1
0
Tuesday 14 Jan 2014 23:05

شہید اعتزاز حسن کے خون کا پیغام

شہید اعتزاز حسن  کے خون کا پیغام
تحریر: محمد علی نقوی

6 جنوری کو صبح کے وقت پاکستان کے صوبہ خيبر پختونخوا کے شہر ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے دو نظریات کے درمیاں  واضح لکیر کھینچ دی۔ ایک ہی جگہ پر دو افراد زور دار دھماکے سے اڑ گئے، دونوں کے جسموں کے پرخچے ارد گرد پھیل گئے اور دونوں کی زندگياں ختم ہوگئين۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دونوں ایک ہی نوع انسانی سے تعلق رکھتے تھے، دونوں کا گوشت و پوست ایک ہی جیسا تھا، ممکن ہے کہ ایک ہی علاقے کے رہنے والے ہوں، لیکن ان میں سب سے نمایاں اور بنیادی فرق یہ تھا کہ ایک اسکول میں پڑھنے والے مختلف خاندانوں، قبیلوں اور عقائد سے تعلق رکھنے والے نونہالوں کو خاک و خون مین غلطان کرنا چاہتا تھا جبکہ دوسرا ان بچوں کو موت سے نجات دلانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار تھا۔ ایک ہزاروں ماوں اور والدین کو ہمیشہ کے لئے سوگوار کرنا چاہتا تھا جبکہ دوسرا ماوں کے جگر گوشوں کو ہنستا کھیلتا دیکھنا چاہتا تھا۔ مرنے والے ان دو کرداروں میں ایک انسانیت کا قاتل اور دوسرا نجات دہندہ ہے۔ گویا ایک شیطان کا نمائندہ ہے اور دوسرا رحمان کا۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کونسی سوچ، فکر اور نظریہ ہے جس نے ایک کو ناجی اور دوسرے کر تخریب کار بنا دیا۔ دونوں اپنی اپنی فکر و نظریہ پر پختہ تھے، چونکہ دونوں نے اپنی فکر اور نظریئے کے لئے اپنی سب سے عزیز چیز یعنی جان اور زندگی قربان کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔

یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ نجات دہندہ جب تخریب کار کا راستہ روکنے کے لئے آگے بڑھ رہا تھا تو اس نے کئی بار سوچا ہوگا کہ اس کے اس اقدام کا کیا نتیجہ برامد ہوگا، اسی طرح خود کو دھماکے سے اڑا کر انسانیت کے قتل کا ارادہ رکھنے والے خودکش بمبار نے  بھی اپنے اس عمل اور اسکے نتیجے کے بارے میں ضرور غور و فکر کیا ہوگا۔ انسانی عقل و شعور سے بعید ہے کہ اس نے خودکش بمبار بننے سے پہلے اپنے آپ کو نظریاتی اور عقیدتی بنیادوں پر تیار نہ کیا ہو۔ ان دونوں کرداروں کو اس مقام تا پہنچانے میں کس کا عمل دخل ہے؟ کیا ہمارے معاشرے نے انہیں یہاں تک پہنچایا ہے؟ کیا ہمارا مذہب اس طرح کی تعلیم دیتا ہے۔؟ یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ لھذا دونوں کی تربیت کسی ایک جگہ سے نہیں ہوسکتی۔ ان دونوں کی تربیت کرنے والوں کے افکار و نظریات میں بھی زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض نام نہاد علماء اور دانشور اس رویئے کو ایک ہی نظریئے کی دو مختلف تعبیریں قرار دیتے ہیں حالانکہ صورتحال بہت واضح ہے۔ تعبیرات اور مفاہیم کا فرق نہیں مسئلہ نیات اور ارادوں اور پیچھے بیٹھی قوتوں کے اغراض و مقاصد کا ہے۔ قرآنی تعلیمات میں واضح طور پر آیا ہے کہ جس نے ایک بے گناہ انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ اس کی دو مختلف تعبیریں کیسے ہوسکتی ہیں؟ بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، چاہے کوئی حافظ قرآن یہ فعل انجام دے یا کوئی حدیث کا قاری یا کوئی بندہ خطا کار۔

شہید اعتزاز حسن کا مکتب بے گناہ انسانوں کو ظلم و ستم اور قتل و غارت سے نجات دلانے کا سبق سکھاتا ہے، جبکہ خودکش بمبار کا مکتب انسانیت کی تباہی اور بربادی کا پرچار کرتا ہے۔ دونوں مکتبوں کے نظریات کے ساتھ ساتھ ان کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ خودکش بمبار کا مکتب اپنے باطل نظریات کو بندوق اور ہتھیاروں کے زور پر معاشرے پر مسلط کرنا چاہتا ہے جبکہ اعتزاز حسن کا مکتب قرآنی، اسلامی اور حق پر ہونے کے باوجود نرمی، خندہ پیشانی، رواداری اور عفور و درگذشت کے راستے اختیار کرکے عوام کو رستگاری کے راستے پر لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مکتب کا پیرو بعض اوقات طاقت رکھنے کے باوجود ظلم نہیں کرتا، بلکہ مظلوم بننا پسند کرتا ہے، تاکہ اصلی ھدف محفوظ رہے۔ وہ انتقام کے بجائے رحم کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اعتزاز حسن کا مکتب جہاں یہ کہتا ہے کہ حسین جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا تو وہاں اپنے قیام کا ھدف  اصلاح امت محمدی قرار دیتا ہے۔ اعتزار حسن کا مکتب آگے بڑھ کر موت کا استقبال کرنے کی دعوت دیتا ہے، لیکن اپنے گھر آئے پیاسے قاتل کو اپنے ہاتھوں سے سیراب بھی کرتا ہے۔ اعتزار کا مکتب اور اسکا آئيڈیل موت کو شہد سے زیاد شیرین سمجھتا ہے اور ببانگ دہل کہتا ہے کہ اگر ہم حق پر ہیں تو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ موت ہم پر آپڑے یا ہم موت پر جا پڑیں۔

اعتزار حسن نے خودکش بمبار کو روک کر ہزاروں بچوں کی جانیں بچانے کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ اور خودکش بمبار نے  ہزاروں ماؤں کی کوکھ اجاڑنے اور سینکڑوں خاندانوں کو سوگوار بنانے کیا ارادہ کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ  ہے کہ اس کے پیچھے ان دونوں کے مکاتب فکر اور ان کی تعلیمات کارفرما  ہیں۔ اعتزار لاالہ الاللہ کے تحفظ کے لئے کربلائی راستے کو اختیار کرتا ہے جبکہ خودکش قاتل بمبار کلمہ طیبہ اور کلمہ گویوں کی نفی کرتے ہوئے اپنی اسی تکفیری ذہنیت سے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے پر آمادہ ہوتا ہے، وہ دوسروں کے دین کی نفی کرکے دین کے مقدس نعروں کے پيچھے نیز مذہب کے دکھاوے کے دبیز پردوں کے پیچھے خود کو چھپانا چاہتا ہے۔ صدر اول کی تاریخ کے صفحات میں اس طرح کے دکھاوے کی مثال مل جائے گی جبکہ ایک جاہ پرست اور دنیا کے بھوکے نے اذان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک آنے پر غصہ میں کہا تھا کہ الا دفنا دفنا آج کی تکفیری سوچ کے ڈانڈے اسی جملے سے ملتے ہیں۔ اس مکتب کے پیرو مختلف ناموں سے سرگرم عمل ہیں۔ کہیں انہیں القاعدہ کہا جاتا ہے تو کہیں طالبان تو کہیں النصرہ، اور داعش کا نام دیا جاتا ہے، یہ سب اسلام اور قرآن کے بڑے حامی دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کے کرتوت اسلام و قرآن کے عین مخالف ہیں۔ 

اسلام کے نام پر اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا ان یہودی اور سعودی آلہ کاروں کا کام  بن چکا ہے، یہ لوگ عالم کفر و شرک کے وہ تمام مقاصد پورے کر رہے ہیں، جنہیں حاصل کرنے کے لئے اھل کفر و شرک کو خطیر بجٹ لگانا پڑتا۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے ان مظاہر نے اسلام کی تصویر مسخ کر دی ہے، اسکی شبیہ بگاڑ دی ہے اور اسلام جیسے امن و صلح و آشتی کے خواہاں دین کو بدنام کر دیا ہے۔ انہی ظالموں کے سیاہ کرتوتوں سے آج دنیا مغرب اسلام کو تشدد پسند، جنگ کا دلدادہ اور ظلم کا فریفتہ نیز تشدد کا مکتب سمجھتی ہے۔ نعرہ تکبیر کی گونچ میں گردنیں اڑانا، مقتولین کا جگر اور کلیجہ نکال کر دانتوں سے چبانا، بے گناہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو کیمیاوی ہتھیاروں کا شکار بنانا، اصحاب کرام، اولیاء عظام اور معاشرے میں عورتوں اور بوڑھوں کو کیمیائی ہتھیاروں کا شکار بنانا۔ اصحاب کرام، اولیاء گرامی اور معاشرے میں تقوی اور پرہیزگاری کی شہرت رکھنے والے افراد کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر بے حرمتی کرنا، مساجد، امام بارگاہوں کو نشانہ بنانا، ان کا روز مرہ کا معمول ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی ذاتی جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے جہادالنکاح جیسی شیطانی بدعتیں شروع کرنا ان کا طرہ امتیاز ہے۔

شہید اعتزاز احسن نے ان تمام قوتوں کو جو اسلام کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئی ہیں، اپنے خون سے یہ پیغام دیا ہے کہ باطل کے پردے میں کلمۃ الحق کہنے سے حقیقی نظریات ختم نہیں ہوتے اور صرف مرنا ہی قابل ستائیش نہیں ہوتا بلکہ موت کے پیچھے موجود نیت بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ خودکش کارروائیوں سے جنت اور بہشت نہیں ملتی، بلکہ بہشت ان لوگوں کی منزل ہوتی ہے جو انسانیت کی فلاح، نجات اور ہدایت کیلئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔ شہید اعتزاز حسن نے اپنی لازوال قربانی سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشتگردی کے خلاف سرگرم افراد، تنظیموں اور اداروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ دہشتگردی کی روک تھام گفتار سے نہیں بلکہ کردار اور عمل سے ممکن ہے۔

شہید اعتزاز حسن کو انسانی حقوق کے عالمی اداروں، پاکستان کے اہم فوجی اور حکومتی حکام، مختلف شیعہ اور سنی جماعتوں کے رہنماوں کی طرف سے مختلف القابات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے، لیکن چھوٹی عمر میں بڑا کام کرنے والے اعتزاز کیلئے سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ اس نے اپنی ماں کو سوگوار کرکے کئی ماوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔ یہ مائیں جب بھی اپنے لخت جگر کو دیکھیں گی تو ان کے چہروں اور آنکھوں میں اعتزاز حسن کی جھلک نظر آۓ گی۔ شہید اعتزاز کی عظیم ماں جس نے اعتزاز جیسے بہادر اور نڈر سپوت کو جنم دیا اور اسکی تربیت و پرورش کی، وہ بھی اس بات پر فخر کرے گی اور اس کے سوگوار چہرے پر اس وقت مسکراہٹیں پھیل جائیں گی، جب وہ اس بات کا احساس کرے گی کہ اس کا "اعتزاز" اپنے مولا و آقا اور جوانان جنت کے سید و سالار امام حسین علیہ السلام کے حضور میں اکبر و قاسم و عون و محمد کی بزم اقدس میں عرفان حق کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ 

آج ہر باشعور انسان اعتزاز حسن کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے، لیکن حقیقی خراج تحسین کا یہ تصور کتنا خوشگوار ہے کہ جب حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کی مادر گرامی اعتزاز حسن کا اپنے نورانی کلمات سے استقبال کريں گی اور پیغمبر انسانیت حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے دیکھ کر ارشاد فرمائیں گے "اعتزاز حسن" تم نے دین اسلام کو حقیقی اعتزاز بخشا اور انسانیت کے دفاع میں اپنی جان قربان کرکے دین اسلام اور میری لاج رکھ لی، کیونکہ دین اسلام اور میرا حقیقی پیروکار تو وہی ہے جو انسانیت کا دفاع کرتا ہے نہ کہ خودکش دھماکوں سے انسانیت کو خاک و خون میں غلطاں کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 341119
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
کیا کہنے۔
ہماری پیشکش