2
0
Friday 6 Dec 2013 23:26

پھولوں کی مہکار جمعیت۔۔۔۔؟؟

پھولوں کی مہکار جمعیت۔۔۔۔؟؟
تحریر: خواجہ جمشید امام

ایک نجی چینل پر ایم کیو ایم کے ترجمان حیدر عباس رضوی سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل فرید پراچہ نے انکشاف کیا کہ مولانا مودودی بہت بڑے عاشق رسول تھے، انہوں نے قادیانیوں کے خلاف کتاب لکھی تو ایک فوجی ڈکٹیٹر نے انہیں سزائے موت سنا دی تھی، یہ تو سعودی دوستوں کی مہربانی تھی کہ اُنہوں نے مودودی صاحب کی عالمانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا مودودی کی پھانسی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا اور حکومت پاکستان سے یہ بھی کہا کہ وہ مولانا کو سعودیہ بھیج دیں۔ یہ بات سننے کے بعد میں سوچ رہا ہوں اگر صرف ایک کتاب لکھنے پر مولانا اتنے بڑے عاشق رسول ہوسکتے ہیں تو پھر ذوالفقار علی بھٹو کا کیا مقام ہوگا، جس نے اپنی پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا، لیکن بھٹو کے پھانسی دلوانے میں پیش پیش نو ستاروں میں ایک ستارہ جماعت اسلامی بھی تھا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جس صبح بھٹو کو پھانسی دی گئی اُسی رات سعودیہ سے ایک سواری اسلام آباد اتری اور سیدھی جنرل ضیاء الحق کے صدارتی محل میں داخل ہوئی اور پھر بھٹو کو پھانسی ہوگئی، یہ کوئی اور نہیں امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد تھے، جن کے داماد اس وقت تحریک انصاف پنجاب کے صدر ہیں۔ اسی طرح ایک طیارہ راتوں رات ہمارے سزا یافتہ مجرموں کو لے کر سعودیہ روانہ ہوگیا تھا لیکن بھٹو کیلئے طیارہ نہیں ایک سعودی پیارا آیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ اس ریاست کو عاشقِ رسول بھی اپنے من پسند قابلِ قبول ہیں۔ طالبان سے تو جب مذاکرات ہوں گے تب ہوں گے لیکن لاہور میں اسلامی جمعیت طلباء کی جانب سے ہونے والی دہشت گردی کے بعد میں حکومت کو یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ اسلامی جمعیت طلبہ سے مذاکرات کیلئے فوراً اے پی سی بلا لینی چاہیے کہ اس کے سواء اور کوئی چارہ ’’بیچاروں‘‘ کے پاس دکھائی نہیں دیتا۔

بلاشبہ اسلامی جمعیت طلبہ قربانیوں کی ایک عظیم داستاں ہے لیکن یہ قربانیاں اُس نے دی نہیں لی ہیں، میرے لیے یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ کسی بھی حکومت نے کبھی اس پر ہاتھ نہیں ڈالا جبکہ اِن کا ہاتھ ہر حکومت کے گریبان سے لے کر سٹرک پر چلتے ہوئے انسان کی شہ رگ پر ہوتا ہے۔ میں نے یہ واقعہ پڑھ رکھا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے مولانا بھاشانی پر تشدد کیا تو اُنہوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تاریخی کسان کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اب تم اُدھر (مشرقی پاکستان) آؤ گے تو ویزا لے کر آؤ گے‘‘ اور پھر تاریخ نے اس جملے کو سچ کر دکھایا۔ البدر اور الشمس کے کردار پر پاکستان کی جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبہ کو فخر ہوسکتا ہے لیکن تاریخ کے اوراق پر یہ سب کچھ انتہائی مکروہ تصور کیا گیا ہے، جس کی زندہ مثال جماعت اسلامی پر بنگلہ دیش میں عائد پابندی ہی بطور ثبوت پیش کرنے کیلئے کافی ہے۔

