0
Sunday 23 Feb 2014 19:06

پاک ایران روابط خطے کیلئے ناگزیر

پاک ایران روابط خطے کیلئے ناگزیر
تحریر: سید اسد عباس تقوی

قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاک ایران تعلقات انتہائی قریبی اور برادرانہ نوعیت کے ہیں۔ ان تعلقات میں گرمجوشی کی ایک بڑی وجہ پاکستان اور ایران کے علمی حلقوں میں بولی اور سمجھی جانے والی زبان فارسی ہے۔ پاکستان کی گذشتہ نسلیں حافظ و شیرازی کی گرویدہ ہونے کے ساتھ فارسی میں کمال مہارت رکھتی تھیں۔ ان تعلقات میں گہرائی کا ایک اور عنصر فارس کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے مختلف قبائل کا ہمیشہ کے لیے پاکستان کو اپنا دیس بنا لینا بھی ہے۔ لاہور کے قزلباش ہوں یا پورے ملک میں بسنے والے سادات کے مختلف خانوادے، ان خانوادوں کے ساتھ آنے والے دیگر خاندان منجملہ میاں، قریشی، بگوی سبھی فارس کے باسی تھے۔ آج بھی یہ خاندان جب اپنے بزرگوں کی دستاویزات اور آثار کو دیکھتے ہیں تو انھیں اپنے اجداد کی زمین فارس کی خوشبو ضرور آتی ہے۔ ان وابستگیوں کے علاوہ پاکستان اور ایران کے عوام کا ایک ہی دین کا پیروکار ہونا دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو اپنے عروج پر پہنچا دیتا ہے۔

ایران پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی ان تعلقات کو مزید پختہ کرنے کے لیے اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، قائد اعظم چاہتے تھے کہ تمام مسلمان ممالک ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں انھوں نے اپنے پیغام میں کہا: میں تمام مسلمان ممالک کو دوستی اور اعتماد کا پیغام دیتا ہوں، ہم سبھی اس وقت ایک پرخطر دور سے گزر رہے ہیں۔ فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں طاقت کی سیاست کا جو ڈرامہ ہمارے سامنے رچایا گیا، سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ ہم اتحاد کے ذریعے ہی اپنی آواز کو ایوان عالم میں پہنچا سکتے ہیں۔

تربیت یافتہ افراد کی کمی کے باوجود قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان کے اہم رکن راجہ غضنفر علی خان کو ایران میں سفیر کے طور پر تعینات کیا۔ اس وقت تک پاکستان کے سفراء صرف چھ ممالک میں کام کر رہے تھے۔ اسی طرح ایرانی قوم نے قائد اعظم ریلیف فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیا، جس سے پاکستان اور ایران کے تعلقات مزید پختہ ہوئے۔ اس بات کا اظہار قائد اعظم محمد علی جناح نے 8 اپریل 1948ء کو ایرانی وفد کی پاکستان آمد کے موقع پرایک انٹرویو کے دوران ان الفاظ میں کیا:
یہ خصوصی وفد ایرانی قوم کا اپنے برادر اسلامی ملک کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کے حوالے سے تیسرا اظہار ہے۔

پاکستان اور ایران 1955ء تک سرد جنگ کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد سینٹو کا حصہ تھے۔ 1964ء میں پاکستان اور ایران نے ترکی کے ساتھ مل کر علاقائی تعاون کی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ 1965ء کی جنگ میں ایران نے پاکستانی حکومت اور افواج کو فوجی اور مالی تعاون مہیا کیا اور ایران کے سفارتی حلقوں نے پاکستان کے دفاع کو ایران کے دفاع کے مترادف قرار دیا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستانی افواج کو فوجی، اخلاقی اور سفارتی تعاون مہیا کیا، ایرانی حکومتی حلقوں نے انڈیا کے اقدام کو جارحیت اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ شاہ ایران نے پیرس کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم سو فیصد پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے 93000 جنگی قیدیوں کو ملک واپس لانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ 1974ء میں شاہ ایران نے بلوچستان میں اٹھنے والی ایک بغاوت کو کچلنے میں پاکستانی افواج اور حکومت کی مدد کی۔ 1976ء سے 1977ء تک مختلف مواقع پر ایران نے پاکستان اور افغانستان کے مابین مصالحتی کردار ادا کیا اور ڈیورنڈ لائین کے معاملے پر گفت و شنید کی بنیاد رکھی۔

انقلاب اسلامی ایران کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر بدل گئی اور پاک ایران تعلقات پہلے کی مانند گرمجوش نہ رہے۔ جس کا بنیادی سبب پاکستانی حکومت کا شاہ ایران اور امریکہ سے تعلق تھا۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی ایک دوسرے سے تقریباً متصادم ہوگئی، جہاں ایک جانب پاکستان طالبان کو مدد کررہا تھا وہیں ایران نے شمالی اتحاد کی حمایت کی، تاہم اس کے باوجود کبھی بھی براہ راست تصادم کی صورت سامنے نہ آئی۔ وسطی ایشاء کی ریاستوں کی آزادی بھی دونوں ممالک کے مابین ایک مقابلے کا میدان بنی، چونکہ دونوں ممالک چاہتے تھے کہ یہ ریاستیں گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے ان ممالک کے وسائل رسل و رسائل سے استفادہ کریں۔ اس میدان میں ہندوستان نے ایران کے ساتھ ہم آہنگی کی کوشش کی، تاکہ پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے سے دور رکھا جاسکے۔ 9/11 کے بعد پاکستان ایک مرتبہ پھر فرنٹ لائن ریاست کی صورت میں سامنے آیا اور افغانستان میں طالبان نیز القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی بنا۔ اس حوالے سے بھی ایران کے بہت سے تحفظات ہیں۔

اس سب کے باوجود اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ممالک خطے میں اہم حیثیت کے حامل ہیں، تاریخی برادرانہ تعلقات کی روشنی میں دونوں ممالک میں سے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں کہ وہ دوسرے سے مکمل طور پر لاتعلق ہوجائے یا اس کے مفادات یا مسائل کو پیش نظر نہ رکھے۔ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلاء سے پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں ان تعلقات میں گہرائی کی ضرورت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے حالیہ بیانات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دوطرفہ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ قائم رہے اور وہ معاہدے جو گذشتہ ادوار حکومت میں طے پائے ہیں، کو عملی شکل دینے کی کوئی سبیل کی جائے۔ حکومت پاکستان امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے اسی قسم کا کوئی معاہدہ چین یا روس سے بھی کرسکتی ہے۔ ایران کے تحفظات کو کم کرنے کے لیے پاکستان ایران اور سعودیہ کے مابین مصالحتی کردار اپنا کر اپنی حیثیت واضح کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس مصالحتی کوشش سے مذکورہ بالا دونوں ممالک کو بھی ایک دوسرے کے قریب لانے نیز شام کے معاملے میں کسی بہتر حل تک پہنچنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔

ایران سے قربت افغانستان میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اس کے سبب بلوچستان نیز فاٹا میں ہونے والی مداخلت سے نمٹنے کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو وضع کرنا ہے، جس میں ہمیں اپنے قومی مفادات کے ساتھ ساتھ اپنے تاریخی دوستوں کے تحفظات کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے پاکستان، ایران اور افغانستان کے باسیوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بھی قوت کسی بھی بیرونی ایجنڈے یا فقط اپنے مفادات کے تحفظ کے نظریے کے تحت اقدام کرتی ہے تو یقیناً خطے کی دیگر اقوام کے مفادات پر زک پہنچے گی جس سے ان ممالک کے آپسی تعلقات مزید کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ تزویراتی گہرائی کے نظریہ کا یہی تقاضہ ہے کہ خطے کے یہ تینوں اہم ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں اور افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل نیز وسطی ایشائی ریاستوں کے گرم پانیوں تک رسائی، باہمی تجارت اور اسی قسم کے دیگر مسائل پر سیر حاصل گفتگو کے ذریعے قابل عمل حل تلاش کریں، جس سے ان ممالک میں امن و امان کے ساتھ ساتھ باہمی اعتماد کی فضا بھی قائم ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 354736
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش