، پھر انسان بآسانی اپنے وجود کو اللہ کے سپرد کرتا ہے اور لافانی حیات کا مستحق ہوجاتا ہے۔
 ولاتحسبن الذین قتلوا۔۔۔الخ۔ خدا اپنی حیات کو راہ خدا میں اس قدر مصروف و مگن رکھنا کہ دنیا کی کوئی بھی چیز اس کے قدموں کو متزلزل اور لڑکھڑا نہیں پاتی ہے اور ایسے ہی افراد شیر کی طرح میدان جنگ میں لڑ کر جام شہادت نوش فرماتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے صادر آتا ہے۔
 راھبون باللیل، ولیون بالنھار۔ وہ رات بھر عبادت پروردگار میں رہتے ہیں اور جب دن کی شروعات ہوتی ہے تو شیر نر کی طرح میدان جدل میں مصروف جنگ ہوتے ہیں، ایسے لوگ ہمیشہ تن بہ رضائے حق ہوتے ہیں اور صرف اللہ کے حکم کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب مرضی رب دو جہاں شامل ہوجائے اور شہادت نصیب ہوجائے، مادہ پرست اشخاص کی زندگیوں کا دار و مدار حکام، سلاطین، ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کے حکم پر منحصر ہوتا ہے اور ان کے حکم کے تحت ہی وہ موت کے گھاٹ اُتارے جاتے ہیں لیکن راہ حق، راہ خدا میں اپنی زندگی گزارنے والے صرف اور صرف حکم رب کے منتظر و پابند ہوتے ہیں۔

مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کا فرمانا ہے کہ
فان الحیوۃ فی موتکم قاھرون، والموت فی حیاتکم مقھورین
 زندگی اسی میں ہے کہ تم جان دے دو مگر کامیاب و کامران ہوکر غالب آجاؤ اور موت اسی میں ہے کہ تم زندہ رہو مگر مغلوب و مقصور و غلام بن کر۔ 
کچھ منفرد لوگ ہمارے درمیان عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں اور ذلت، رسوائی اور غلامی کی زندگی بسر نہیں کرتے ہیں بلکہ طاغوت و ظلم سے مقابلہ کے لئے ہمیشہ آمادہ ہوتے ہیں۔
 امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ
 ’’ہمیں فقر و فاقہ کی زندگی کیوں نہ گذارنی پڑے لیکن دوسروں سے بھیک مانگ کر ہم تقدم، تمدن اور ترقی کی زندگی بسر نہیں کرنا چاہتے، ہم مسلمان ہیں ایسا تمدن چاہتے ہیں جو شرف و انسانیت پر مبنی ہو، چاہے اس کے لئے ہمیں لاکھ کوششیں کیوں نہ کرنی پڑیں۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں کہ
 لالف ضربۃ بالسیف، احب الی من میتۃ علی فراش
 اگر تلوار سے ہزار وار مجھ پر کئے جائیں اور میرے سر و گردن کو کاٹ دیا جائے تو میرے لئے یہ شہادت اس موت سے بہت عزیز ہے جو کسی بیماری کی وجہ سے بستر پر واقع ہو۔

امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ
 الموت خیر من رکوب العار، والعار اولی من دخول النار
 ذلت کی زندگی سے موت بہتر ہے اور جہنم میں داخل ہونے سے ذلت بہتر ہے۔
ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم باکردار بن جائیں اور اس کردار کی انتہا جذبہ شہادت ہے، اس کے بعد اللہ پر اعتماد رکھیں، اللہ جسے چاہے جام شہادت نوش فرمائے یا شہادت کے بغیر ہی اسے شہید کا درجہ عنایت فرمائے۔ شہادت کے لئے اولیاء خدا، صادق و سچے مومن ہمیشہ کوشاں رہے ہیں اور ایسے انتقال کو بہترین سرمایہ جانتے ہیں، شہادت کی یہی آرزو اور مسلسل دعائیں ان کے کام آتی ہیں اور انہیں درجہ مخصوص حاصل ہوتا ہے اور قوم و معاشرے کو حیات جاودانی عطا کرتے ہوئے ان کی ذمہ دایوں میں اضافہ فرماتے ہیں، بقول استاد سید جواد نقوی جب کوئی شہید ہوتا ہے اور جب کسی کا خون بہایا جاتا ہے تو زندہ رہنے والوں کو احساس ذمہ داری زیادہ ہونا چاہئے چونکہ خون مقصد کے لئے دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 328066
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش