0
Thursday 9 Jan 2014 17:17

سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان ۔۔۔ مقاصد کیا تھے؟

سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان ۔۔۔ مقاصد کیا تھے؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

سعودی وزیر خارجہ سعودالفیصل نے پاکستان کا دورہ کیا، دورہ سے قبل ہی یہ افواہیں عروج پر تھیں کہ وہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی رہائی کے حوالے سے حکومت سے بات کرنے کیلئے آ رہے ہیں، حالانکہ حکومت نے اس حوالے سے واضح کیا تھا کہ ان کا شیڈول پہلے سے طے تھا اور وہ اپنے شیڈول کے مطابق پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، لیکن عوام کی اکثریت حکومت کی باتوں پر کم ہی یقین کرتی ہے، اس لئے یہ بات زبان زدعام تھی کہ سعودی وزیر خارجہ مشرف کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔ سعودی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں سعودی وزیر خارجہ نے پرویز مشرف کے حوالے سے اپنی لاتعلقی کا اظہار اس حد تک کر دیا کہ وہ سرتاج عزیز سے پوچھنے لگے کہ یہ پرویز مشرف کون ہے۔؟ سرتاج عزیز نے جب انہیں یہ بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی بات کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ انہوں نے تو اپنے طور پر وضاحت کر دی کہ وہ پرویز مشرف والے معاملے میں دلچسپی نہیں رکھتے، لیکن اس کے باوجود پاکستان کے بعض حلقے یہی سمجھتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

سعودی عرب کا پورے عالم اسلام میں روحانی مقام بہرحال ہے، مسلمان ممالک سعودیوں کا احترام کرتے ہیں، خصوصی طور پر پاکستان کے لوگ اس میں سرفہرست ہیں، یہ احترام اپنی جگہ پر، لیکن یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ سعودی عرب کا عالمی سیاست اور عالمی معاملات میں بھی کردار ہے۔ خصوصی طور پر امریکہ انہیں اسلامی ممالک کے حوالے سے اثر و رسوخ کیلئے استعمال کر جاتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے معاملے میں بھی سعودی عرب نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُس وقت یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ نہ تھا۔؟ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کی سعودی عرب روانگی کیلئے شاید سعودیہ کا خصوصی شاہی طیارہ استعمال ہوا تھا اور میاں صاحبان بمعہ فیملی سعودی عرب میں شاہی مہمان رہے تھے۔ 

پرویز مشرف اب کس کے مہمان بنتے ہیں، وہ پاکستان میں رہ کر جیل کے مہمان بنتے ہیں، ہسپتالوں کے مہمان رہتے ہیں یا بیرون ملک کسی کے مہمان ٹھہرتے ہیں، شاید چند دنوں میں صورت حال واضح ہو جائے۔ اس حوالے سے بعض دوراندیش لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ چونکہ ہماری پچھلی حکومت کے دور میں پاکستان میں کسی ایک مجرم کو بھی پھانسی کی سزا نہیں ہوئی، بلکہ شوکت عزیز کے دور سے لیکر آج تک کسی کو پھانسی کی سزا نہیں ہوسکی۔ موجودہ حکومت کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تو یورپ کیساتھ جو تجارت کا معاہدہ کیا ہے، جس پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں، اس کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ پاکستان میں کسی مجرم کو پھانسی کیلئے تختہ دار پر نہیں لٹکایا جائے گا۔

اس طرح جنرل پرویز مشرف پر جو الزام فریم کیا جا رہا ہے، اس کی انتہائی سزا پھانسی ہے۔ اگر بالفرض انہیں سزا ہو بھی جاتی ہے تو انہیں پھانسی کی سزا تو مل نہیں سکتی، وہ عمر قید میں تبدیل ہو جائے گی اور صدر مملکت کو صرف ایک ہی اختیار ہے کہ وہ سزائیں معاف کرسکتے ہیں، جس طرح جنرل پرویز مشرف کے گھر کو جیل ڈکلیئر کر دیا گیا تھا، اگر ان کیخلاف کچھ ہوتا ہے تو نہ صرف ہسپتال کو ہی جیل بنایا جاسکتا ہے بلکہ ان کی سزا بھی معاف ہوسکتی ہے اور سعودی وزیر خارجہ کا جو یہ کہنا ہے کہ وہ صدر مملکت ممنون حسین کیلئے خصوصی پیغام لیکر آئے ہیں، حالانکہ سعودی شاہی خاندان کے تعلق تو میاں نواز شریف کیساتھ ہیں، اس لئے اگر انہیں کچھ کہنا ہوتا تو وہ میاں نواز شریف کیساتھ بات کرتے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے حوالے سے صدر سے کوئی بات کی ہو۔ ان کے دورہ پاکستان کا ایک سلگتا پہلو یہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پاک امریکہ تعلقات، پاک افغان تعلقات، ایران اور بھارت کیساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی سعودی وزیر خارجہ کوئی بیک ڈور ڈپلومیسی کیلئے پاکستان آئے ہوں، کیونکہ اس سال افغانستان سے نیٹو کی فوجیں محفوظ راستہ کی تلاش میں ہیں۔ بھارت نے ایران میں چابہار بندرگاہ تعمیر کرکے افغانستان سے تجارت اور نیٹو کی فوجوں کی واپسی کیلئے ایک نیا راستہ بنا لیا ہے۔ اب امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ایران کیساتھ کس قسم کے تعلقات ہموار کرتا ہے اور ایرانی اس پر کس حد تک اعتماد کرتے ہیں۔

ایسے حالات میں جبکہ سعودیوں کے ایرانیوں کے بارے میں اپنے تحفظات ہیں، سعودی عرب پاکستان سے کیا چاہتا ہے، اہم معاملہ ہے۔ اگر پاکستان نے موجودہ بین الاقوامی حالات میں بہتر حکمت عملی اور موثر خارجہ پالیسی سے اپنا کردار ادا کرکے حالات کو اپنے حق میں نہ کیا تو پھر سعودی عرب کے خدشات اپنی جگہ پر، لیکن پاکستان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ اب معاملہ دو برادر اسلامی ریاستوں کے درمیان میں ہے۔ دوسرا اہم معاملہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعودی پاکستانیوں کو ایران سے توانائی کے حصول کیلئے کئے گئے معاہدوں سے باز رکھنے کیلئے پاکستان کو قائل کرنے کیلئے آئے ہوں، ایسی صورتحال میں سعودی عرب اپنی گارنٹی پر پاکستان کو بین الاقوامی سہولتیں لے کر دے سکتا ہے۔ بہرحال اندر کھاتے جو بھی معاملات ہوں، سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل تھا، جس کے اثرات چند دنوں تک منظرعام پر آنا شروع ہوجائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 339307
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش