3
0
Thursday 9 Jan 2014 20:30

شہید ضیاءالدین اور ہمارا نظام تعلیم

شہید ضیاءالدین اور ہمارا نظام تعلیم
تحریر: علی رضا صالحی

تعلیم سماج کے ڈھانچے کی روح ہے، اس کے بغیر سماج ایک بے روح لاش بن کر رہ جاتا ہے، اور ہاں نظام تعلیم کے اندر اعلٰی انسانی و اسلامی اقدار و مقاصد کا ہونا بھی ضروری ہے، بصورت دیگر بامقصد اور روح پرور نظام تعلیم کے بغیر سماج گلیوں میں ننگ دھڑنگ پھرنے والے دیوانوں سے بھی پست حیثیت اختیار کر لیتا ہے، جس کا ایک ایک جلوہ انسانیت کا سر شرم سے بار بار جھکا دیتا ہے۔ آج اکثر انسانی سماجوں کی حالت ان دیوانوں سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ بعض معاشرے تو جنگل کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں، جہاں انسان نما بھیڑیئے اور گدھ اس سماج کی کمزور مخلوقات کو مردار کی طرح نوچنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی یہ پوچھے کہ انسان کے چہرے سے انسانیت کا نور اور حُسن چھین کر اس کو کس نے درندوں کی خصلتوں کی کھال پہنائی ہے؟ تو اس سوال کے ہزاروں لاکھوں جوابات اور دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بے دین نظام تعلیم، بے روح نظام تعلیم، وہ نظام تعلیم جو نام کی حد تک تو اسلامی ہے مگر اسلامی نظام تعلیم کی مہک سے بھی محروم ہے۔

وہ نظام تعلیم جس نے دین اور اسلام کو صرف بیس صفحات کے اندر ہزاروں مصلحتوں کی بیڑیاں پہنا کر قید کر لیا ہے۔ وہ نظام تعلیم جو اسلامیات کی کتاب پڑھانے والے استاد کو دوسرے مضامین کے اساتذہ کے برابر مقام دینے سے بھی گریزاں ہے۔ وہ نظام تعلیم جو شکم پرستی کے بت خانے کا طواف تو بہت کرتا ہے مگر روحانیت، دینی اقدار اور شعائر اسلام سے دور بھاگ کر مغربی تہذیب کی باہوں میں پناہ لینے کے لیے بے تاب ہے۔ وہ نظام تعلیم جو ہر ڈگری یافتہ کی توند تو بڑھاتا ہے، مگر نئی نسل کو شعب ابو طالبؑ میں محصور افراد کی فقر سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس نظام تعلیم کی خامی ہی یہ ہے کہ یہ ہنر تو سکھاتا ہے مگر روح انسانی کو جلا نہیں بخشتا۔ یہ ڈگریاں تو دیتا ہے مگر معیار انسانیت عطا نہیں کرتا۔ یہ معلومات تو دیتا ہے مگر اسلامی اقدار سکھانے سے قاصر ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کا کام قوموں، قبیلوں، فرقوں اور گروہوں کو امت کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کا فریضہ آدمی کو انسان بنانا اور بت پرست کو خدا پرست بنانا ہے۔ مگر موجودہ نظام تعلیم خدا پرست کا ہاتھ پکڑ کر علاقہ پرستی، پارٹی پرستی، تنظیم پرستی، شخصیت پرستی اور جمہوریت پرستی کے لق و دق صحرا میں سرگرداں چھوڑ آتا ہے۔ بھلا امت کا کام اطاعت خدا اور سول ؐ کے علاوہ کچھ اور ہے۔؟ کیا تشیع کے دامن میں نظام ولایت کے علاوہ کوئی اور متبادل نظام حیات ہے۔؟
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں


مگر دور جدید کے نظام تعلیم نے تعلیم کے نام پر تنویم کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ تنویم یعنی سُلانا، آج اسی تعلیم کے ذریعے جو قوموں کے خاموش سمندر طوفان برپا کرتا ہے، جس کی کرنوں سے روح کندن بن جاتی ہے، اسی کے ذریعے سماج کے شعور اور انسانیت کی روح کو سُلا دیا گیا ہے۔ سماج کے غالب حصوں میں صرف شکم پرستی، دولت پرستی اور ہوس پرستی کی بدروحیں بھٹکتی پھر رہی ہیں۔ یہ نظام تعلیم زمانہ طالب علمی سے ہی بچے کے صاف و شفاف ذہن کو نوکری و چاکری اور حصول زر کے فکر کی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے، جن میں الجھ کر یہ غریب زندگی بھر اپنی شخصیت اور ہستی کو اسی راہ پر گھسیٹتا ہے۔ جس کو دیکھو دولت کے پیچھے یا تو مجنون بنا ہوا ہے یا فرہاد۔ آج اس نظام تعلیم کے پروردہ سرمایہ داروں کی ہوس زر اندوزی دیکھ کر خود قارون انگشت بدندان ہے۔ جی ہاں! اسی بے روح نظام تعلیم کی کوکھ میں پروان چڑھنے والے قانون و انصاف سے نابلد بیوروکریٹس، عدالت سے ناآشنا وکیل اور ججز، غریب اور مریض کی کھال نوچنے والا ڈاکٹر، بے ایمانی کی دولت سے مالامال تاجر، مجرم، ملزم اور بے گناہ کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے بندوق کے بٹ سے کوٹنے والا اور گولیوں سے بھوننے والا افسر، چند کوڑیوں کے عوض قوم کی عزت کا سودا کرنے والا سیاستدان، قارون صفت سرمایہ دار، فرعون مزاج ثروتمند اور نمرود منش حکمران اور۔۔۔۔۔۔۔نے آج غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے تو دوسری طرف مفلس و بے سہارا لوگوں کا حق حیات بھی غصب کر لیا ہے۔ (البتہ سماج کی خدمت کرنے والے افراد اسلامی تربیت کی آغوش کے پروردہ ہیں)۔

واقعاً نظام تنویم اپنا اثر دکھا چکا ہے۔ سماج کے دل، دماغ، کان، آنکھ اور زبانیں گھوڑے بیچ کر سوچکے ہیں۔ اگر سماج کے اعضائے رئیسہ جاگ رہے ہوتے اور چشم سماج اگر بینا ہوتی تو اسلامی اقدار کے لہولہاں پیکر دیکھ کر تڑپ اٹھتا، اگر یہ سماج گوش شنوا رکھتا تو بے کسوں کی فریاد و فغاں سے نہ سہی تو کم از کم غیروں کے طعنوں اور قہقہوں سے تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا۔ اگر زبانیں زور آوروں کے دبائو کی زنجیروں سے آزاد ہوتیں تو گلی سڑی ہڈیوں والے یزید لعین پر لعن طعن کی سنگباری کے ساتھ ساتھ دور حاضر کے نائبین نمرود، فرعون، قارون اور یزیدوں پر بھی برس پڑتے۔ آج ٹھیک ایک عشرہ گزرنے کے بعد دل بڑی شدت کے ساتھ چاہتا ہے کہ اس سید بزرگوار سید ضیاءالدین رضوی شہید کی مرقد کو سینے سے لگا کر چیخ چیخ کر، بلک بلک کر عرض کریں، اے آتش درد ملت میں بے قرار، شہادت کو سینے سے لگانے والے سید بزرگوار! جس وقت آپ ملت کی نئی نسل کی فکری و نظریاتی تربیت کے محاذ پر علم مقاومت بلند کرکے، کفن پہنے در در پر استغاثہ کی دستک دے رہے تھے، اس وقت کوئی دروازہ کھولنے والا اور لبیک کہنے والا نہ نکلا، تو آج ذرا ملت کی تعلیمی و فکری حالت دیکھیے! ذرا دیکھیے کس طرح اس سماج کے اندر مغربی تہذیب کا منحوس زہریلا اژدہا پروان چڑھ رہا ہے۔ کس سرعت کے ساتھ اس ارض مقدس پر فحاشیت کی سورنی پل رہی ہے اور کس تیزی کے ساتھ معصومانہ نگاہوں والے آہوئے حرم دور جدید کی غیر اسلامی تہذیب کے درندہ، خونخوار، منہ سے رال ٹپکتے بھیڑیئے کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

اگر ایک لمحہ کے لیے ہم ذاتی خیالات، گروہی تصورات، سیاسی وابستگیوں، علاقائی رسومات، رسم و رواج کے بندھنوں، تکلفات کی زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کرکے خالص اسلامی، الٰہی و انبیائی نقطہ نگاہ سے سوچیں تو اس نظام سے چھٹکارا پاکر متبادل خالص اسلامی نظام تعلیم وضع کرنا امت محمدی کیلئے دور حاضر کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام تعلیم جس کی بدولت ہمارے طلباء سائنسی علوم و فنون سیکھ سکیں، تحقیقات، ایجادات و انکشافات کی نئی دنیائیں کشف کرسکیں، تو دوسری طرف ہمارا جوان عشق محمدی (ص)، شجاعت حیدری (ع)، بصیرت حسنی (ع) اور استقامت حسینی (ع) کا مظہر ہو۔
خبر کا کوڈ : 339079
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
nice
Pakistan
وہ نظام تعلیم جس نے دین اور اسلام کو صرف بیس صفحات کے اندر ہزاروں مصلحتوں کی بیڑیاں پہنا کر قید کر لیا ہے۔ وہ نظام تعلیم جو اسلامیات کی کتاب پڑھانے والے استاد کو دوسرے مضامین کے اساتذہ کے برابر مقام دینے سے بھی گریزاں ہے۔ وہ نظام تعلیم جو شکم پرستی کے بت خانے کا طواف تو بہت کرتا ہے مگر روحانیت، دینی اقدار اور شعائر اسلام سے دور بھاگ کر مغربی تہذیب کی باہوں میں پناہ لینے کے لیے بے تاب ہے۔ وہ نظام تعلیم جو ہر ڈگری یافتہ کی توند تو بڑھاتا ہے، مگر نئی نسل کو شعب ابو طالبؑ میں محصور افراد کی فقر سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس نظام تعلیم کی خامی ہی یہ ہے کہ یہ ہنر تو سکھاتا ہے مگر روح انسانی کو جلا نہیں بخشتا۔ یہ ڈگریاں تو دیتا ہے مگر معیار انسانیت عطا نہیں کرتا۔ یہ معلومات تو دیتا ہے مگر اسلامی اقدار سکھانے سے قاصر ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کا کام قوموں، قبیلوں، فرقوں اور گروہوں کو امت کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کا فریضہ آدمی کو انسان بنانا اور بت پرست کو خدا پرست بنانا ہے۔ مگر موجودہ نظام تعلیم خدا پرست کا ہاتھ پکڑ کر علاقہ پرستی، پارٹی پرستی، تنظیم پرستی، شخصیت پرستی اور جمہوریت پرستی کے لق و دق صحرا میں سرگرداں چھوڑ آتا ہے۔ بھلا امت کا کام اطاعت خدا اور سول ؐ کے علاوہ کچھ اور ہے۔؟ کیا تشیع کے دامن میں نظام ولایت کے علاوہ کوئی اور متبادل نظام حیات ہے۔؟ this is the main them of this out standing article, very impresive and reality based though. thanks raza keep ur struggle continue .
Pakistan
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ۔ ۔ ۔
ہماری پیشکش