QR CodeQR Code

کوفہء گلگت بلتستان کا مسلم (ع)!

7 Jan 2014 21:33

اسلام ٹائمز: میں نے اجتماع میں چند ایسے افراد کو بھی دیکھا، جنہوں نے دوران خطاب ہی اٹھ کر آغا ضیاءالدین رضوی سے اظہار عقیدت کرتے ہوئے اپنا چہرہ پیٹتے، گریباں پھاڑتے اور روتے ہوئے تجدید عہد کیا کہ آپ کے فرمان پر جان بھی قربان ہے۔ آغا صاحب مختصر دورہ کے بعد گلگت واپس چلے گئے۔ اس دورہ میں جو کچھ دیکھا گیا بتایا نہیں جاسکتا، البتہ ان کی روح سے معذرت کے ساتھ اتنا ضرور کہہ جاونگا کہ آغا صاحب آپ کی تحریک میں مایوسی کا عمل دخل اسکردو دورہ کے بعد سے ہوا۔


تحریر: شہزاد انصاری

جب شہید علامہ عارف حسین الحسینی اسکردو کے دورے پر تشریف لائے تھے یہاں کے علماء، عوام اور جذبہ فداکاری و ایثار سے سرشار جوانوں سے ملاقات کے بعد آپ متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔ آپ نے یہاں کے مذہبی ماحول کو دیکھ کر بلتستان کو بلاد اہلبیت (ع) قرار دیا تھا۔ میں نے شہید قائد کے اسکردو آمد کی تصویریں دیکھیں، ہر جگہ اجتماع، عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔۔۔۔۔۔۔ میرے والد محترم کا کہنا ہے کہ شاید بلتستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہو جس میں وہ بچے اور بوڑھے جو چلنے کے قابل تھے گھروں سے نکل آئے تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ بلتستان میں بے دین جماعتوں نے رخ کرنا شروع کر دیا۔ کئی مغربی این جی اوز نے ترقی کے نام پر ڈیرے ڈال دیئے، ثقافتی حملے بھی جاری رہے۔ صاحبان ممبر و محراب نے ان تمام جدتوں اور خرافات سے مقابلہ کرنے اور متبادل پیدا کرنے کی بجائے یا تو خاموشی اختیار کی یا ان کی بھرپور مذمت پر اکتفا کرتے رہے۔ ملت کی طرف سے جوانوں اور عوام کی فکری تربیت کا کسی قسم کا مناسب اہتمام نہ ہوسکا۔ اگر کسی نے دو جملے ملی کمزریوں پر تحریر کئے یا اپنی تقریر میں اشارہ بھی کیا تو انہیں فقیہ شہر کی جانب سے مفسد اور دین دشمن قرار دیا جاتا رہا اور جو سب ٹھیک کے نعرے لگانیوالے تھے انہیں ہی اس وقت سے لیکر آج تلک دین کے محافظ اور نگہبان سمجھا گیا۔

علامہ عارف الحسینی کا فقیدالمثال استقبال ابھی لوگ بھولے نہیں تھے کہ سرزمین گلگت بلتستان میں ایک اور فرزند زہرا (س) نے ایک تحریک کا آغاز کیا۔ علامہ سید ضیاءالدین رضوی نے گلگت بلتستان میں نصاب تعلیم کی تبدیلی کا بیڑا اٹھایا، جسے اپنوں اور دشمنوں نے ملکر نہ صرف ناکام ہی نہیں کیا بلکہ اس کا رخ ہی موڑ دیا۔ نصاب کے حوالے سے مطالبہ یہ تھا کہ گلگت بلتستان میں نصاب سے غیر اسلامی مواد کو حذف کرنے کے علاوہ ایک ایسا نصاب تعلیم مرتب کیا جائے جو تمام مکاتب فکر کے لیے قابل قبول ہو۔ یوں تو یہ مطالبہ قابل عمل اور جائز تھا، لیکن دشمن نے اسے کچھ اور ہی رنگ دے کر پیش کیا۔ آغا ضیاءالدین شہید نے گلگت میں اتمام حجت کے بعد بلاد اہلبیت (ع)، علماء کی سرزمین مکتب تشیع کی سرزمین بلتستان کی طرف رخ کیا۔ ان کی بلتستان آمد کی خبر گرم ہوتے ہی طرح طرح کی مشنریاں حرکت میں آگئیں۔ مختلف سطح پر مختلف میٹنگیں ہوئیں، ان کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں ہوئیں۔ انتظامیہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ آپ کا بلتستان میں دورہ ہو۔ انتظامیہ نے ہر سطح پر اپنے مشکل کشاووں سے مدد چاہی۔ ان حالات کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ بلتستان میں آغا ضیاءالدین نہیں بلکہ معذرت کے ساتھ کوفہ میں مسلم (ع) آرہے ہیں۔ ہر طرف سرگوشیاں، مخبری، خفیہ میٹنگیں، ملاقاتیں، ایک دوسرے کو مشکوک انداز سے دیکھنا، عجیب تاریخی موڑ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ واقعہ کبھی نہیں بھول سکتا جب اسکردو نماز جمعہ کے خطبے میں ان کی آمد سے ایک روز قبل گلگت بلتستان کے عوام کو خوش خبری دی گئی کہ نصاب کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ خطبے میں اس اعلان کا مقصد کیا تھا؟ میں تبصرہ نہیں کرونگا۔

ایک شہید عارف الحسینی کا استقبال تھا اور اب شہید ضیاءالدین کا استقبال ہونا تھا۔ مقررہ وقت سے پہلے یہ خبر بھی چلی کی آغا کا دورہ منسوخ ہوگیا ہے، لیکن اس وقت آئی ایس او کے جوانوں نے گلگت رابطہ کرکے عوام کو آگاہ کر دیا کہ آغا کا دورہ حتمی ہے۔ اسی روز میں بھی دیگر احباب کے ساتھ انکے استقبال کے لیے اسکردو کے گیٹ وے روندو پہنچا۔ روندو کے غیور عوام کی بہت بڑی تعداد روندو بازار میں موجود تھی جبکہ ایک بڑی تعداد گلگت کی طرف رخ کرچکی تھی۔ ہم وہیں انتظار کرتے رہے۔ جب آغا ضیاءالدین روندو پہنچے تو انہوں نے عوام سے مختصر خطاب کیا اور عوام کا شکریہ ادا کیا، پھر اسکردو کی طرف سینکڑوں گاڑیوں کے کارواں اور پرجوش نعروں کی گونج میں آگے بڑھ گئے۔ رستے بھر میں تمام آبادیوں سے لوگ سڑکوں پر جمع ہو کر ہاتھ ہلا ہلا کر انہیں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ شاید مجھے یہ حقیقت بیان نہیں کرنا چاہیے، لیکن کب تک اسے ضبط تحریر میں نہ لاوں؟ جسوقت ریلی روندو باغیچہ پہنچی تھی اور اسکردو کے لیے چند ہی کلومیڑ سفر باقی تھا کہ اسکردو کی چند مذہبی شخصیات نے آغا ضیاءالدین شہید کو گاڑی سے اتار کر گلے سے لگایا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ شخصیات یہاں تک آسکیں گی، لیکن میری حیرت اور تخمینہ درست ہی ثابت ہوا، جب انہیں گلے سے لگانے کے بعد وفد نے آغا سے دست بستہ گزارش کی کہ آپ اسکردو تشریف نہ لائیں، یہاں کا امن خراب ہوگا، اور آپکی آمد سے حالات خراب ہوسکتے ہیں، لیکن نحیف اور کمزوز ضیاءالدین نے دوٹوک جواب دیا کہ میں عوام سے ملنے آیا ہوں، کسی کی کرسی چھینے نہیں۔ میں عوام سے مل کر ہی واپس جاوں گا، لہذا آغا آگے بڑھ گئے۔ اسی ریلی میں ایک شخص کو نمایاں دیکھا گیا جو کبھی شہید ضیاءالدین کے آگے اور کبھی پیچھے دیوانہ وار گھوم رہا تھا۔ گویا آغا صاحب کی باگ ڈور ہی اس کے ہاتھ میں تھی۔ عوام ان کی مجاہدانہ صلاحیتوں کے معترف تھے۔ آغا ضیاءالدین کے ساتھ دوستی اور مذہبی اجتماعات و تقاریر کے بعد الیکشن میں حصہ لیا اور اب اسمبلی کے کوریڈور پر چیخ چیخ کر کرپشن کی حمایت میں تقریریں کر رہے ہیں۔

جب آغا ضیاءالدین اسکردو پہنچ گئے تو انہیں کسی جماعت اور ادارہ نے ٹھہرنے کے لیے جگہ تک نہیں دی۔ واحد آئی ایس او کے جوانوں کو انکے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھا گیا۔ چند ایک مقامات پر آغا ضیاءالدین نے دورے کئے اور خطاب بھی کیا۔ دوسرے روز انکا عظیم الشان اجتماع سے خطاب یادگار شہداء اسکردو پہ ہوا۔ جب انہوں نے خطاب شروع کیا تو میں نے اجتماع میں چند ایسے افراد کو بھی دیکھا جنہوں نے دوران خطاب ہی اٹھ کر آغا ضیاءالدین رضوی سے اظہار عقیدت کرتے ہوئے اپنا چہرہ پیٹتے، گریباں پھاڑتے اور روتے ہوئے تجدید عہد کیا کہ آپ کے فرمان پر جان بھی قربان ہے۔ آغا صاحب مختصر دورہ کے بعد گلگت واپس چلے گئے۔ اس دورہ میں جو کچھ دیکھا گیا بتایا نہیں جاسکتا البتہ اتنا ضرور ان کی روح سے معذرت کے ساتھ کہہ جاونگا کہ آغا صاحب آپ کی تحریک میں مایوسی کا دخل اسکردو سے دورہ کے بعد سے ہوا۔
 
بلاد اہلبیت(ع) سے آپ مایوس لوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن معذرت آغا جان! اسکردو دورے کے دوران بلتستان کے جوانوں  اور عوام کی اکثریت تو طرح طرح کے پروپیگنڈے کے باوجود آپکے ہمراہ تھے، صنف عوام میں سے کسی نے آپ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ جس صنف نے آپ کو تنہا کر دیا اسے آپ خود بہتر جاتے ہیں۔ خدا شاہد ہے کہ آپ کے پاکیزہ خون سے گلگت بلتستان کے عوام کا دامن پاک و صاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مختصر یہ کہ اسکردو دورہ کے بعد شہید ضیاءالدین کی تحریک کمزور پڑگئی، دشمن  کے حوصلے بلند ہوگئے، آخر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا جب نحیف، پرانے لباس اور عمامہ و قبا میں ملبوس ایک سید زادے کے خون میں لت پت گولیوں سے چھلنی جسم کو گلگت کی معروف سڑک سے اٹھایا گیا۔


خبر کا کوڈ: 338257

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/338257/کوفہء-گلگت-بلتستان-کا-مسلم-ع

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org