1
0
Sunday 26 Jan 2014 21:11

جنیوا ٹو کانفرنس کی ناکامی کے اسباب

جنیوا ٹو کانفرنس کی ناکامی کے اسباب
تحریر: محمد علی نقوی

جنیوا ٹو کانفرنس توقع کے عین مطابق ناکام ہوگئی، ناکام کیوں نہ ہوتی اس کانفرنس کو منعقد کرنے والوں کی دلی خواہش شام کے بحران کا خاتمہ نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کا  تحفظ تھا۔ امریکہ، سعودی عرب، قطر اور ترکی اس اجلاس کو منغقد کرنے میں سب سے آگے آگے تھے۔ شام کے حوالے سے امریکہ کا مفاد کسی سے پوشیدہ نہیں، وہ شام میں اسرائیل کی جنگ لڑ رہا ہے۔ سعودی عرب خطے میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے تکفیری گروہوں کو امریکی اھداف کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ قطر شام میں اپنی لابی کو سامنے لا کر سعودی عرب کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ رہ گیا ترکی تو اسکے دماغ میں سلطنت عثمانیہ کے احیا کا ایسا بھوت سوار ہے کہ وہ طیب اردوغان کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوتا نظر آرہا ہے۔
 
ترکی شام میں سرگرم دہشتگردوں کو لاجیسٹک اور تربیت کی سہولیات فراہم کرکے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان تمام ممالک کے جہاں الگ الگ اھداف ہوسکتے ہیں، وہاں عالمی سطح پر یہ سب ممالک امریکی ایجنڈے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ بھی جنیوا ٹو کے انعقاد میں کافی حد تک سرگرم رہا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے جسطرح اسلامی جمہوریہ ایران کے جنیوا کانفرنس کے جاری شدہ دعوت نامہ کو منسوخ کیا، اس سے جہاں بان کی مون کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے، وہاں اقوام متحدہ کی ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کی سفارتی  تاریخ میں اس اقدام کو یو این کا سیاہ ترین باب قرار دیا جاسکتا ہے۔

ایران اس بات پر زور دیتا تھا اور ہے کہ بحران شام کی واحد راہ حل، سیاسی راہ حل ہے اور اسی موقف کے ساتھ اس نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان  بھی کیا تھا، لیکن امریکہ نے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ایران کے لیے پیشگی شرائط اور غیر منطقی مطالبات رکھے، جن میں سے ایک شرط یہ تھی کہ ایران کو جنیوا ایک کے اعلامیہ کا پابند ہونا پڑے گا، لیکن ایران نے واضح طور پر کہا کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے کوئی بھی پیشگی شرط قبول نہیں کرے گا۔ کانفرنس سے چند گھنٹے پہلے بان کی مون کیطرف سے دعوت نامے کی واپسی امریکی ایما پر کی گئی، کیونکہ جب بان کی مون کے ترجمان نے دعوت نامے کی واپسی کا اعلان کیا تو اس سے تھوڑی دیر پہلے امریکی وزیر خارجہ اور بان کی مون کے درمیان تفصیل سے بات چیت ہوئی، جسکا نتیجہ دعوت نامے کی منسوخی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ 

امریکہ کی جانب سے جنیوا ٹو کانفرنس میں ایران کی شرکت کی مخالفت کی ایک وجہ اسرائیلی حکومت کی لابی اور قطر اور سعودی عرب سمیت علاقے کے بعض ممالک کی جانب سے اس کانفرنس میں ایران کی شرکت کی مخالفت تھی۔ ایران شام میں فوجی مداخلت کا مخالف ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ شام میں امن و امان اس وقت بحال ہوگا جب شام میں سرگرم دہشتگرد گروہوں کی حمایت بند ہوگی۔ ایران کی نظر میں شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے شامی فریقوں کے درمیان مذاکرات ضروری ہیں اور اس سے ہٹ کر کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں دے گا۔ جنیوا ٹو کانفرنس امریکی طرزعمل کی وجہ سے اپنے راستے اور مقصد سے دور ہوگئی۔ 

اس اجلاس میں شامی مخالفین کے سربراہ احمد الجریا نے حکومت شام کے ساتھ اختلافات کو اٹھاتے ہوئے شامی حکام سے مطالبہ کیا کہ اقتدار کی منتقلی کے لئے فوری اقدامات کے منصوبے پر دستخط کریں۔ دوسری جانب شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے اس کانفرنس میں دہشتگردوں کے غیر ملکی حامیوں پر تنقید کی اور کہا کہ  شام بیرونی دباؤ میں نہيں آئے گا۔ شامی وزیر خارجہ ولید المعلم کے خطاب کے دوران اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کی بے جا مداخلت پر ولید المعلم بھڑک اٹھے اور دونوں کے درمیان  تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔
 
جب شام کے وزیر خارجہ اپنے خطاب کے دوران بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا رہے تھے، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے تقریر لمبی ہونے کے بہانے ان کی بات کاٹنے کی کوشش کی، لیکن ولید المعلم کے سخت جواب پر وہ خاموش ہوگئے۔ شام کے وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی جانب سے تقریر ختم کئے جانے کی درخواست کے جواب میں تاکید کے ساتھ کہا کہ خود آپ نے پچیس منٹ تقریر کی۔ میں شام میں رہتا ہوں اور آپ نیویارک میں رہتے ہیں، لہذا مجھے شام کے حالات بیان کرنے دیں۔ چند منٹ کے بعد بان کی مون نے ولید المعلم سے کہا کہ اپنی تقریر ختم کیجئے اور اپنے وعدے پر عمل کیجئے، اس کے جواب میں ولید المعلم نے کہا کہ شامی ہمیشہ اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں۔

شام کے وزیر خارجہ ولیدالمعلم نے کانفرنس کے افتتاحی خطاب میں  امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس غیر روایتی بیان پر کہ شام کی عبوری حکومت میں بشار الاسد کی کوئی جگہ نہيں ہوگی، انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی خود کو شامیوں کا ترجمان سمجھنے کا حق نہيں رکھتا۔ ولید المعلم نے جان کیری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو کسی ملک کے صدر کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے کا حق نہيں ہے۔ ولید معلم نے کہا کہ کانفرنس میں موجود شامی وفد شام کے صدر، فوج اور قوم کا نمائندہ ہے اور اس وقت اس حقیقت کے سامنے آنے کا وقت ہے جو مشکوک ہوچکی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یہاں اس وقت ایسے ممالک کے نمائندے موجود ہیں جن کے ہاتھ شامی عوام کے خون میں ڈوبے ہوئے ہيں۔ ایسے ماحول میں منعقد ہونے والی کانفرنس کا انجام سب پر واضح تھا، لیکن امریکی دباؤ کے وجہ سے کئی آوازیں خاموش تھیں۔

سیاسی ماہرین کے مطابق جنیوا ٹو کانفرنس میں شریک مختلف شرکاء میں موجود اختلافات اور بعض موثر علاقائی طاقتوں خاص طور پر ایران کے موجود نہ ہونے کے باعث اسکا کسی نتیجے تک نہ پہنچنا ایک لازمی امر تھا اور یہ کانفرنس نمائشی اقدامات اور اس کے منعقد کرنے والوں کے خود غرضی پر مبنی مقاصد بالخصوص ذیلی اختلافات اور بان کی مون اور جان کیری کی غیر سفارتی حرکتوں کے سبب عملی طور پر ایک ناکام سیاسی شو ثابت ہوچکی ہے۔ اسی لئے تو آج سب کی زبان پر یہ جاری ہے کہ جنیوا ٹو کانفرنس توقع کے عین مطابق ناکام ہوگئی، ناکام کیوں نہ ہوتی اس کانفرنس کو منعقد کرنے والوں کی دلی خواہش شام کے بحران کا خاتمہ نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کا  تحفظ تھا۔ کاش کسی کو شام کے ان شہریوں کا معمولی سا بھی  احساس ہوتا جنکی ایک نسل تقریباً تباہی کے دہانے پر ہے۔
خبر کا کوڈ : 345284
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اللہ مزید توفیق دے، اور قلم میں مزید طاقت پیدا کرے، آمین
ہماری پیشکش