0
Thursday 13 Feb 2014 13:02

بھارت سے دوستی؟

بھارت سے دوستی؟
تحریر: سید محمد سبطین شیرازی

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات ہی علاقے کی فضا کو خوشگوار رکھنے میں ممد ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن تعلقات کی نوعیت اور ان کے نتائج کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے سرگرم عمل ہیں۔ وزیراعلٰی پنجاب جس امن مشن پر بھارت تشریف لے گئے تھے وہ کہاں تک نتیجہ خیز ثابت ہوا، یہ وقت بتائے گا۔ بھارت نے پاکستان کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا، اس کے ادارے اور سیاست آج تک اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھتے ہیں۔ اس حقیقت کے تناظر میں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ پاکستانی حکمران کس طرح برابری کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر کوئی رشتہ اخوت قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت مل کر پاکستان کے اندر انارکی پھیلانے اور تباہی و بربادی کا کھیل کھیل رہے ہیں، پاکستانی این جی اوز اور خفیہ ادارے اس بات کو منظر عام پر لا چکے ہیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی میں بھارت کا خفیہ ہاتھ موجود ہے۔

بلوچستان میں ہمیں جس مشکل ترین صورت حال کا سامنا ہے، اس کے بارے میں وہاں کے چیف منسٹر ڈاکٹر مالک نے صاف الفاظ میں یہ کہہ دیا ہے کہ اس میں ایک پڑوسی ملک کا عمل دخل ہے، جو وہاں پر بدامنی پھیلانے میں باقاعدہ ایک منظم کوشش کر رہا ہے۔ یہ بات بھی میڈیا پر دکھائی گئی کہ چمن کے قریب FC نے دو اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں پکڑیں، جن میں بم بنانے کے علاوہ تباہی و بربادی پھیلانے والے آلات بنائے جا رہے تھے۔ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے اندر فرقہ واریت، دہشت گردی، انتہا پسندی، مذہبی منافرت، پولیس، آرمی، رینجرز ملک کے حساس اداروں اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے میں اگرچہ بعض مقامی عاقبت نا اندیش آلہ کار بنے ہوئے ہیں، لیکن ان کے پیچھے بھارت کا ہی ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان بے شک بھارت کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھائے، مگر بھارت کو پاکستان کے ساتھ دوستی اور وہ بھی برابری کی بنیاد پر قطعاً منظور نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی، سیاچن کی کارروائیوں اور پاکستان کے دریاوں کا پانی روکنے کے منصوبوں میں بھارت کا درد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں 5 لاکھ سے زائد کشمیریوں کی شہادت، بے شمار اجتماعی قبروں کا انکشاف، بھارت کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دنیا بھارت سے پوچھے کہ کشمیر میں 7 لاکھ سے زائد فوج اور دوسری پیراملٹری فورسز کے ہزاروں افراد کیا کر رہے ہیں۔ ایک اخباری انکشاف کے مطابق حیدر آباد دکن کے فوجی آپریشن، جسے پولیس ایکشن کا نام دیا گیا، میں کم ازکم دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ آیئے اب پاکستان کے اندر کی صورت حال کا مشاہدہ کیجئے۔ گذشتہ چند سالوں میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں میں پچاس ہزار سے زائد بے قصور شہری لقمۂ اجل بنے، ایک طرف بھارت نے پاکستان کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا تو دوسری جانب ریاست کے اندر ریاست کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف بھارت پاک آرمی کے جوانوں کی شہادتوں کے درپے ہیں تو دوسری جانب ملک کے اندر پاک آرمی کے جوانوں اور آفیسرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہندوؤں کی مکارانہ مسلم کش تاریخ سب کے سامنے ہے۔ تقسیم برصغیر کے موقع پر تارا سنگھ وغیرہ کی کوتاہ بینی کی وجہ سے سکھوں سے مسلمانوں کا قتل عام کروایا گیا اور لاکھوں مسلمانوں کے خون سے بھارت کی سرزمین کو رنگین کیا گیا۔ یہی صورتحال اب پاکستان کے اندر پیدا کی جا رہی ہے کہ وزیرستان اور علاقہ غیر کے ان مسلمانوں کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، جو اسلام کی روح اور اسلامی اخوت کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔ ممکن ہے جس طرح اس دور میں سکھوں کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ ہمارے تمام مقدس مقامات پاکستان کے اندر ہیں اور مسلمان ہمارے دشمن نہیں، آج وزیرستان اور فاٹا کے مسلمانوں کو بھی یہ احساس ہوجائے کہ جن مسلمانوں کے خون سے ہم اپنے ملک کی سرزمین کو رنگین کر رہے ہیں اور اپنے ہی ملک کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، یہی ملک ہماری جاگیر، ہماری توقیر اور ہماری میراث ہے۔ آج بھارت، امریکہ اور اسرائیل یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے حصے بخرے کیے جائیں، اس کو چھوٹے چھوٹے خود مختار قطعات میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ آج کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان سے پاکستان کے بازوؤں کو جدا کرنے کی باتیں کر رہی ہیں، ملک کے اندر شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ دشمن کی سازش ہے جس کے پیچھے پاکستان اور اسلام دشمن عناصر کی دولت اور طاقت کارفرما ہے۔

اس گہری مماثلت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کی سوچ اور اس کے خمیر میں پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور وہ کوئی ایسا قدم اٹھانے سے نہیں باز آتا، جس میں پاکستان کی بقاء و سلامتی کو خطرہ درپیش ہو۔ بھارت تقسیم ہند کو اس وقت کا سیاہ اور غلط فیصلہ قرار دیتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان بھارت کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات کی بات کر رہے ہیں اور بعض اسلامی ممالک کے ساتھ آئے دن روابط مضبوط بنا رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس تحریک کو تقویت مل جائے، جو بنائے پاکستان اور بقائے پاکستان کے مخالف تحریک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن دشمن اور اسلام مخالف عناصر سے ایسی حکمت عملی کے ساتھ بات کی جائے گی، ان کی منطقی اصلاح کا کوئی موثر حل سامنے آسکے، تاکہ ملکی ترقی کا سفر جاری رہے اور کوئی شدت پسند قوت ملک کو یرغمال بنانے کی کوشش کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔
خبر کا کوڈ : 350571
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش