0
Tuesday 17 Dec 2013 13:04

دہشت گردی کا سدباب کس نے کرنا ہے؟

دہشت گردی کا سدباب کس نے کرنا ہے؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں شیعہ ذاکر علامہ ناصر عباس اتوار کی رات مسلم ٹاؤن انڈر پاس کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے تاہم ان کے ہمراہ گاڑی میں موجود ان کے ایک ساتھی اور ڈرائیور محفوظ رہے۔ لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق علامہ ناصر عباس قومی مرکز شادمان میں مجلس عزاء سے خطاب کے بعد واپس جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر دی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے ہسپتال لے جایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے۔ علامہ ناصر عباس کا تعلق ملتان سے تھا اور وہ مجالس سے خطاب کے لیے لاہور آئے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ہفتے 6 دسمبر کو لاہور ہی میں کچھ نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے سپاہ صحابہ کے رہنما مولانا شمس معاویہ بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ مولانا شمس معاویہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم کے کارکنوں نے اسلام آباد اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ اسی طرح ماہ رواں کے اوائل میں ہی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں سپاہ صحابہ کے کارکن مفتی احمد اور مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ دیدار علی جلبانی کو بھی قتل کر دیا گیا۔ گذشتہ مہینے اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں یوم عاشور کے موقع پر فرقہ وارانہ جھڑپوں میں دس سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رواں سال اگست میں ہی پنجاب کے ضلع بھکر میں فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جس کے بعد ضلع میں کشیدگی کے باعث دفعہ 144 نافذ کر کے غیراعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔

شدت پسندی کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ملک میں فرقہ واریت کا زہر پھیلانے میں مصروف ہاتھ پوری طرح مصروف عمل ہیں جبکہ سرکاری حکام اس سلسلے میں ہونے والی ہر واردات کے بعد معمول کے بیانات دینے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، ایسا نہیں کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس ضروری معلومات نہیں، ہماری اطلاع کے مطابق ہمارے ادارے جنہیں ملک میں قیام امن کے لئے شرپسند عناصر کی سرکوبی کرنے اور انہیں قانون کی گرفت میں لانے کے فرائض تفویض کئے گئے ہیں وہ شبانہ روز کی محنت شاقہ سے نہ صرف ایسی واراداتیں کرنے والے گروہوں کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں بلکہ ان کے ملکی و غیر ملکی سرپرستوں کی بھی مطلوبہ تفصیلات رکھتے ہیں جن کا ایجنڈا پاکستان میں اندرونی حالات کو خراب کر کے ہماری سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے مگر نہ جانے وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان منفی عناصر پر مضبوط ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہتے ہیں جو ہمارے وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک عرصے سے دہشت گردی کا عفریت رقص کناں ہے ہمیں اس کی چیرہ دستیوں نے نڈھال کر رکھا ہے، آئے روز ہمارے لوگ دہشت گردوں کے مظالم کا نشانہ بنتے ہیں خاص طور پر ہماری حفاظت کے ذمہ دار اداروں کے بہادر اور جاں باز اہلکار دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں، بےگناہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

اسی دہشت گردی کو مہمیز دینے کیلئے پاکستان دشمن عناصر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے لئے اپنا کام دکھاتے ہیں ہمارے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی سعی کی جاتی ہے تاکہ ہم مختلف مسالک اور عقائد کی بنا پر باہم دست و گریباں ہوں تو انہیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں آسانی ہو جائے مگر بحمدللہ ہماری قوم اور ہر مسلک کے علمائے کرام اور مذہبی و دینی رہنماؤں، قائدین نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے تشدد کے پھیلاؤ کی روک تھام میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ہر بار فرقہ پرستی کی بنیاد پر فسادات روکنے میں کامیاب رہے۔ اب بھی یہی امید اور توقع ہے کہ ہمارے علمائے کرام اور دینی رہنما مذہبی رواداری کے اسی جذبے کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں سستی نہیں کریں گے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کہاں ہے؟ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے فرض کی ادائیگی میں کیوں غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ حکومت کے کارپردازان کی اس معاملے میں غفلت شعاری ہمیں کل کلاں کتنے بڑے عذاب سے دوچار کر سکتی ہے اس کا ادراک ابھی سے کر کے آئندہ ایسے واقعات کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا؟ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں ابھی تک قومی سلامتی کی پالیسی کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں یہ پالیسی کب بنے گی؟ کب اس کا نفاذ ہو گا اور کب سماج و ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے ریاستی ادارے حرکت میں آئیں گے؟ تاحال ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی جس سے لوگ امید کریں کہ انہیں ایسا حفاظتی حصار میسر آ گیا ہے جس پر وہ اطمینان کا سانس لے سکتے ہیں۔

فی الوقت تو صوبائی و مرکزی حکومت کی ترجیحات میں فرقہ واریت کا شر پھیلانے والوں کی سرکوبی کا منصوبہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی طرح اسے بھی معمول کی شرانگیز سرگرمیوں کا حصہ سمجھ کر قبول کر کے عوام کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں حکومتوں کی یہ ناکامی قوم کے اندر انتشار پیدا کر کے ہماری ملی وحدت کو ختم کرنے والوں کے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے سازگار فضا مہیا کرنے کا موجب بنے گی، اس کا احساس کیوں نہیں کیا جاتا۔ قتل کی وارداتیں کرنے والے عام شاہراہوں پر خوں کی ندیاں بہا کر بحفاظت نکل جاتے ہیں، ناکوں پہ کھڑی پولیس اور دیگر ایجنسیاں سوائے راہگیروں کو تنگ کرنے کے کچھ نہیں کرتیں، ایسا کیوں؟ حکام سوائے مذمتی بیان جاری کرنے کے کچھ نہیں کرتے کیوں؟ ان سوالوں کے جواب کون دے گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے قوم کے نام اپنے خطاب میں بڑی درد مندی سے یہ کہا تھا کہ ہم کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے، یہی سوال آج پوری قوم بڑی دل گرفتگی سے انہی سے پوچھتی ہے کہ آخر کب تک ہم اپنے لوگوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟

معاشرے میں روز افزوں خلفشار، سراسیمگی، خوف و ہراس کے خاتمے کے لئے ریاستی اداروں کو پوری تیاری کے ساتھ شرپسندوں کی سرکوبی کے لئے ٹھوس اقدام کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی تیاریاں اور ان سے بات چیت کے لئے وقت لینے والے مذہبی منافرت پھیلانے والوں کی راہ روکنے میں تساہل سے کیوں کام لے رہے ہیں۔ قوم کو بتایا جائے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر ہماری خفیہ ایجنسیاں شرپسندوں اور ان کے ملکی و غیر ملکی سرپرستوں سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں آلۂ کار بننے والوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتیں؟ پاک فوج کے ایک سابق سینئر آفیسر کے بقول راجا بازار پنڈی کے سانحے کے پیچھے کارفرما ہاتھ اسی بیرونی ایجنسی کا تھا جسے سابقہ دور حکومت میں خلاف ضابطہ ویزے جاری کئے گئے، ملک میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ بھی اسی کی کارستانی کا شاخسانہ معلوم پڑتی ہے، اگر حکومت نے فوری طور پر اسے نہ روکا تو اس کے مہلک اثرات سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 331417
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش