0
Thursday 26 Dec 2013 10:45

غریب عوام کے امیر ترین حکمران

غریب عوام کے امیر ترین حکمران
تحریر: طاہر یاسین طاہر

’’میں پاکستان سے غربت کے خاتمے کا عزم لے کر میدان میں آیا ہوں اور آپ سے گزارش ہے کہ اس ’’جہاد‘‘ میں آپ میرا ساتھ دیں۔ ہماری پارٹی اقتدار میں آکر بے روزگاری، دہشت گردی، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ کرے گی اور ہر طرف ترقی اور خوشحالی ہوگی۔‘‘ کم و بیش پاکستان کی ساری سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتیں اسی سلوگن کے ساتھ اپنی انتخابی’’کارروائی‘‘ کا آغاز کرتی ہیں اور پھر کس طرح غربت و بیروزگاری کا خاتمہ ہوتا ہے اور کس طرح خوشحالی، (مگر کہاں) آتی ہے، ا س کا کچھ کچھ اندازہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اس فہرست سے ہو جاتا ہے، جس میں پارلیمان کے نمائندوں کے اثاثوں کی تفصیل موجود ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے اثاثوں کی کل مالیت ایک ارب بیاسی کروڑ چالیس لاکھ چوالیس ہزار دو سو تینتیس روپے ظاہر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اثاثوں کی کل مالیت دو کروڑ چھیانونے لاکھ پچھہتر ہزار دو سو اکانوے روپے بتائی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے بدھ کو ارکانِ پالیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی جاری ہونے والی فہرست کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے اثاثوں میں 1667 کنال زرعی زمین، مری میں دس کروڑ مالیت کی کوٹھی، شیئرز، گاڑیوں کی مالیت شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس نقد رقم 22 لاکھ 57 ہزار 820 روپے ہے جبکہ ان کی اہلیہ کے پاس 67 ہزار 555 روپے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے اثاثوں میں لاہور کے نزدیک زرعی اراضی کا بھی ذکر ہے، لیکن اس میں لاہور کے نزدیک جاتی عمرہ میں شریف خاندان کی رہائش گاہوں کا ذکر نہیں ہے۔

’’تبدیلی کے نشان‘‘ عمران خان کے اثاثوں کی فہرست میں اسلام آباد میں واقع 300 کنال 5 مرلہ کے مکان کو تحفہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ زمان پارک لاہور میں 7 کنال 8 مرلے کا مکان خاندانی ہے اور اسی طرح سے میانوالی میں 10 مرلے کا مکان بھی خاندانی ہے۔ عمران خان کی جانب سے ظاہر کئے جانے والے اثاثوں کے مطابق شیخوپورہ میں 80 کنال اور بھکر میں 438 کنال اور 8 ایکٹر خاندانی اراضی، خانیوال میں 530 کنال 15 مرلے زرعی اراضی تحفہ ظاہر کی گئی ہے۔ عمران حان کے پاس اسلام آباد میں سفارت خانوں کے لیے مختص علاقے جی 5 میں 1585 مربع فٹ کا ایک فلیٹ ہے جس کی مالیت 11 لاکھ 75 ہزار ظاہر کی گئی ہے۔ عمران خان کے پاس 50 لاکھ مالیت کی ایک پراڈو گاڑی اور نقد رقم ایک کروڑ 36 لاکھ 18 ہزار 526 روپے ہے جبکہ دو بینکوں میں 3 لاکھ 53 ہزار 235 روپے اور ایک دوسری بینک میں 28 ہزار 530 روپے موجود ہیں۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کے اثاثوں کی کل مالیت ایک کروڑ 75 لاکھ 3 ہزار 696 روپے ہے، جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے 682 کنال زرعی زمین، پانچ ایک ایک ایک کنال کے پلاٹس، پولٹری شیڈز سمیت دیگر املاک کو آبائی ظاہر کرتے ہوئے نقد رقم 29 لاکھ 48 ہزار روپے جبکہ دو بینکوں میں با لترتیب دو لاکھ 45 ہزار 687 روپے اور 10 لاکھ 49 ہزار 934 روپے ظاہر کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے 24 لاکھ روپے کی رقم ایک کمپنی کو ادا کرنی ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیراعلٰی اور وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی جانب سے ظاہر کئے جانے والے اثاثوں کے مطابق ان کے لندن میں اثاثوں کی مالیت 13 کروڑ 82 لاکھ 87 ہزار 102 روپے ہے۔ پاکستان میں ظاہر کیے جانے والے اثاثوں میں مری میں ایک کنال 9 مرلے کا مکان، مری میں ہی ایک مکان میں چوتھا حصہ شامل ہے اور اس کی کل مالیت ایک کروڑ 66 لاکھ بنتی ہے۔

زرعی اراضی میں 14 کنال 5 مرلہ میں ایک تہائی حصہ، 17 کنال 11 مرلے مکمل اپنی اراضی ہے اور اس کی مالیت 36 لاکھ بنتی ہے، جبکہ لاہور شہر میں 674 کنال اراضی والدہ کی جانب سے گفٹ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف فیکٹریوں میں شیئرز کی مالیت دو کروڑ سے زائد ہے۔ بینکوں میں 5 کروڑ 92 لاکھ 33 ہزار 934 ہے۔ ایک ٹویوٹا لینڈ کروزر گاڑی ہے جس کو تحفہ بتایا گیا ہے۔ اس طرح کل اثاثے 25 کروڑ 93 لاکھ 97 ہزار 81 روپے ہیں، جن میں سے 11 کروڑ 71 لاکھ دو ہزار 204 روپے ادا کرنے ہیں۔ شہباز شریف نے اپنی اہلیہ نصرت شہباز کے اثاثوں کی فہرست بھی شامل کی ہے، جس کی مالیت 27 کروڑ 34 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ شہباز شریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کے اثاثوں کی مالیت 98 لاکھ سے زیادہ ہے۔

نہیں معلوم اس قدر ’’غریب لوگ‘‘ کیسے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنا سب کچھ قربان کرکے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی حالتِ زار بہتر بنا لیں گے۔ پاکستانی عوام دن بدن غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کی چکی کے پاٹوں میں پستے چلے جا رہے ہیں جبکہ حکمران طبقہ لمحہ بہ لمحہ امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ یقیناً اس میں عوام کی اس اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی کا بھی قصور ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے دکھوں کے علاج کے لیے ان ہی ’’مسیحاؤں‘‘ کا انتخاب کرتے ہیں جو، جیسے جیسے ’’دوا‘‘ کرتے ہیں عوام کا مرض اور ان ’’مسیحاؤں‘‘ کے اثاثے اپنی اپنی رفتار سے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ایک ایک سال میں ان کے اثاثے چھلانگیں لگاتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔
 
یہاں اس امر کو فراموش مت کیا جائے کہ وہ پارلیمینٹیرین جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے پاس اپنی گاڑی، ذاتی گھر اور بینک بیلنس نہیں وہ منافقت کی اعلٰی ترین مثال ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں یونین کونسل کی سطح پر بھی لڑا جانے والا انتخاب لاکھوں کی گیم ہوتی ہے۔ ایک سال میں خواجہ سعد رفیق کے اثاثے گیارہ کروڑ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے 53 کروڑ اور شہباز شریف کے 28 کروڑ بڑھے ہیں، جبکہ مولانا فضل الرحمن کے اثاثے 55 لاکھ سے بڑھ کر 73 لاکھ تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ وہ چیدہ مثالیں ہیں جن کے بعد یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ پاکستان میں ’’معاشی ترقی‘‘ کی رفتار کس قدر تیز ہے۔ اے کاش اسی رفتار سے عام آدمی کی زندگی میں بھی سکون آور لمحات آئیں۔ دعویداری سنتے سنتے کان پک چکے ہیں، مگر ہر تبدیلی گھوم پھر کر ان ہی شخصیات اور ان کے عزیز و اقارب کے گرد گھومتی ہے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا ظاہر کیے گئے اثاثے اور ان میں ہر سال پائی جانے والی’’برکت‘‘ جو ظاہر کی گئی ہے وہ واقعی درست ہے یا اصل اثاثے اس سے کہیں زیادہ ہیں؟ نہ تو سوال پیچیدہ ہے اور نہ ہی اس کا جواب مشکل۔ جو ظاہر ہے’’باطن‘‘ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دولت اور دنیا کی ہوس میں گرفتار کوئی بھی شخص، بڑا اور انقلابی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ مسئلہ دراصل اس سامراجی نظام کا ہے، کیپٹل ازم کا فلسفہ اقتصادیات ہی یہ ہے کہ امیر امیر تر اور غریب کو بس اتنا کہ وہ بمشکل جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔ کیا عوام کھوکھلے نعروں کے ایجاد کار سیاستدانوں کے ہاتھوں ہمیشہ کی طرح کھلونا ہی بنتے رہیں گے یا عوام خود بھی آپ اپنی حالت کے بدلنے کے لیے کوئی عملی اقدام اٹھانا چاہیں گے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اب پاکستانی عوام کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا، صالح قیادت کی جستجو اور پھر اس کا انتخاب۔ یا پھر ان ہی لمحہ بہ لمحہ امیر سے امیر تر ہوتے خاندانی رئیسوں کے حق میں سڑکوں پر نعرے بازی۔
خبر کا کوڈ : 334406
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش