0
Wednesday 15 Jan 2014 00:47

ذات پاک رحمۃ اللعالمین (ص) سراپا نور ہدایت

ذات پاک رحمۃ اللعالمین (ص) سراپا نور ہدایت
تحریر: جاوید عباس رضوی

رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای (مدظلہ العالی) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی آج کی اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے، فی الوقت پوری دنیا میں اسلام کے خلاف جتنی کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہود و عیسائیت کی ناموسِ رسالت مآب (ص) میں بےادبی، جسارت، توہین اور گستاخی کا معاملہ نمایاں ہے، اسی پر اسلام مخالف مشنریاں اپنی توانائیاں اور مال و دولت صرف کر رہی ہیں، تمام ذرائع بشمول میڈیا کا استعمال اس کے لئے کیا جا رہا ہے، اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اہانت رسالت کی مہم کو عالمی بنا دیا گیا ہے، احترام رسالت مآب (ص) کو پسِ پشت ڈالنے کی خاطر تمام باطل قوتیں اس کے لئے شب و روز متحرک و فعال ہیں، فطری امر ہے کہ حملے کا رُخ جس سمت سے ہوگا دفاع بھی اسی رُخ سے کیا جائے گا، حملہ پشت کی طرف سے ہو اور حصار سامنے کھڑا کیا جائے تو غیر دانش مندانہ بات ہوگی، یوں ہی موجودہ دور میں بلکہ گزری دو صدیوں سے جاری حملوں کے جواب میں مسلمانوں کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ اب اپنے رحمت عالمین (ص) سے اپنی نسبت، عقیدت و ارادت مزید مضبوط کرلیں، اس کے لئے وہ تمام جائز امور استعمال میں لائیں جس سے مسلمانوں کے دل کا رشتہ محبت نبی کریم (ص) کی بارگاہ سے استوار رہے۔ آج دنیا بھر کے مسلمانوں کو عید میلاد النبی (ص) زور و شور سے پرعزم و پرارادت طریقے سے منانا ہو گی تاکہ اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا علم ہو ساتھ ہی مسلمانوں کی اجتماعیت، اتحاد اور اجماعی تسلسل کا بھی اندازہ ہو سکے، نیز اس سے ہمیں اسلامی سوسائٹی کو مضبوط کرنے میں بھی مدد ملے گی اور آستین میں چھپے دشمن کو مایوس کیا جا سکے تاکہ جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رہے۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
 وہی قرآن وہی فرقان وہی یٰسین وہی طٰہ


دنیا کی باشعور، باحس اور زندہ قومیں اپنے رہنماوں و قائدین کو ان کے یومِ ولادت کی مناسبت سے یاد کر کے اپنی عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتی ہیں، پیغمبر اسلام (ص) کی ذات باعث رحمت عالمین ہے، ان کا ذکر باعث رحمت ہے، عین عبادت ہے، ان کے میلاد کے موقع پر ان کی یاد کو قائم کرنا اور آپ (ص) کی تعلیمات کو عام کرنا نہ صرف عقیدت و فرض شناسی ہی نہیں بلکہ آپ کا ہم پر یہ حق بھی ہے کہ آپ کے پیغام امن عالم و انسانیت اور پیغام وحدت و اخوت کو عام کریں، اسلامی جمہوری ایران کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ رسول اسلام کے پیغام اخوة المسلمین کو عام کرتے ہوئے میلادالنبی کے موقع پر ہفتہ وحدت کا اہتمام کرتا ہے، شیعہ روایات کے مطابق حضور کی ولادت 17 ربیع الاول اور سنّی روایات کے مطابق آپ کی ولادت 12 ربیع الاول کو مکہ میں ہوئی، انہی روایات کے پیش نظر ایرانی انقلاب کے قائد حضرت آیت اللہ خمینی (رہ) نے تشکیل حکومت اسلامی کے بعد میلادالنبی کو بطور ہفتہ وحدت منانے کی سفارش کی تھی، یہی سبب ہے کہ اہل ایران و اہل ایمان 12 سے 17 ربیع الاول کی میلاد النبی کی تقریبات کو ہفتہ وحدت کے طور پر مناتے ہیں۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا کہنا ہے کہ ”ﷲ رحم فرمائے اس انسان پر جس نے حضور اقدس (ص) کے میلادِ مبارک کی راتوں کو عید کے بطور منایا تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں عناد اور نفاق کی بیماری ہے ان پر سخت چوٹ لگے۔ محدث دہلوی فرماتے ہیں ”اے اللہ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں، میرے اعمال فسادِ نیت کا شکار ہیں، البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل محض تیری ہی عنایت سے اس قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ محفل میلاد کے موقع پر کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی و انکساری، محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک (ص) پر درود بھیجتا ہوں۔ (اخبار الاخیار) نیز شیخ موصوف لکھتے ہیں ”آپ (ص) کی ولادت باسعادت کے مہینہ میں محفل میلاد کا انعقاد تمام عالمِ اسلام کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے‘‘۔ (ماثبت بالسنة)

ہمارے رسول کریم (ص) نے اسلام کو ایک مکمل معاشرتی نظام بناکر نسلِ انسانی کو عطا فرمایا ہے، رسول کریم (ص) کے وسیلے ہی سے انسانیت کو دنیا کے ساتھ ساتھ حیات و کائنات کی وسعتوں کا شعور اور نسلِ انسانی کی عالمگیر مساوات، اخوت و برابری اور انصاف کا پیغام ملا، انسان انفرادی طور پر جس طرح مختلف مرحلوں سے گزر کر باشعور ہونے کی منزل تک پہنچتا ہے، نسلِ انسانی بھی مجموعی طور پر انہی مرحلوں سے گزری ہے، رسول نازنین (ص) کی حیات پاک سے ہمارے لئے پوری معاشرتی زندگی بسر کرنے کا ایک مکمل عملی نمونہ سامنے آ گیا، اب جذبہ عشق رسول اکرم (ص) کا اصل تقاضہ یہی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے فکر و عمل کا پوری طرح احاطہ کر لے، سیرت پاک کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی ہمارا جز و ایمان ہونی چاہیئے کہ دور رسالتِ مآب (ص) تاریخ کا حصہ نہیں ہے بلکہ ساری نسلِ انسانی کے لئے قیامت تک ہدایت جاریہ ہے۔ استاد سید جواد نقوی امت کی عقب نشینی کے بارے میں کہتے ہیں کہ جوں ہی رسول اللہ (ص) کی آنکھ بند ہوئی امت نے عقب نشینی شروع کی یعنی قبل از بعثت والی حالت کی طرح پلٹنا شروع ہوئے، رسول اکرم (ص) کی تمام تر تعلیمات نظر انداز کرتے گئے اور دن بہ دن بدترین مثالیں پیش کرتے رہے۔

ہفتہ وحدت:

نسل انسانی کی وحدت اور اس کی فلاح و خیر کی راہ میں رکاوٹیں بھی مسلسل آتی رہتی ہیں اور حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان یہ آویزش انسانی معاشرے کی امتیازی صفت ہے چنانچہ امن و انصاف کی فضا کو فتنہ و فساد پیدا کرنے والی طاقتیں برابر مکدر کرتی رہتی ہیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ فساد پھیلانے والے بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اصلاح کرنے والے ہیں، فتنہ و فساد کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں، قرآن پاک میں فتنہ پردازی کو انسانی قتل سے بھی زیادہ بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، ہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی رہتی ہے کہ اللہ کا قانون بدلا نہیں کرتا، حیات و کائنات کا نظام انسانی معاشرے کے مختلف اجزاء پر مشتمل ہے، ان میں منقسم نہیں ہے، ہم نے عملًا سے منقسم کردیا ہے۔ آج میلاد النبی کی تقریبات کو بھی نعوذ باللہ من ذالک بدعت کہا جاتا ہے، مسلمانوں میں موجود درندہ صفات افراد نے ہر چیز کو مشکوک بنانے کی ناپاک سازشیں رچائی ہوئی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو انکے روحِ دین، فخر دین اور حقیقت دین کو سے جدا کی جائے، خود نام نہاد مسلمان ہی رسول اکرم (ص) کی ذات پاک کے بارے میں احمقانہ و ناشایستہ سوچ کے حامل ہیں۔ دشمن کی تمام تر سازشیں یہ ہیں کہ جس بات اور جس شخصیت پر ہم متفق ہو سکتے ہیں یا متفق ہونے کا دشمن کا گمان ہے اسکو مشکوک بنا کر پیش کرے، یہ ایام ’’ہفتہ وحدت‘‘ بہترین موقع ہے کہ ہم اپنے شعور کو صحیح سمت دیں ورنہ ہم اپنے قبلہ حقیقی سے کوسوں دور چلے جائیں گے کہ واپسی ممکن نہ ہوسکے۔

استاد سید جواد نقوی اتحاد کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ یہ بات یاد رہنی چاہیئے کہ وحدت درحقیقت ایک الٰہی اور قرآنی اصول کا نام ہے، وحدت اکثریت اور اقلیت کے لئے ایک الٰہی پیغام ہے، وحدت اقدارِ الٰہی اقدار قرآنی کا خوبصورت اسلوب ہے، قرآن نے شیعہ و سنی کے بجائے وحدت کی تلقین کی ہے، آیۃ مبارکہ ’’ کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ۔۔۔‘‘ کے مطابق لوگ پہلے ایک امت تھے لیکن بعد میں مختلف وجوہات کی بنا پر ان کے درمیان اختلاف رونما ہوا اور اس اختلاف کو ختم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ جاکر اس اختلاف کو ختم کرکے ان کو امت واحدہ بنا دیں۔ امام خمینی (رہ) اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’اسلام دنیا کی تمام ملتوں عرب، عجم ترک و فارس کو متحد کرنے اور امت مسلمہ کے نام سے دنیا میں ایک بڑی امت تشکیل دینے کے لئے آیا ہے‘‘۔ اور ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’ ہم شیعہ و سنی بھائی بن کر رہیں اور دوسروں کو مہلت نہ دیں کہ وہ ہماری ہر چیز لوٹ کر لے جائیں، تفرقہ شیطان کا کام ہے اور باہمی اتحاد اور اتفاق رحمان کا کام ہے۔ اس سلسلے میں امام خامنہ ای فرماتے ہیں کہ آج عالم اسلام کے درد کی اصلی دوا اور علاج اتحاد ہے، سب باہم متحد ہو جائیں، اور آج مسلمانوں کی بقاء کا واحد راستہ آپس میں وحدت و اتحاد ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی (ص)، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
خبر کا کوڈ : 340528
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش