0
Saturday 14 Dec 2013 20:32

مسئلہ فلسطین، راہِ حل!

مسئلہ فلسطین، راہِ حل!
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)

یہ بالکل صحیح وقت ہے کہ جب غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اپنے ایٹمی اثاثوں کو تحفظ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے اور دنیا کی عالمی طاقتیں اس اہم مسئلے سے صرف نظر کئے ہوئے ہیں، عین اسی وقت ہونا تو یہ چاہیئے کہ دنیا کی باضمیر ریاستیں اور بالخصوص مسلم ممالک عالمی برادری پر دبائو ڈالیں اور مطالبہ کریں کہ مسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر جنیوا کانفرنس بلائی جائے اور اس کانفرنس میں فلسطین کے مسئلہ کو فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے، آخر کیوں سامراجی طاقتوں نے شام اور ایران کے مسئلے پر تو جنیوا کانفرنس بلانے میں دیر نہیں کی اور گذشتہ پینسٹھ برسوں سے صیہونی اسرائیلی مظالم کی چکی میں پسنے والے لاکھوں بےگناہ فلسطینیوں کی داد رسی نہیں کی گئی؟ آخر مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے جنیوا کانفرنس کیوں نہیں بلائی جاتی؟ یقیناً مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام میں نہیں ہے، کیونکہ ماضی میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ ہونے والے کسی بھی معاہدے پر اسرائیل کی جانب سے عمل نہیں کیا گیا تاہم ضرورت اس امر کی ہے مسئلہ فلسطین کو فلسطینیوں کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لئے عالمی طاقتیں کردار ادا کریں تا کہ فلسطین میں بسنے والے لاکھوں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق بھی میسر آ سکیں۔

ماضی کے مشاہدات میں دیکھنے میں آیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے میں طے پایا تھا کہ غاصب اسرائیلی حکومت پہلے مرحلے میں 1967ء کی سرحدوں تک واپس چلی جائے، حالانکہ یہ مسئلہ فلسطین کا درست حل نہیں تھا تاہم اسرائیل جسے ہٹ دھرمی اور ظلم و بربریت کے عنوان سے سونے کے تمغے سے نوازا جانا چاہیئے اس نے اس معاہدے کی پاسداری بھی نہ کی اور مزید فلسطینی زمینوں کو اپنے غاصبانہ تسلط میں لیتے ہوئے تاحال فلسطینیوں کی زمینوں اور گھروں پر صیہونیوں کے لئے گھروں کی تعمیرات میں مصروف عمل ہے تاہم فلسطین کے حل اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف ایک جنیوا کانفرنس کا انعقاد اس بات کی دلیل بن سکتا ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں اور انسان فلسطینی مظلومین کے ساتھ ہیں۔

عالمی سامراجی طاقتوں کے جہاں کہیں مفادات ہوتے ہیں وہاں تو جنگ سے لے کر مذاکرات اور کانفرنسوں سمیت ہر قسم کے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں لیکن یہاں سرزمین انبیاء فلسطین پر گذشتہ پینسٹھ برسوں سے خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں لیکن عالمی طاقتوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، مسئلہ فلسطین کا حل انتہائی سادہ ہے، 1948ء سے کے وقت سرزمین فلسطین پر بسنے والے تمام فلسطینیوں کو سرزمین فلسطین واپس لایا جائے اور ان تمام فلسطینیوں کے درمیان ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے جس میں فلسطینی باشندے اپنے لئے نظام حکومت کا اختیار کرتے ہوئے اس بات کا بھی فیصلہ کریں کہ آیا 1948ء سے قبل اور فلسطین پر قبضے کے دوران دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صیہونیوں کو سرزمین فلسطین پر رہنے دیا جائے یا نہیں، بس اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فلسطینی عوام یہ فیصلہ کریں کہ 1948ء سے دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صیہونی اپنے اپنے وطن کو لوٹ جائیں تو پھر صیہونیوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ سرزمین فلسطین پر غاصبانہ طریقے سے رہیں تاہم آسان ترین حل یہی ہے کہ فلسطینی جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے وہ فلسطین واپس آئیں اور اپنی سرزمینوں، کھیتوں اور گھروں کو آباد کریں جبکہ جو صہیونی دنیا کے دیگر ممالک سے لا کر بسائے گئے ہیں انہیں بھی چاہیئے کہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور اپنی زندگی گذاریں، خلاصہ یہ ہے کہ ہر کسی کو چاہیئے کہ وہ اپنے آبائی وطن لوٹ جائے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے سنجیدگی کے ساتھ جنیوا کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور اس حوالے سے مسلم ممالک کے حکمران مثبت کردار ادا کرتے ہوئے عالمی سامراجی طاقتوں کی خوشامد کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فلسطینیوں کے حقوق کا مسئلہ اٹھائیں تو وہ وقت دور نہیں جب کہ فلسطین آزاد ہوگا اور دنیا بھر میں در بدر پھرنے والے لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں میں واپس لوٹ جائیں گے جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اسرائیل جیسی غاصب ریاست کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات بے نتیجہ اور بے معنی ہیں، کیونکہ ایک ریاست کہ جس کا وجود ہی غیر قانونی ہو تو اس ریاست کے ساتھ کس طرح مذاکرات کئے جا سکتے ہیں تاہم فلسطین کے اندر کام کرنے والی ایک جماعت الفتح کو بھی چاہئیے کہ فلسطینی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے مسلم امہ کی رائے کو ترجیح دے اور غاصب اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو ترک کر دے اور مسئلہ فلسطین کے حل کو درج بالا سطور میں پیش کئے جانے والے حل کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان قتل و غارت گری پر یقین نہیں رکھتا ہے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے ہیں کہ تمام اسرائیلیوں کو کسی سمندر میں پھینک دیا جائے یا پھر انہیں قتل کر دیا جائے بلکہ ہمارا پیش کردہ حل سیدھا ہے کہ تمام فلسطینی اپنے وطن فلسطین چلے جائیں جو 1948ء میں فلسطین میں تھے اور تمام صیہونی جو فلسطین میں لا کر بسائے گئے ہیں۔ وہ بھی اپنے وطن جہاں جہاں سے لائے گئے تھے واپس چلے جائیں۔

بیس سال قبل ہونے والے اوسلو معاہدے کے بعد سے آج تک اسرائیلی طرز عمل تبدیل نہیں ہوا ہے، لہذٰا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل جو کہ ایک خطرناک ایٹمی طاقت کے طور پر مشرق وسطیٰ جیسے اہم خطے میں موجود ہے، صرف فلسطین کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ صیہونی لابی ہے جو امریکی کانگریس میں بیٹھ کر غاصب اسرائیل کے جرائم پر پردہ پوشی کرنے میں مصروف عمل ہے۔ تاہم حال ہی میں ایران کے معاملے پر جنیوا کی کامیابی اور عنقریب شام کے مسئلے کے پرامن حل کی امید کے بعد ضرورت ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر جنیوا کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور غاصب اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات عمل میں لائے جائیں تاکہ نہ صرف فلسطین اور مشرق وسطیٰ کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکے بلکہ پوری دنیا کو صیہونی غاصب حکومت کے شر اور خطرے سے محفوظ بنایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 329851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش