2
0
Friday 31 Jan 2014 17:53

ترکی کے وزیراعظم کا دورہ ایران اور امریکی شکست

ترکی کے وزیراعظم کا دورہ ایران اور امریکی شکست
تحریر: محمد علی نقوی

ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان کے دورہ ایران سے پہلے عالمی اور خطے کے میڈیا میں بہت سے تبصرے دیکھنے کو ملے۔ اکثر تجزیہ کاروں کا یہ کہنا تھا کہ ترکی سعودی عرب کے دباؤ اور امریکہ کے اصرار پر ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا کیونکہ شام کے مسئلے پر ترکی، امریکی اور سعودی محاذ پر کھڑا ہے اور ایران اور ترکی دونوں کے موقف میں کوئی لچک دکھائی نہیں دیتی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تجزیہ کار اس فیکٹر کو بھول رہے ہیں کہ جنیوا  جوہری مذاکرات کے بعد ایران کے حوالے سے بڑی بڑی سفارتی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ شام کے حوالے سے ترکی کے صدر نے کچھ عرصہ پہلے ایک بیان دیا تھا جس میں ترکی کے سفارتی ٹرن کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ترکی کے صدر نے کہا تھا کہ ہمیں حتمی طور پر شام کے بارے میں اپنی پالیسیاں حقیقت پسندی کی بنیاد پر ترتیب دینی چاہیں۔ 

ترکی کے صدر "عبداللہ گل" نے انقرہ میں سفارت کاروں کے چھٹے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کے داخلی و خارجہ مسائل کی کنجی منطقی بنیادوں پر باہمی گفتگو ہے۔ ترکی کے صدر "عبداللہ گل" نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے جنوبی علاقوں کے بارے میں پالیسیوں کو اپنے اطراف میں سیاسی مراکز کے خطرات کو درک اور حقیقت پسندی کو دیکھتے ہوئے ترتیب دینا چاہیئں۔ ترکی کے صدر نے علاقے میں ترکی کی سفارت کاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ تمام مشکلات کو سفارت کاری کے ذریعے سے حل کیا جاسکتا ہے۔ عبداللہ گل کے ان بیانات کے بعد ہی علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین نے کہہ دیا تھا کہ اب ایران اور ترکی قریب آنا شروع ہو جائیں گے۔ ترکی کے وزیراعظم  نے ایسے حالات میں تہران کا دورہ کیا ہے کہ ایران کی موجودہ حکومت نے اپنی فعال سفارتکاری سے ایران کے مفاد میں علاقائی اور عالمی سطح پر نیا ماحول تیار کیا ہے۔

ترک وزيراعظم پہلے اعلٰی عہدیدار تھے جنھوں نے ڈاکٹر حسن روحانی کو ان کے عہدے کی مبارک باد پیش کی تھی اور ان کی تقریب حلف برداری میں ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے شرکت کی اور پھر نیویارک میں اقوام متحدہ کے عام اجلاس کے موقع پر دریائے ھادسون کے کنارے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور ترک وزیر خارجہ داؤد اوغلو کی چہل قدمی بھی خبروں میں موضوع بحث رہی، جس نے اچھی ہمسائیگي کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون و دوستی کے نئے باب کی نوید سنائی۔ یہ ملاقات اور بات چیت وزیر خارجہ جواد ظریف کے دورہ ترکی کا پیش خمیہ ثابت ہوئی، جس میں مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کےحکام کے مسلسل دوروں کے وعدے ہوئے اور بعد میں اس پر عمل درآمد بھی ہوا۔

ایران اور ترکی کے تعلقات میں نئے دور کے آغاز کے کئی اسباب ہيں جن میں، ایران میں نئے صدارتی دور کا آغاز اور تہران کے سفارتی اقدامات کا نیا مرحلہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی ماہرین بحران شام کے حل کے طریقہ کار کے سلسلے میں ترکی کے موقف میں تبدیلی بھی دیکھ رہے ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران علاقے کےحالات بالخصوص حکومت شام کے خلاف مقابلہ آرائی میں ترکی کا مغرب کے شانہ بہ شانہ ہونا اس بات کا عکاس تھا کہ ترکی علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ساتھ ہی مزيد فعال کردار ادا کرنا چاہتا تھا اور خود ان ملکوں کے لئے آئيڈیل بننا چاہتا تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔

اسی وجہ سے ترکی نے شام کے تنازعہ کے حل میں اپنا موقف متوازن بناتے ہوئے ایسا رخ اختیار کیا ہے، جو اگرچہ تہران جسیا نہيں ہے لیکن اس نے تہران انقرہ کے موقف کی دوری ضرور کم کی ہے اور دونوں فریق فوجی آپشن سے دوری پر تاکید کرتے ہوئے بحران شام کے سفارتی حل پر تاکید کر رہے ہيں۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ایران اور ترکی نے مشرق وسطٰی کے حساس علاقے میں ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات میں موثر کردار ادا کریں۔ بہرحال ان حالات میں ترکی کے وزیراعظم نے ایران کا دورہ کیا اور رھبر انقلاب اسلامی سے ملاقات سے پہلے یہی سمجھا گیا کہ شاید یہ معمول کا دورہ ہے، اسکی ایک دلیل ایرانی میڈیا کی ترکی پر تنقید اور شام کے مسئلے پر رجب طیب کے خلاف سخت موقف تھا۔ 

بہرحال ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان جو کہ داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی امور میں تہران انقرہ تعاون میں توسیع کے مقصد سے ایران آئے تھے، بدھ کے دن رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ایران اور ترکی کے درمیان صدیوں سے قائم بھائی چارے، محبت اور دوستی کو بے مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان وسیع اور گہرے تعلقات کو فروغ دینے کے لئے بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ آپ نے ترکی کے وزیراعظم کی جانب سے تہران کے اس سفر کے دوران مختلف معاہدوں پر دستخط کئے جانے پر تہران اور انقرہ کی جانب سے سنجیدگی کے مظاہرے کو اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ سنجیدگی دونوں ممالک کے درمیان روابط کو مستحکم کرنے اور تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان نے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات سے قبل ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے بھی ملاقات اور مذاکرات کئے تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اور ترکی کے وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون میں توسیع پر تبادلۂ خیا کیا گيا۔

ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان کے دورۂ ایران اور رہبر انقلاب اسلامی اور ایران کے دوسرے اعلٰی حکام کے ساتھ ان کی ملاقاتوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دونوں ممالک میں اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں باہمی تعاون کے بے تحاشا مواقع پائے جاتے ہیں۔ ترکی اور ایران کی مشترکہ سرحد پانچ سو کلومیٹر لمبی ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے باہمی اقتصادی اور تجارتی تعاون میں توسیع کے بہت سے مواقع پائے جاتے ہیں۔ ترکی کے وزیراعظم کے دورہ ایران کے موقع پر باہمی اقتصادی تعاون کے تین سمجھوتوں پر دستخط کئے گئے۔ دونوں ممالک نے 2015ء تک کے لئے سالانہ تیس ارب ڈالر مالیت کے تجارتی حجم کا ٹارگٹ اپنے سامنے رکھا ہے۔ 2010ء میں ایران اور ترکی کی باہمی تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تھا جو کہ سنہ دو ہزار گیارہ میں سولہ ارب ڈالر تک پہنچ گيا۔
 
ایرانی اور ترکی سیاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ تمام تر سفارتی پیچیدگیوں کے باوجود جاری رہا ہے، ایرانی سیاحوں کے ترکی جانے اور ترکی کے سیاحوں کے ایران آنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ دونوں مسلمان ملتوں کے درمیان گہری اور تاریخی دوستی اور تعلقات موجود ہیں اور یہی چیز دونوں ممالک کے اقتصادی تعاون کی ضمانت ہے۔ اسی بات کے پیش نظر ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان نے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای سے ملاقات میں اس امید کا اظہار کیا ہےکہ ایران اور ترکی کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات خطے اور دنیا کے لئے مثالی ثابت ہوں گے۔

اس سلسلے میں تہران اور انقرہ کے باہمی سیاسی تعاون کی ایک اعلٰی کونسل کی تشکیل سے متعلق ایک دستاویز پر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان نے دستخط کئے۔ اس کونسل کے اجلاس ہر سال باری باری تہران اور انقرہ میں ہوا کریں گے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ اس کونسل کی تشکیل سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دونوں ممالک اقتصاد سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ دو ہمسایہ ممالک کی حیثیت سے ایران اور ترکی کے تعلقات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی اور تعلقات میں آنے والے عارضی نشیب و فراز کبھی بھی ان تعلقات کی اہمیت میں کمی کا سبب نہیں بنے ہیں۔ اس لئے توانائي، تجارت اور حمل و نقل سمیت مختلف میدانوں میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں توسیع کا راستہ ہمیشہ ہی ہموار رہا ہے لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بعض عالمی طاقتوں اور ترکی کے یورپی پونین میں شامل ہونے کی دیرینہ خواہش کی وجہ سے ان مواقع سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھایا گيا ہے۔

خطے کے امور کے سلسلے میں ایران اور ترکی کے درمیان بہت سے مشترکہ مواقف کے باوجود دونوں میں اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک موجودہ حالات میں خطے میں قیام امن کے لئے مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ایران خطے کے حالات خصوصاً شام کے بحران کے سلسلے میں ترکی کے کردار پر تاکید کرتا ہے، جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے حکام کے مذاکرات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک شام کے عوام امن و سکون سے ہمکنار نہیں ہوجاتے ہیں۔ داؤد اوغلو نے بھی اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک اس سے پہلے بھی شام میں جنگ بندی کا مطالبہ کرچکے ہیں اور تہران اور انقرہ اس ملک میں تشدد کے خاتمے کے خواہاں ہیں۔ دونوں ممالک کے حکام نے عراق کی صورتحال کے بارے میں بھی اسی زاویۂ نگاہ کو مدنظر رکھا اور تاکید کی کہ عراق میں تشدد کا جلد از جلد خاتمہ ہونا چاہۓ، تاکہ مارچ میں اس ملک میں ہونے والے انتخابات آرام و سکون کے ماحول میں منعقد ہوسکیں۔ بہرحال تہران اور انقرہ نے باہمی تعاون کی اعلٰی کونسل کی تشکیل کا فیصلہ کیا ہے اور کہا گيا ہے کہ ترکی کے وزیراعظم کے دورۂ تہران اور ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے دورۂ ترکی کے موقع پر حتمی سمجھوتہ طے پا جائے گا۔ ان امور سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ تہران اور انقرہ تمام میدانوں میں باہمی تعاون میں توسیع کے سلسلے میں پرعزم ہیں۔

ایران اور ترکی ثقافتی لحاظ سے بھی بہت سے مشترکات کے حامل ہیں، دین اسلام کا نفوذ اور اہمیت اور دونوں ملکوں میں کردوں کی قابل ذکر آبادی، ثقافتی اشتراکات کا مظہر ہے۔ یورپ سے وسطی ایشیاء کا رابطہ، اور ایران و ترکی کے راستے ٹرانزٹ کا اہم کردار، اور ترکی کے لئے لازمی انرجی کی فراہمی وہ مسائل ہيں، جنھیں آسانی سے نظرانداز نہيں کیا جاسکتا۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان آمد و رفت، معمول کے سفارتی تکلفات سے بالا تر ہوچکی ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ ایران اور ترکی اپنے تعلقات میں نئے تجربے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ قصہ مختصر ابھی تک ایرانی اثر و رُسوخ نے خطے میں حالات کی بہتری میں مدد دی ہے اور ایران یہ نہیں چاہتا کہ عراق اور شام  امریکی ایما پر سعودی عرب جیسی علاقائی طاقتوں کے لیے نیا میدانِ جنگ بن جائیں، یہی وہ موقف ہے جو امریکی مفادات کے لئے مضر ہے۔ تاہم ایران سے متعلق امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ ایک ایسی حکمتِ عملی ترتیب دے جس کے ذریعے اس خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رُسوخ کو کم کیا جاسکے اور علاقائی ممالک خاص طور پر عراق، شام، ترکی اور تہران میں بڑھتے ہوئے فوجی و سیاسی تعلقات  بہتر نہ ہوسکیں۔ امریکہ عرصے سے ایران فوبیا اور دیگر بہانوں سے ایران کو خطے میں تنہا کرنا چاہتا ہے، لیکن شام میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی اور ترکی اور ایران کی قربت سے امریکہ کو ایک اور دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ اگر ترکی کے وزیراعظم کا حالیہ دورہ ایران کامیاب ہو جاتا ہے اور اس میں طے پانے والے معاہدے عملی جامعہ پہن لیتے ہیں تو اسے خطے کی سیاست میں امریکہ اور سعودی عرب کی ایک اور شکست قرار دیا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 346939
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

there was no news about turkey pm iran visit in pakistan media thanks islamtimes for providing this article.
maloomati article hay.BHAUT SHUKRIA
ہماری پیشکش