جنرل ضیاءالحق کا دور حکومت حقیقت میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا عہد ہی تصور کیا جاتا ہے، جب پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹلز ’’افغان مجاہدین‘‘ کے محفوظ ترین پناہ گاہ تھے اور یہ ’’مجاہدین‘‘ اکثر دوسری طلباء تنظیموں کیخلاف ’’جہاد‘‘ کرتے بھی پائے گئے۔ خیر یہ تو ماضی کی باتیں ہیں اب تو ڈرون حملوں میں مارے جانے والے انجینئر اور سفارت خانوں پر حملوں کے ملزمان بھی اسی یونیورسٹی کے ہوسٹلز سے برآمد ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں کیونکہ اسامہ بن لادن کو جماعت اسلامی شہید اور پاک فوج کے جوانوں کو ہلاک سمجھتی ہے، سو مشکوک اور مطلوب ڈھونڈنے کیلئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ضیاء دور میں ’’ہفتہ اخلاق‘‘ کے نام پر طلباء کے ساتھ بد اخلاقی کے سینکڑوں مناظر کا میں خود چشم دید گواہ ہوں، لیکن مجھے اِن سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ پسماندہ علاقوں سے آئے طاقت کے متلاشی نوجوانوں کو جب اسلامی جمعیت طلبہ کا ساتھ مل جاتا ہے تو پھر مقامی طلباء اور اساتذہ کو بے عزت ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

پنجاب یونیورسٹی یا لاء کالج میں کسی استاد پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی ان گنت بار ایسے واقعات ہوچکے ہیں اور اس کے پس منظر میں وہ ذہنیت ہے جو کینٹین کے نئے ٹھیکیدار کو برملا کہتی ہے کہ ’’یونیورسٹی کی اصل مینجمنٹ جمعیت ہے‘‘ جبکہ ریاست کے اندر ریاست اور کسی ادارے میں دو غیر انتظامی عناصر اپنے آپکو حکومتی ملازمین سے زیادہ طاقتور شمار کریں تو پھر ایسے واقعات کا رونما ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا حیران کن ہوگا۔ یہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے جب اسی پنجاب یونیورسٹی میں اِسی اسلامی جمعیت طلبہ نے قومی ہیرو عمران خان پر تشدد کیا لیکن اُس وقت عمران خان کے گرد کپتان کپتان کا راگ الاپنے والا ایک کالم نویس بہت دنوں تک کالم چھوڑ کر صلح نامہ لکھتا رہا۔ اُسے یقین تھا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا اور میں نے اُس وقت بھی لکھا تھا کہ ان سے صلح کا مطلب انہیں نیا ظلم کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔ سو اب کینٹین کا قبضہ لینے کی لڑائی کو سارے لاہور میں پھیلا دیا گیا ہے۔

سکول سے آتے بچے ٹریفک کی بھیڑ میں گھنٹوں پھنسے رہے، کالجوں سے گھروں کو لوٹتی بچیاں ٹریفک میں پھنس گئیں تو ماں باپ کا کلیجہ منہ کو آگیا، ٹریفک میں پھنسی 1122 کی گاڑیاں شور مچاتی رہیں لیکن کوئی رستہ ان کیلئے نہیں کھلا، ہزاروں انسانوں کے وقت کا ضیاع، لاکھوں روپے کا پٹرول ٹریفک میں پھنس کر ضائع، پریشانی، ذلت اور رسوائی الگ، شہر بھر میں خوف کی فضا، سرکاری املاک کو نذر آتش کرنا، موبائل چھیننا، نذر آتش ہونے والی بس میں سوار افراد نے شیشے توڑ کر اپنی جان بچائی ورنہ حادثہ اس سے بھی سنگین ہوسکتا تھا۔ یہ سب کچھ دہشت گردی نہیں تو پھر دہشت گردی کی اور کیا تعریف ہوسکتی ہے۔ صرف ایک کینٹین پر قبضہ کرنے کیلئے  کینٹین کے سابق ٹھیکیدار اقبال کے اُکسانے پر اسلامی جمعیت طلبہ کے اسلامی انقلاب کے دعوے داروں نے سب کچھ تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ اس واقعہ کے حقائق جاننے کیلئے بہت زیادہ لوگوں کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں، صرف کینٹین کے سابقہ ٹھیکیدار کو گرفتار کر لیا جائے تو وہ سب کچھ اگل دے گا۔ وہ بتائے گا کہ ناظم لا کالج، اس کے ساتھیوں اور چند دوسرے کن ٹٹووں کے ساتھ اُس کا کیا معاہدہ ہوا تھا۔

زمانے گزر گئے، ہم صنعتی انقلاب کے عہد سے نکل کر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں داخل ہوگئے، دنیا بدل گئی، اگر کچھ نہیں بدلا تو اُن الزامات کی نزولی ترتیب و ترکیب نہیں بدلی جو اسلامی جمعیت طلبہ نے ہمیشہ اپنے خود ساختہ مخالفین پر عائد کئے ہیں، جن میں سرفہرست جنسی سکینڈل، اُس کے بعد سُرخا ہونا، اُس کے بعد قادیانی ہونا (یعنی غیر مسلمانوں کو پنجاب یونیورسٹی کا دروازہ بند ملنا چاہیے) اور اگر کوئی ان سب سے بچ جائے تو پھر بریلوی یا اہل تشیع ہونا ہی شکار کرنے کیلئے کافی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہوسٹلز کے کل تعداد 26 ہے جن میں سے 10 لڑکیوں کے پاس تھے جب کے 16 پنجاب یونیورسٹی نے لڑکوں کو الاٹ کر رکھے تھے لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی سو مینجمٹ کو لڑکیوں کیلئے ہوسٹل کی ضرورت تھی، لیکن جب لڑکوں کے ہوسٹل میں ایک کمرہ جس میں تین طلبہ کے رہنے کی اجازت ہے اُس میں سات سات بیرونی عناصر رہیں گے تو پھر انہیں خالی کروانے میں دشواری تو آئے گی۔

پنجاب یونیورسٹی میں ہوسٹلز کی تقسیم بھی طلباء اور طالبات میں برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے اور اگر حکومت سنجیدگی سے غور کرئے تو پنجاب یونیورسٹی کا سب سے بڑا مسئلہ وہ نااہل اساتدہ بھی ہیں جو اپنی تعلیمی قابلیت نہیں بلکہ جماعت اسلامی اور جمعیت کے کوٹے میں یہاں ’’بھرتی‘‘ ہیں، جن کی تدریسی ذمہ داریوں سے زیادہ ان کا فرض اسلامی جمعیت طلباء کے ’’مفادات‘‘ کا تحفظ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کے اسٹاف میں بھرتی جماعت  اسلامی کے سابق ہمدرد، رفیق اور جانثار بھی شامل ہیں۔ جن یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہماری بیٹیاں اور بیٹے تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں خوف کے ماحول سے آزاد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت سے ذمہ داری پوری کرنے کی توقع مجھے تو کسی صورت نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے جو کچھ کیا ہے اُس کی جڑیں افغانستان کے پہاڑوں سے جا ملتی ہیں، جہاں ایک خونخوار لشکر للچائی ہوئی نظروں سے اسلام آباد کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اگر کوئی خرابی ہوتی ہے تو انہیں ہوسٹلز میں پناہ گزیں ’’مجاہدین‘‘ القاعدہ اور تحریک طالبان کا ہراول دستہ ہوں گے، سو کیوں نہ پہلے اِ ن سے مذاکرات کر لئے جائیں۔ یہی ہم سب کے مفاد میں ہے کہ اب دہشت گردوں سے مذاکرات کے علاوہ شاید ہمارے پاس کوئی حل نہیں بچا۔ پھر پھولوں کی مہکار جمعیت
 شجرِ سایہ دار جمعیت
 کے نیچے پناہ لینے میں بُرائی کیا ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 328121
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت خوب، یہ سب تو ہمیں پتہ ہی نہیں تھا۔
Iran, Islamic Republic of
بردار عزیز پنجاب حکومت کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ صرف پنجاب یونیورسٹی ہی نہیں پنجاب کی دوسری یونیورسٹیاں اور کالجز بھی ظلم کے خلاف للکار جمعیت کی غنڈہ گردی کا شکار ہیں۔

ایک سوال دوست خواجہ صاحب سے جب اوپر آپ نے سعودیہ اور جماعت اسلامی کا تعلق واضح کیا تو کیا نواز شریف اور شہباز شریف سعودی نواز ان کے خلاف کارروائی کی پوزیشن رکھتے ہیں۔ کیونکہ اب پیپلز پارٹی سامنے بلکہ شہباز شریف بمقابلہ جمعیت یا جماعت اسلامی ہے۔ ۔ ۔ ؟
ہماری پیشکش