1
0
Monday 6 Jan 2014 22:24

الطاف حسین کا بیان، حالات کی نزاکت کو بھانپا جائے

الطاف حسین کا بیان، حالات کی نزاکت کو بھانپا جائے
 تحریر: تصور حسین شہزاد

الطاف حسین نے ایک بار پھر سندھ کی شہری اور دیہاتی تقسیم پر اظہار خیال کرتے ہوئے اب کی بار ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی والے سندھ بھر کے عوام کو یکساں نظر سے نہیں دیکھتے تو پھر بہتر ہو گا کہ سندھ کو سندھ ہی رہنے دیں مگر اسے سندھی عوام کیلئے سندھ ون اور غیر سندھیوں کیلئے سندھ ٹو کے نام پر دو حصے کر کے دیکھ لیں کہ کون سا علاقہ زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے سلسلہ میں نئی حلقہ بندیوں میں شہری و دیہی تقسیم سے پیدا ہونے والے اس تنازعے پر ایم کیو ایم کے شدید ردعمل کے اظہار کے ضمن میں الطاف حسین کی شعلہ بیانی ان دنوں عروج پر ہے اور وہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے اسے یاد دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سندھ دیہی و شہری کی تقسیم کی بنیاد پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے 71ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت رکھی گئی تھی جب بھٹو کے ”ٹیلنٹڈ کزن“ ممتاز علی بھٹو وزیراعلیٰ سندھ بنائے گئے تھے اسی دور میں سندھ کو دیہی و شہری حصوں میں تقسیم کر کے آبادی کے تناسب سے سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا تھا جو آج تک نافذ چلا آ رہا ہے جس کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں شہری آبادی کا کوٹہ چالیس اور دیہی آبادی کا ساٹھ فیصد ہے۔ اس مسئلہ پر اس وقت بھی سندھ بھر میں لسانی فسادات کی آگ بھڑکی تھی اور آج ایک بار پھر سندھ میں اسی آگ کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایم کیو ایم سمیت پیپلز پارٹی کی حریف سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی من پسند حلقہ بندیاں کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ سندھ حکومت کے ترجمان اور پیپلز پارٹی کے لیڈر اس الزام کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو پرویز مشرف دور میں فوجی جرنیل کی سرپرستی میں ایم کیو ایم کی مرضی سے ہونے والی حلقہ بندیوں میں روا رکھی جانے والی ناانصافی دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی درخواست پر نئی حلقہ بندیوں کو عدالت عالیہ سندھ کالعدم قرار دیکر ازسرنو حلقہ بندیوں کے احکامات جاری کر چکی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حلقہ بندیوں کے تنازع کے سبب پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کو ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات کے التوا کا بہانہ ہاتھ آ گیا ہے۔ مگر ایم کیو ایم کا مسئلہ جمہوریت کا درد نہیں کچھ اور ہے، جو ایم کیو ایم کیلئے باعث آزار ہے، جو پہلی بار سیاسی طور پر وفاقی و صوبائی سطح پر ایوان اقتدار سے دور ہے اور اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو روایتی انداز سے بلیک میل کر کے اپنا الو سیدھا کر سکے حالانکہ اس وقت بھی سندھ کے گورنر کے عہدے پر وہی شخص متمکن ہے جسے مشرف نے اس اہم منصب پر فائز کیا تھا۔ سندھ حکومت کا یہ آئینی سربراہ اپنی جماعت کیلئے آج بھی مراعات سمیٹنے کی پوزیشن میں ہے مگر ایم کیو ایم کے مبینہ اندرونی اختلافات کے باعث فی الوقت اپنی کاوشیں ترک کئے بیٹھا ہے۔

شنید ہے کہ الطاف حسین اس وقت بہت شدید ذہنی دباﺅ کا شکار ہیں اور ان کے تازہ ترین بیانات ان کی نفسیاتی کیفیت کے عکاس ہیں، اسی لئے ان کے فرمودات میں تضاد بیانی نمایاں ہے۔ ایک طرف وہ سندھ دھرتی کو ماں کا درجہ دیتے ہیں اور اسی سانس میں اس پر ایک اور دو نمبر کی تختی بھی آویزاں کرنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ان کی اس تجویز کو سختی سے رد کرتے ہوئے اسے ان کی دو نمبری سے تعبیر کر رہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) حکومت کے وزیر احسن اقبال سندھ میں لسانی بنیادوں پر سر اٹھانے والے قضیئے کو پیپلز پارٹی کی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پنجاب تقسیم کرنے کے منصوبے کی شامت اعمال قرار دیتے ہوئے لب کشا ہیں کہ سندھ کی تقسیم کا سر اٹھاتا مسئلہ اس کی اپنی غلطیوں کا شاخسانہ ہے۔ سابقہ دور میں صدر آصف علی زرداری نے سرائیکی زبان کے حوالے سے جنوبی پنجاب کو سرائیکی صوبہ بنانے کی کوشش کی جسے (ن) لیگ کی صوبائی حکومت نے سخت مزاحمت سے ناکام بنا دیا تھا، تاہم اٹھارہویں ترمیم عددی اکثریت کی بناء پر منظور ہوتی دیکھ کر خود بھی صوبہ پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے صوبائی اسمبلی میں قرار داد منظور کر لی تھی جس کی روشنی میں اٹھارہویں ترمیم میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ یہ الگ بات کہ اس پر عملدرآمد کی نوبت آنے سے پہلے ہی مئی 2013ء کے انتخابات ہوئے جن میں (ن) لیگ کو جنوبی پنجاب سے بھی اکثریت حاصل ہو گئی اور تاحال جنوبی پنجاب کا صوبہ وجود میں آنے کا منتظر ہے۔

سندھ میں ایم کیو ایم اقتدار میں اپنا حصہ بٹورنے کے جتن کرنے میں مصروف ہے مگر وہ وفاقی و صوبائی اسمبلیوں میں اب اس تعداد میں نشستیں نہیں رکھتی جس کے بل بوتے پر وہ اپنے لئے کوئی آبرو مندانہ راستہ تلاش کر سکے اس پر مستزاد اس کے ووٹ بینک میں ایک نئی پارٹی نقب لگانے میں کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے یہی چیز الطاف حسین کو مزید پریشان کرنے کا سبب ہے اور وہ انتہا پسندی پر اتر کر سندھ ون اور ٹو کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ ان کی یہ غلط روش پاکستان کی سالمیت و یکجہتی کیخلاف سرگرم قوتوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی۔ نئے صوبوں کے قیام کا مسئلہ سابقہ جمہوری دور میں بھی بڑی شدت کےساتھ ابھرا تھا، جنوبی پنجاب کے ساتھ سندھ کی تقسیم، کے پی کے میں صوبہ ہزارہ اور بلوچستان کو بلوچی و پشتونی بیلٹوں کے حساب سے صوبوں میں تقسیم کرنے کی آوازیں بلند ہوئی تھیں۔ علیحدگی پسند تو جداگانہ آزاد ریاستوں کے قیام کیلئے بھی نعرہ زن ہوئے اور ابھی تک ان نعروں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

دریں حالات الطاف حسین کا سندھ پر ایک اور دو نمبر لگانا پاکستان کی وحدت و یگانگت کے درپے قوتوں کو ایک بار پھر صف آرا ہونے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ سندھ ایک اور دو نمبر کی آوازوں میں کسی طرف سے پاکستان ایک، دو، تین، چار، پانچ کی آوازیں ابھرنے لگیں اور سندھ و بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں متحرک منفی قوتیں ان صداﺅں کو عالمی میڈیا کے دوش پر دنیا بھر میں پھیلا کر پاکستان کا وجود مٹانے کے اپنے دیرینہ مذموم مقاصد کی تکمیل کا سنہری موقع گردانتے ہوئے لپکیں۔ اس سے پہلے کہ یہ نوبت آئے ہمارے ارباب بست و کشاد اور پالیسی سازوں کو وقت کی نزاکت بھانپتے ہوئے شوریدگی پھیلانے والے عناصر کا سختی سے قلع قمع کرنے کا عملی اقدام کر لینا چاہیئے کہ ریاست کا وجود برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کیلئے سخت ترین اقدامات ناگزیر ہوتے جا رہے ہیں تو ملک دشمنوں کو ایک دو تین کہہ کر نو دو گیارہ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہماری ذرا سی غفلت ہمیں خطرات سے دوچار کر سکتی ہے!
خبر کا کوڈ : 338143
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
سندھ الطاف کے باپ کی ملکیت نہں ہے۔
ہماری پیشکش