0
Wednesday 11 Dec 2013 00:27

ایران امریکہ تعلقات اور اسرائیل کی لڑکھڑاتی اسٹریٹجک پوزیشن

ایران امریکہ تعلقات اور اسرائیل کی لڑکھڑاتی اسٹریٹجک پوزیشن
تحریر: جرج فریڈمین

اسلام ٹائمز- اسرائیل نے حال ہی میں ایران اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے پر اپنی شدید پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کا یہ ردعمل متوقع تھا لیکن جو چیز واضح نہیں وہ یہ ہے کہ اسرائیل کس قدر پریشان ہے اور اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کو کس انداز میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ اسٹریٹجک پوزیشن اچھی ہے۔ مصر میں دو سال سے جاری بدامنی اور سیاسی کشمکش کے بعد بھی اسرائیل اور مصر کے درمیان موجود امن معاہدہ اپنے حال پر باقی ہے۔ شام خانہ جنگی کا شکار ہے اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل ہو جائے۔ لیکن اس کے باوجود شام میں موجود دہشت گردوں کی جانب سے اسرائیل کو کسی قسم کا اسٹریٹجک خطرہ محسوس نہیں ہو رہا۔ لبنان میں بھی حزب اللہ اسرائیل کو نشانہ بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اردن کی حکومت تو شروع سے ہی اسرائیل کی طرف جھکاو رکھتی ہے اور اب تک اپنے سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ 
 
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت اسرائیل اسی پوزیشن میں ہے جہاں وہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے وقت تھا۔ اسرائیلی سرحدیں ہر قسم کے فوجی حملے سے محفوظ ہیں۔ فلسطینی بھی اپنے اندرونی اختلافات کا شکار ہیں اور اگرچہ بعض اوقات غزہ کی پٹی سے اسرائیل کی جانب چھوٹے موٹے میزائل اور راکٹ داغ دیئے جاتے ہیں لیکن کرانہ باختری سے کسی نئی انتفاضہ تحریک کے شروع ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو کسی ایسے خطرے کا سامنا نہیں جو انکی بقاء کو خطرے کا شکار کر سکے۔ البتہ ایک بڑا خطرہ اسرائیل کے سر پر منڈلا رہا ہے اور وہ اٹامک ایران ہے۔ 
 
اسرائیل اس بات سے شدید خوفزدہ ہے کہ کسی دن ایران جوہری ہتھیاروں سے لیس ہو جائے۔ اس بات سے ہٹ کر کہ یہ امکان کس حد تک قابل تحقق ہے، یہ امکان بذات خود اسرائیل کیلئے ایک ڈراونے خواب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکام نے ایران کے جوہری پروگرام کو اپنی سیکورٹی ترجیحات میں سرفہرست قرار دے رکھا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اسرائیلی حکام اپنے اسٹریٹجک اتحادی یعنی امریکہ کو کس طرح اپنی اس پریشانی میں شریک کرنا چاہتے ہیں یا یہ کہ یہ مسئلہ کس حد تک تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان موجود تعلقات پر اثرانداز ہو سکتا ہے لیکن وہ چیز جو یقین سے کہی جا سکتی ہے یہ ہے کہ اسرائیل ہر گز امریکہ کی حمایت اور مدد کے بغیر ایران سے ٹکر نہیں لے سکتا۔ شائد اس وقت اسرائیل کو امریکہ کی زیادہ ضرورت نہ ہو اور وہ امریکہ پر زیادہ تکیہ نہ کر رہا ہو لیکن سیاسی حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے اور ممکن ہے کچھ ایسے نئے واقعات رونما ہوں اور ایسے حالات سامنے آ جائیں کہ اسرائیل امریکہ کا زیادہ محتاج ہو جائے۔ لہذا ایران کے مقابلے میں امریکہ کا اسرائیلی موقف سے دور ہو جانا اسرائیل کیلئے حقیقی طور پر ایک بڑا بحران ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان طے پانے والے حالیہ جوہری معاہدے سے متعلق اسرائیل کی جانب سے شدید ردعمل کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 
 
ایران کے پاس اس وقت جوہری ہتھیار موجود نہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کیلئے یورینیم کی افزودگی ضروری عمل ہے لیکن کافی نہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کیلئے یورینیم کی افزودگی سے کہیں زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے اور ایک انتہائی پیچیدہ ٹیکنولوجی درکار ہے جس میں کم از کم جدید الیکٹرک سسٹم اور سینسرز شامل ہیں۔ ایران اس وقت نہ تو ایسے سسٹم کا حامل ہے اور نہ ہی ان کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ایسا کہنا بھی درست نہیں کہ حالیہ جوہری سمجھوتے کی 6 ماہ کی مدت میں ایران ان صلاحیتوں کے حصول کیلئے کوشش کر سکتا ہے کیونکہ یہ انتہائی غیرمعقول سوچ ہے۔ کیونکہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے قبل جوہری تجربات کا مرحلہ انتہائی ضروری ہے۔ انڈر گراونڈ نیوکلیئر ٹسٹ کے بغیر جوہری ہتھیاروں کی تیاری محال ہے۔ اسی وجہ سے کسی بھی ملک کیلئے ممکن نہیں کہ وہ چوری چھپے جوہری ہتھیار تیار کر سکے۔ اسرائیل یا امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے ناممکن نظر آنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری ناممکن نظر آ رہی ہے۔ البتہ اس کی دوسری بڑی وجہ فوجی راستے کا انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہونا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کے پاس ایران کی متعدد جوہری تنصیبات کو ایک ہی وقت نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود نہیں۔ دوسری طرف ایران کی جوہری تنصیبات پر شدید قسم کے سیکورٹی اور دفاعی سسٹم نصب کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم نہیں کہ ایران کے کون سے جوہری تنصیبات کا کیا مقصد ہے اور وہاں کیا کام انجام پاتا ہے۔ مزید یہ کہ فوجی کاروائی کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا بھی ناممکن نظر آتا ہے کہ کون سی جوہری تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں اور کون سی تنصیبات محفوظ رہی ہیں۔ 
 
لہذا ان حقائق کی روشنی میں ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے ہوائی حملے کوئی آسان کام نہیں۔ وہ افراد جو ان حملوں کو آسان قرار دیتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی غلط معلومات کی بنیاد پر یہ دعوا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ایران بہت جلد ایٹم بم تیار کر لے گا۔ لیکن اسرائیل یا امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کاروائی نہ کرنے کی حقیقی وجہ یہی ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے بہت دور ہے۔ امریکی حکام کی نظر میں ایران کا جوہری پروگرام سب سے زیادہ خطرناک اور اہم ایشو نہیں۔ واشنگٹن ایران کے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنا چاہتا ہے لیکن جو چیز اس کی نظر میں زیادہ اہم ہے وہ خطے میں ایران کے کردار سے متعلق ایرانی حکام کے ساتھ کسی سمجھوتے تک پہنچنا ہے تاکہ اس طرح خطے میں دوسری طاقتوں جیسے سعودی عرب اور ایک حد تک خود اسرائیل کے کردار کو بیلنس کر سکے۔ امریکہ ماضی کی طرح مشرق وسطی کے سیاسی امور میں گہری دلچسپی رکھتا ہے لیکن اب وہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لہذا واشنگٹن کی کوشش ہے کہ وہ خطے کے تمام سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ مختلف پہلووں سے تعلقات استوار کرے اور اس کے تعلقات صرف اسرائیل اور سعودی عرب تک ہی محدود نہ رہیں۔ 
 
اسرائیل، 10 سال بعد:
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ دس سال بعد اسرائیل کی اسٹریٹجک پوزیشن کیا ہو گی؟ اگر ہم اسرائیل کی دس سال بعد اسٹریٹجک پوزیشن کی پیشین گوئی کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ اسرائیل کی موجودہ سیاسی پوزیشن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ مصر کا سیاسی مستقبل انتہائی مبہم ہے۔ شائد مصر میں ایک ایسی حکومت برسراقتدار آ جائے جو اسرائیل کی دشمن جانی جاتی ہو۔ شام لبنان کی مانند بدامنی کا شکار ہے لیکن اس کا سیاسی مستقبل بھی زیادہ واضح نہیں۔ ہم یقین سے نہیں کہ سکتے کہ دس سال بعد بھی اردن میں ہاشمی خاندان ہی حکمفرما ہو گا۔ مصر 1967ء میں اسرائیل کیلئے کوئی بڑا خطرہ نہ تھا لیکن 1973ء میں اچانک ہی ایک بڑی فوجی طاقت میں تبدیل ہو گیا۔ دس سال بعد بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔ اس وقت اسرائیل امریکہ کا زیادہ محتاج نہیں اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی موجودہ فوجی اور مالی امداد زیادہ تر دکھاوے کیلئے ہے۔ لیکن اسرائیل اس بات سے خوفزدہ ہے کہ امریکہ آہستہ آہستہ مشرق وسطی میں براہ راست مداخلت کی پالیسی کو ترک کر دے۔ یہ امر اسرائیل کیلئے بہت بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اسرائیل ایک دن خطے میں امریکہ کی براہ راست مداخلت کا شدید محتاج ہو۔ 
 
ایسی صورتحال ایک اور پہلو سے بھی اسرائیل کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ یہ کہ جس قدر امریکہ کے تعلقات خطے کے زیادہ ممالک سے استوار ہوں گے اسی قدر امریکہ کی نظر میں اسرائیل کی اہمیت کم سے کمتر ہوتی جائے گی۔ اگر امریکہ سعودی عرب، ترکی اور دوسرے ممالک سے اپنے تعلقات میں بہتری لاتا ہے تو اس صورت میں امریکی خارجہ پالیسیوں کا ایک حصہ اسرائیل سے متعلق ہو گا اور امریکی خارجہ سیاست پر اسرائیل کا تسلط ختم ہو جائے گا۔ 
 
آخرکار یہ کہ اسرائیل ایک چھوٹی اور کمزور طاقت ہے۔ اسرائیل کی طاقت کا راز اس کے ہمسایہ ممالک کی کمزوری میں مضمر ہے۔ اسرائیل کے ہمسایہ ممالک کی کمزوری کوئی ہمیشگی امر نہیں بلکہ امریکہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر کے اسے مضبوط پوزیشن میں لا سکتا ہے۔ اس وقت بھی خطے میں اہم اور بنیادی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اسرائیلی حکام نے امریکی رائے عامہ اور کانگریس کی جانب سے حمایت حاصل کرنے سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اگرچہ یہ حمایت اب بھی باقی ہے لیکن گذشتہ چند سالوں کے دوران اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسرائیل دو پہلو سے شکست کھا چکا ہے۔ ایک یہ کہ خطے میں امریکی اسٹریٹجی پر کنٹرول کھو چکا ہے اور دوسرا یہ کہ امریکہ کی اندرونی سیاست کی باگ ڈور بھی اس کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایران اور امریکہ میں جاری مذاکرات سے شدید متنفر نظر آتا ہے اور اس نفرت کی وجہ ایران کا جوہری پروگرام نہیں بلکہ وہ اسٹریٹجک تبدیلیاں ہیں جو امریکہ کی خارجہ سیاست میں رونما ہوئی ہیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے پر اسرائیلی حکام کی جانب سے غصے کا اظہار کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو درک کر چکے ہیں کہ امریکہ میں ان کا اثرورسوخ ماضی کی نسبت کم ہو چکا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 329414
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش