0
Wednesday 22 Jan 2014 20:15

قوت فیصلہ سے محروم حکمران اور دہشتگرد

قوت فیصلہ سے محروم حکمران اور دہشتگرد
تحریر: ابو فجر

دہشت گردوں نے بنوں چھاؤنی کے سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کے اگلے ہی روز جی ایچ کیو تک رسائی کی ایک بار پھر کوشش کی مگر سکیورٹی سخت ہونے کی بناء پر خودکش بمبار نے جی ایچ کیو کے قریبی آر اے بازار میں خود کو اڑا لیا جس کے نتیجے میں زور دار دھماکے سے 7 فوجیوں سمیت 14 افراد شہید اور 33 سے زائد زخمی ہوئے۔ شہداء میں 3 طلبہ بھی شامل ہیں۔ اس دھماکے کے بعد ایک اور خودکش بمبار کی موجودگی کی اطلاع پر علاقے میں سرچ آپریشن کیا گیا۔ دریں اثناء ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی، خضدار اور چارسدہ میں بھی بم دھماکوں کی اطلاعات ملی ہیں جن میں سکیورٹی اہلکاروں کے ہلاک ہونے کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں۔ دہشت گردی کی ان ہولناک خبروں کے تناظر میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حکومت فوری طور پر حرکت میں آتی اور دہشت گردوں کی سفاکیت کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ لیتی مگر حیران کن طور پر حکومتی ردعمل عوام میں مایوسی پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ حکومت حرکت تیز تر اور سفر آہستہ کے مصداق ابھی تک ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات پر صرف تشویش کا اظہار کرنے تک محدود ہے۔

کہا تو جا رہا ہے کہ حکومت حالات کی نزاکت بھانپ چکی ہے اور مشکل ترین فیصلے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس ضمن میں غیرمعمولی اقدامات کیلئے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا کیونکہ ملکی حالات سنگین ہیں، حکومت یہ بھی عندیہ دے رہی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ طالبان سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ایسے لوگوں کو ذمہ داری سونپ رہی ہے جو دہشت گردوں کو ہاتھ جوڑ کر اپنی خونریز کارروائیاں روکنے کی اپیل کرنے کی بجائے حکومت کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کیخلاف آپریشن سے باز رہے۔ اس قسم کی صورتحال نے عجیب قسم کا مخمصہ کھڑا کر دیا ہے۔ حکومت نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن کی کشاکش سے دوچار ہے۔ دعویٰ تو کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے پر عسکری و سیاسی قیادت یکسو ہے مگر آئے روز سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں نے قومی سلامتی کے اداروں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اس صورت حال کا دورانیہ طویل نہیں رہے گا، گولی کی زبان میں بات کرنیوالوں کیساتھ زبان دانی کا ہنر کام نہیں آئے گا، ریاستی حاکمیت اعلیٰ منوانے کیلئے پہلے ریاست کو اپنی بالادستی منوانے کیلئے زور بازو آزمانا پڑے گا، قوت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، یہ دنیا کا اصول ہے کہ طاقت ور ہی ہمیشہ اپنی بات منوا سکتا ہے۔ کمزور کا لجاجت بھرا لہجہ اسے تذلیل کے سوا کچھ نہیں دیتا۔

اس وقت عسکری ادارے اپنی جانیں وطن کی سلامتی کیلئے قربان کر رہے ہیں، یہی ان کا مشن ہوتا ہے اور ذمہ داری بھی مگر کسی مقصد کی خاطر جان کی بازی لگانا اور بات ہے، بلاوجہ کوئی ان کی جان داؤ پر لگائے جس سے ان کی قیمتی زندگیاں لی جاتی رہیں یہ کسی طور مناسب نہیں، حکمران اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے قوم کے نابغوں کی جانیں گنوانے پر تلے ہیں، ان کے خونِ ناحق سے ہاتھ رنگنے والے ہماری مذاکراتی ٹیموں کے یک زبان نہ ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، جتنے طالبان کے گروہ سرگرمِ عمل ہیں اتنے ہی مذاکرات کار ہم نے ایک بےفائدہ مشق میں جھونک رکھے ہیں، سبھی کے الگ الگ انداز فکر ہیں اور جداگانہ طرزعمل، یہی حکومت کی نااہلی اور بےسمت سفر کا ثبوت ہے جس کا ہمارے دشمن بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بعض حلقے سکیورٹی اداروں پر طالبان کے تازہ ترین حملوں کو زمینی ڈرون حملوں سے مماثل قرار دے رہے ہیں جس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ طالبان میں امریکی و بھارتی گروہ پاکستان کی دفاعی قوت کو کمزور کرنے کیلئے قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو چیلنج کر کے ہماری سالمیت کو زبردست نقصان سے دوچار کرنے کیلئے تیزی سے وارداتیں کر رہے ہیں۔

ان خودکش حملوں، ریموٹ کنٹرول دھماکوں سے قوم میں یہ احساس جاگزیں ہوتا جا رہا ہے کہ ہمارا ملک غیرمحفوظ ہو چکا ہے۔ ہمارے ادارے کمزور اور حکومت ناکارہ ہو چکی ہے۔ ہمارے حکمران بےبصیرت اور وقت کی نزاکت کا احساس کرنے سے عاری ہیں جو فیصلہ سازی کے لئے درکار خوداعتمادی سے محروم ہیں۔ ہماری پوری سیاسی قیادت خودپسند، جھگڑالو اور مفاد پرست عناصر کے ہاتھ میں ہے جنہیں تاریخ کے نازک ترین لمحات میں بھی اپنی ناک سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ ملک کی بقا خطرے میں ہے، قوم بےیقینی کی کیفیت سے دوچار ہے جبکہ ہمارے سیاست دانوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ابھی تک کوششیں جاری ہیں جن کے ثمربار ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ایسے وقت میں جب حکومت کو سارے کام چھوڑ کر صرف اور صرف وحدت ملی کا جذبہ بیدار کر کے سارے سٹیک ہولڈرز کے درمیان دفاع وطن کے یک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے جان لڑا دینی چاہیئے تھی وہ قومی سلامتی پالیسی وضع کرنے میں بھی تساہل سے کام لے رہی ہے۔ حکومت نے یہ طرزعمل اپنی صفوں میں موجود طالبان کے حمایتیوں کو راضی رکھنے کیلئے اختیار کیا ہے تاکہ وہ دہشت گردوں کو بات چیت کیلئے آمادہ کر سکیں۔

دوسری جانب ابھی تک کے مشاہدے میں تو یہی آیا ہے کہ طالبان کے ایجنٹ بھی اپنے سرپرستوں کی ایماء پر ہی حکومت کو مذاکرات کے دھندے میں الجھا کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں کو وارداتیں کرنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ یہ ہیجان خیز صورتحال پوری قوم کو سخت اضطراب میں مبتلا کر کے بے دلی کا شکار کر رہی ہے، پاکستان کے دشمن ہماری سیاسی قیادت کے انتشار اور باہمی منافرتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی دفاعی قوت کو کمزور کر کے پاکستان کا وجود مٹانے کی سازشیں بام عروج پر ہیں اور ہمارے حکمرانوں میں ابھی تک قومی سلامتی کیلئے ناگزیر انسداد دہشت گردی ایجنڈے پر بحث جاری ہے۔ فیصلہ سازی میں غفلت شعاری کا مظہر یہ تساہل ہمیں مزید کتنی خوفناک تباہی سے دوچار کرنیوالا ہے اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ریاست کی ہیئت مقتدرہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قوت فیصلہ سے محروم افراد کے حق حکمرانی پر سوالیہ نشان نوشتۂ دیوار ہے!
خبر کا کوڈ : 343814
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش