0
Wednesday 19 Feb 2014 16:47

مذاکرات کی ناکامی، اب مصلحت کوشی ہلاکت خیز ہو گی

مذاکرات کی ناکامی، اب مصلحت کوشی ہلاکت خیز ہو گی
تحریر: تصور حسین شہزاد

کالعدم تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان آخرکار ہونیوالے مذاکرات اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی دلی خواہش اور نیک نیتی کے باوجود شدت پسندوں کیساتھ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ مذاکراتی کمیٹی کی ہیئت ترکیبی دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ مذاکرات کا انجام کیا ہو گا، طرفین کی جانب سے مذاکرات کرنیوالے ایک ہی نقطہ نظر کے حامی ٹھہرے لہٰذا ایسے میں ان سے وابستہ توقعات کے نتیجہ خیز ہونے کی امیدیں عبث تھیں۔ میز کے دونوں جانب ایک ہی مائنڈ سیٹ کے لوگوں کی موجودگی نے بہت پہلے آشکار کر دیا تھا کہ کیا ہونیوالا ہے۔ مذاکرات کی میز سجتے ہی ملک بھر میں شورش پسندوں نے دہشتگردی کی وارداتوں میں یکدم اضافہ کر دیا۔ خاص طور پر سکیورٹی فورسز پر حملے اور کراچی و پشاور میں بم دھماکوں کی وارداتوں میں اضافے نے قیام امن کی کوششوں کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔

مذاکرات حوالے سے بہت پہلے نتائج اخذ کر لئے تھے کہ مذاکرات شدت پسندوں کا حربی وار ہیں، وہ عوامی امیج بہتر بنانے کیلئے بات چیت میں بھی شریک ہیں اور ان کے دیگر گروپ دہشت پھیلانے کی کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جس کا نقطۂ عروج گذشتہ روز مہمند ایجنسی میں یرغمال بنائے گئے ایف سی کے 23 اہلکاروں کا بہیمانہ قتل تھا۔ 2010ء سے شدت پسندوں کے پاس یرغمال بنے ان بدقسمت ایف سی اہلکاروں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں نے نہایت بےشرمی اور ڈھٹائی سے مذاکرات کی حمایت بھی کر ڈالی جسے سکیورٹی اداروں نے مضحکہ خیزی پر محمول کیا۔ درحقیقت شدت پسندوں کا یہ جارحانہ عمل حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کر اپنی شرائط منوانے کیلئے کیا گیا جس پر ریاستی اداروں میں اضطراب و بےچینی پھیلنا قدرتی امر تھا۔ اسی چیز کا احساس کرتے ہوئے وزیراعظم نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو بات چیت معطل کرنے کی ہدایات جاری کیں تو ردعمل میں شدت پسندوں کی طرف سے جواب آیا کہ ان کی اپنے حلیف دیگر عسکری گروپوں پر کوئی گرفت نہیں، اس لئے کہ تقریباً 63 دہشت گرد گروپوں میں سے صرف 35 کالعدم شدت پسند تنظیم کے زیراثر ہیں، باقی کے آزاد گروپوں میں سے چند حقانی نیٹ ورک، کچھ افغان طالبان اور باقی کے القاعدہ کیساتھ منسلک ہیں۔

منتشر دہشت گرد گروہوں میں سے چند لوگوں کیساتھ قیام امن کیلئے مذاکرات کی کوشش میں ساری ریاستی مشینری کو عضو معطل بنا کر رکھ دینا یقیناً دانش مندی نہیں تھی۔ عسکری ادارے نے اپنی آئینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے حکومتی فیصلے پر وقتی طور پر رضامندی ظاہر تو کر دی مگر ان کی تجزیہ کاری کی استعداد نے انہیں طاقت کے بھرپور استعمال کیلئے تیار رہنے پر مجبور کئے رکھا۔ سیاسی و مذہبی قیادت اس سارے عمل میں بٹی ہوئی نظر آئی۔ مذاکرات کی ہمنوائی وہ لوگ کر رہے تھے جو جان بوجھ کر حکومت کو اس دلدل میں دھکیل کر ناکام ہوتے دیکھنے کے خواہشمند تھے تاکہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔ حیران کن طور پر وزیراعظم کی اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) بھی مذاکرات کے مسئلے پر تقسیم نظر آئی۔ ایسے حالات میں جب سول و سیاسی و عسکری قیادت یکسو نہ ہو اور سامنے دہشتگردوں کے مختلف گروہ من مانی کارروائیاں کرنے میں آزاد ہوں، غیرملکی طاقتیں جن کی پشت پناہی کر کے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی گھناؤنی سازش کو کامیاب بنانے کیلئے سرگرم عمل ہوں وہاں مذاکراتی عمل نتیجہ خیز ہونے کی امید بر آنا معجزہ ہی ہونا تھا جو کہ نہ ہوا۔

اب حکومت کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ باقی نہیں بچا کہ وہ شدت پسندوں کو ریاستی طاقت کے ذریعے نشانِ عبرت بنا کے رکھ دے مگر بھرپور ریاستی قوت استعمال کرنے سے قبل اسے چند ایک اہم اقدامات لینا ضروری ہیں جن سے اولین سطح پر اسے میڈیا میں بیٹھے شدت پسندوں کے ایجنٹوں کی زبان بندی کرنا ہو گی۔ ہر ملک میں ریاست کو بچانے کیلئے ہنگامی حالت میں ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جو کہ معمول سے ہٹ کر ہوتے ہیں، ملکی سلامتی کیلئے اٹھائے گئے ان اقدامات کی ہر مکتبہ فکر اور ہر طبقہ حمایت کرتا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ وسیع تر ملکی مفاد میں ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ اس تناظر میں ہمارے مادر پدر آزاد میڈیا کیلئے ہنگامی طور پر کچھ حدود و قیود متعین کرنا ہوں گی۔ شورش پسندوں کیخلاف کئے گئے آپریشن، دہشتگردوں کے بیانات کی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں تشہیر اور اس پر تبصروں، تجزیات اور گمراہ کن پراپیگنڈے پر پابندی عائد کرنا ہو گی۔ میڈیا کی آزادی کے نام پر غیرملکی ایجنڈے پر کام کرنیوالے عناصر کو لگام دینا ہو گی۔

ملکی و قومی سلامتی اور بقا کیلئے ہر وہ اقدام کیا جائے جو ناگزیر ہے اس کیلئے اگر وقتی طور پر بنیادی حقوق کی آئینی شقیں بھی معطل کرنا پڑیں تو مضائقہ نہیں۔ 1973ء کے آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے دستور منظور ہوتے ہی اس میں دیئے گئے بنیادی حقوق چند دنوں بعد ہی ایمرجنسی کے نام پر اپنے پورے دور اقتدار میں معطل کئے رکھے تھے۔ اس وقت صرف بلوچستان میں شورش بپا تھی۔ آج تو پورا پاکستان ہی حالت جنگ میں ہے، جنگ کے دنوں میں بنیادی انسانی حقوق کا تعطل پوری دنیا میں روا سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر میڈیا پر تو وہ ملک بھی سنسر شپ نافذ کرنے میں حجاب نہیں کرتے جنہیں دنیا بھر میں انسانی حقوق کا پاسدار خیال کیا جاتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ دہشتگردی کیخلاف افغانستان میں امریکی و نیٹو فورسز کی اصل ہلاکتوں کی خبریں عالمی میڈیا پر نشرکرنے پر آج بھی سنسر شپ نافذ ہے۔ اسرائیل، فلسطینیوں اور بھارت کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کی خبریں نکلنے ہی نہیں دیتے۔ ہر ملک قومی سلامتی کے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ہنگامی حالات میں جو پالیسیاں وضع کرتا ہے سبھی کو ان کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔

ان تمام حالات کے برعکس ہمارے ہاں میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کے نام پر جس طرح کچھ عرصے سے فوج اور سکیورٹی اداروں کی کردار کشی کی جا رہی ہے ،اس سے ان فرض شناس سکیورٹی اہلکاروں کی دل شکنی ہوتی ہے، جو قوم و ملک کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کی قربانی دینے کے جذبۂ شہادت سے سرشار ہوتے ہیں۔ اگر مذاکرات کی ناکامی کا تجزیہ کیا جائے تو صاف عیاں ہو گا کہ اس بات چیت کو اس انجام تک پہنچانے میں میڈیا کے غیرذمہ دارانہ رویے نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے حکومت کو اس بات کا ادراک کرتے ہوئے حالت جنگ میں کئے جانیوالے اقدامات لینے میں تامل نہیں کرنا چاہئے۔ قومی و سیاسی و مذہبی قیادت کو صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے اپنے عسکری اداروں کا بھرپور ساتھ دینا چاہیئے کہ دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا پانے کیلئے اتحاد و اتفاق و یگانگت کا ماحول پیدا کرنا لازمی امر ہے، وگرنہ غیرملکی طاقتیں اپنے کھیل میں کامیاب ہونے میں لمحہ بھر غفلت نہیں کریں گی۔ حالات کی نزاکت کو سمجھ کر وسیع تر قومی مفاد میں فیصلے کرنا وقت کی آواز ہے، اس میں مصلحت کوشی ہلاکت خیز ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 353364
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش