0
Monday 10 Feb 2014 13:35

جب حق آگیا۔۔۔!

جب حق آگیا۔۔۔!
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا، تاریکی نے روشنیوں کو قید کر لیا تھا، امیدیں دم توڑ چلی تھیں، مایوسیاں راج کر رہی تھیں، ناکامیاں اپنی کامیابیوں پر جشن مناتی تھیں، ظلم اپنے عروج پر تھا، فحاشی کا دور دورہ تھا، عیاشی کا ہر رنگ میسر تھا، طاقت کا گھمنڈ انسانوں کو فرعون بنائے ہوئے تھا، ایک ایسی اسلامی مملکت جس کے پاس تیل کے وسیع ذخائر موجود تھے، اس پر صیہونسٹ قابض ہوچکے تھا، دنیا بھر کی جاسوسی کا مرکز تہران بنا ہوا تھا، جہاں امریکہ نے اپنا ایک بہت بڑا سفارت خانہ جسے جاسوسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، قائم کر رکھا تھا، ملک کی بیشتر یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں سمیت اہم ترین منابع غیر ملکیوں کی براہ راست دسترس اور اختیار میں تھے، اس مملکت پر اڑھائی ہزار سال سے شہنشاہی نظام حکومت چل رہا تھا۔
 
ایسے میں ایک مرد قلندر نے نعرہ مستانہ لگایا او ر اس ملک و عوام کی تقدیر بدلنے کا عزم ظاہر کیا، ان کی آواز میں سچائی تھی، صداقت تھی، وہ پسے ہوئے مظلوم عوام کی امید تھے، ان کا شعار اللہ اکبر تھا، انہوں نے کہا کہ وہ اللہ اکبر کی طاقت سے مسلح ہیں، وہ خدا پر بھروسہ اور توکل کرنے والے تھے، وہ اپنے عزم اور ارادہ کی سچائی پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اس کے حصول کیلئے تمام رکاوٹوں سے ٹکرانے کی طاقت رکھتے تھے، ان میں قوت فیصلہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ روحانی و معنوی مقامات سے منزہ و لیس تھے، انہیں اپنی منزل کے حصول کا مکمل یقین تھا اور وہ ہر قسم کی قربانی اور ایثار کیلئے ہمہ وقت تیار تھے، انہیں دنیا کی کسی طاقت کا ذرا سا بھی خوف نہ تھا۔۔۔۔۔

لہذا جب انہوں نے ساٹھ کے عشرے کے آغاز میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو تمام خطرات اور مشکلات کو جھیلتے ہوئے ہر دن اپنی منزل کے قریب ہوتے گئے، یہاں تک کہ 11 فروری 1979ء کا سورج وہ پیغام لیکر طلوع ہوا جس کیلئے ہزاروں افراد قربان ہوگئے تھے اور جس کے بارے اڑھائی ہزار سال سے قابض شاہی خاندان اور اس کے سرپرستوں نے سوچا بھی نہیں تھا، مگر اس دن سے پہلے ہی شاہ فرار ہوچکا تھا، اور اسلامی انقلاب کا نقارہ بج چکا تھا، امام خمینی جو اس انقلاب کے بانی تھے، جب جلا وطنی ختم کرکے پیرس سے وطن لوٹے تو سب سے پہلے اس مقام پر گئے جہاں اس انقلاب کے ایثار گر اور قربانیاں پیش کرنے والے محو آرام تھے، اس جگہ کو دنیا بہشت زہرا تہران کے نام سے پہچانتی ہے، جہاں لاکھوں سپاہیان اسلام و فرزندان قرآن اسلامی انقلاب کے قیام، اس کی بقا اور مقدس دفاع کی جدوجہد میں سرخرو ہونے والے دفن ہیں۔

11 فروری 1979ء  کو آنے والے انقلاب کو امام خمینی نے انفجار نور کہا تھا، یہ واقعی نور کا دھماکہ تھا، اس سے ہزاروں سال سے قائم تاریکی اور اندھیروں کا راج ختم ہوگیا تھا، مایوسیاں امیدوں اور خوابوں کی عملی تعبیر میں بدلتی نظر آ رہی تھیں، غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر دور جا گریں تھیں، آزادی کے گیت اور نغمے پھر سے فضاؤں کو معطر کئے ہوئے تھے، خزاں کا موسم، بہار چلے آنے پر راہ فرار اختیار کر گیا تھا، انقلاب کی جدوجہد میں ہر عمر اور طبقہ فکر و حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا حصہ ڈالا، اپنا کردار ادا کیا، دنیا بھر میں اس انقلاب نے سوچوں کے زاویئے ہی بدل دیئے تھے، سیاست کے نئے رخ سامنے آگئے تھے، نہ صرف اسلامی ممالک اور تحریکیں ایک کامیاب مثال اور راستے کو پا چکے تھے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور ستم رسیدہ، پسے ہوئے انسانوں کو بھی ایک امید ہو چلی تھی کہ طاقتوروں کو زیر کیا جاسکتا ہے۔
 
اسلامی انقلاب ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے موجود تھا، اس سے قبل انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی مثالیں دی جاتی تھیں، مگر ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے کامیابی کی نئی روشیں اور انسانوں کی فلاح و بہبود اور حکومت کا نظریہء اسلامی متعارف کروایا تھا، بانی انقلاب ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر اور سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر اسلام کا آفاقی اور الٰہی پیغام دنیا کو دے رہے تھے کہ اسی میں ان کی آزادی و استقلال کا راستہ موجود تھا، انہوں نے تمام مظلوم اقوام کو دعوت دی کہ وہ ستم گروں اور ظالموں کے ہاتھ سے اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ کوئی ان پر مسلط ہو جائے۔

امام خمینی کے پیغام سے سب سے زیادہ خوف ایران کے پڑوس میں واقع ان عرب حکمرانوں کو ہوا جو عوام کو بادشاہت کے جبر تلے کئی برسوں سے روند رہے تھے اور ان کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالے بیٹھے تھے، ان عرب حکمرانوں کے سرپرستوں نے بھی محسوس کیا کہ اگر تبدیلی کی یہ لہر خطے کے دیگر عرب ممالک میں بھی پہنچ گئی تو اس کے مفادات جو پہلے ہی اس انقلاب کے بعد سخت خطرے سے دوچار ہوگئے تھے، انکا حصول ناممکن ہو جائے گا، لہذا ہم نے دیکھا کہ اسلامی انقلاب کی راہ میں پہلے دن سے ہی مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے، نوزائیدہ اسلامی انقلاب کو اندرونی سازشوں سے ختم کرنے کی کوششیں سامنے آئیں، جن کو بڑی حکمت و دانائی سے ناکام بنایا گیا اور ان سازشوں کو اس کے کرداروں سمیت دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا پڑا، انہی سازشوں کے توڑ میں ہی امریکی سفارت خانہ پر قبضہ اور اس کے اندر واقع جاسوسی مرکز اور اس سے وابستہ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ایرانی طلباء کے ہاتھوں یرغمال بنایا جانا ایک ناقابل فراموش، تاریخی کارنامہ ہے جس سے کئی اور واقعات جڑے ہوئے ہیں۔

ایران کے اسلامی انقلاب پر پہلے دن سے ہی اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں، اس کے اثاثے منجمد کر لئے گئے، (یہ اثاثے اب پینتیس سال گذر جانے کے بعد مذاکرات کے بعد قسط وار دینے کا وعدہ کیا گیا ہے) اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس انقلاب کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے اس کے بانیان، علماء، اسکالرز، اس کے اصل دماغوں اور اعلٰی حکومتی انقلابی شخصیات کو ٹارگٹ کرکے شہید کرنے کا سلسلہ چلایا گیا، جب اس سے کام نہ چلا تو ایران کے ہمسائے میں اپنے ایک مہرے صدام کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کر دی گئی، آٹھ سال تک اس مسلط کردہ جنگ میں ایک نوزائیدہ مملکت اسلامی کے مقابل ساٹھ کے قریب ممالک نے عراق کا ساتھ دیا، اور بھرپور مالی و فوجی مدد کی، تاکہ انقلاب کا خاتمہ ہوجائے، بیرونی حملہ آوروں کے سات ساتھ ایک گروہ ایسا بھی پیدا کیا گیا جس کے ذریعے داخلی انتشار و تخریب کا کام لیا گیا اور مشکلات کھڑی کی گئیں، تاکہ لوگ بیزار ہوجائیں اور حکومت اسلامی کا تختہ الٹ دیں، مگر دنیا نے دیکھا کہ تمام سازشیں ناکام ہوئیں، مسلط کردہ جنگ سے بھی وہ مقاصد حاصل نہ کئے جاسکے اور پابندیوں نے بھی اسلامی ایران کو نہ جھکایا بلکہ ایران اپنے بنیادی نعرے آزادی، استقلال، جمہوری اسلامی پر پینتیس سال سے ڈٹا ہوا ہے، جنگ اور آفات کے زمانے میں بھی اس مملکت نے انتخابات کو ایک دن کیلئے بھی ملتوی نہیں کیا، جو عوام کے جمہوری حقوق دینے کے وعدے کا پاس اور روشن مثال ہے۔

امام خمینی کی رہبری و سیادت میں لایا ہوا اسلامی انقلاب آج جب اپنے پینتیس سالہ سفر کو طے کرچکا ہے اور اس مملکت اسلامی کی عوام نے اس کی پینتیس بہاریں دیکھ لی ہیں، تو ایران آج ایک ایسی طاقت کے طور پر نظر آتا ہے، جس کو خطے کی سیاست سے نکالنا یا نظر انداز کرنا خطے کے مسائل میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے، اسی طرح ایران آج دنیا کی سیاست پر بھی اپنا بھرپور اثر رکھتا ہے، ایران کی طرف سے کئے گئے اعلان کئی اہم ممالک کی اکانومی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انقلاب کی جن لہروں کو دنیا نے بہار کے جھونکوں کی مانند محسوس کیا تھا، اسی کی بدولت مشرق و مغرب سے آزادی کی تحریکوں کو کامیابیاں ملیں اور آمریتوں سے چھٹکارا ملا، یہ الگ بات ہے کہ بعض ممالک کی قیادتوں نے اپنے ہاتھوں ہی ان کامیابیوں کو ناکامیوں سے دوچار کر لیا ہے۔

اس انقلاب کی سب سے اہم بات اس کا نظریہ ہے، جس کی وجہ سے اسے تمام تر مشکلات، مصائب، آفات، سازشوں، جنگوں، تخریبی کارروائیوں، اپنوں اور پرایوں کی بے رخیوں، الزامات اور مسائل کے انبوہ کے مقابل ہر لمحہ کامیابیاں ملیں، وہ نظریہ بے شک ولایت فقیہ کا الٰہی نظریہ ہے، یہی نظریہ حزب اللہ کو اسرائیل جیسے بدمعاش ملک کے مقابل کامیابیاں سمیٹنے کا جذبہ فراہم کرتا ہے، یہی نظریہ پینتیس سال تک پابندیوں کے شکار ملک کو ایک ترقی یافتہ، اعلٰی ٹیکنالوجی سے آراستہ مملکت بناتا ہے، یہی نظریہ ایک قوم کو دنیا کے سامنے سرخرو اور آزادی سے جینے کے گر سکھلاتا ہے اور اسی نظریہ پر قائم ہی اپنے ملک، وطن اور دین کے دفاع کیلئے لاکھوں لوگ خود کو پیش کر دیتے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ انقلاب کے چاہنے والوں اور بہی خواہوں کو اس نظریہ کی تقویت اور مضبوطی کیلئے کام کرنا چاہیئے، تاکہ اسلامی انقلاب کی خوشبو ہر سو معاشرہ کو معطر کرے۔

اسلامی انقلاب کی پینتیسویں صبح بہار کی مبارکباد کے اصل مستحق وہ خانوادگان اور سرفروش ہیں، جنہوں نے اس الٰہی پیغام جسے انہوں نے امام خمینی (رہ) کی زبانی سنا اور لبیک کہتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں قربانی کے ان مٹ نمونے پیش کرنے والی مائیں، جنہوں نے اپنے تین تین بچوں کو انتہائی خندہ پیشانی سے قربان گاہ میں بھیجا۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ اس انقلاب کو حضرت حجت ؑ کے انقلاب سے متصل فرمائے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 350108
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش