0
Tuesday 25 Feb 2014 10:22

کیا ایسے آتی ہے جمہوریت؟

کیا ایسے آتی ہے جمہوریت؟
تحریر: سید اسد عباس تقوی

گذشتہ دنوں سویٹزرلینڈ کے شہر مونٹریکس میں شام میں امن کے قیام کے لیے جنیوا ٹو مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں شامی حکومت کے ساتھ ساتھ مغرب اور خلیجی ممالک کی حمایت یافتہ حزب مخالف کے چند گروہوں نے بھی شرکت کی۔ جنیوا ون کی طرح جنیوا ٹو میں بھی امن کے قیام لیے کوئی خاص پیشرفت نہ ہوسکی۔ مذاکرات میں دونوں حریف شام میں قیام امن کے لیے واضح حکمت عملی کو وضع کرنے سے قاصر رہے۔ مغرب اور خلیجی ممالک کے حمایت یافتہ اتحاد میں شامل کئی ایک جماعتیں ان مذاکرات میں شامل نہ ہوئیں۔ اسی طرح میدان میں لڑنے والے جنگجو گروہوں کے نمائندگان بھی ان مذاکرات میں موجود نہ تھے۔ کرد پارٹی ان مذاکرات میں الگ حیثیت کے ساتھ شریک ہونا چاہتی تھی، جس کی اجازت نہ ملنے پر وہ بھی مذاکرات سے باہر رہی۔

احمد جربا جو شامی حزب اختلاف کی سربراہی کر رہے تھے، کی ان مذاکرات میں شرکت کے سبب حزب مخالف کے سب سے بڑے اتحاد سیرین نیشنل کونسل نے شامی حزب اختلاف سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ اتحاد میں شامل بچی کھچی جماعتیں جو جنیوا ٹو میں شریک ہوئیں، کا موقف تھا کہ شام میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جبکہ بشار الاسد کا اس حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ان کا موقف تھا کہ یہ عبوری حکومت شام میں انتخابات کا انعقاد کروائے۔ شام کے حکومتی نمائندگان جو ان مذاکرات میں شریک ہوئے، کا کہنا تھا کہ موجودہ حزب اختلاف شام کے حالات کو کنڑول کرنے کی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتی۔ شامی عہدیداروں نے اس حوالے سے حزب اختلاف کی جماعتوں میں پائے جانے والے آپسی اختلاف نیز میدان میں لڑنے والے مختلف گروہوں کی عدم نمائندگی کو جواز بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ حزب اختلاف کسی طرح بھی شامی عوام کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتی۔

ان مذاکرات میں تقریباً سبھی فریقوں پر واضح تھا کہ شام میں بہت سی ایسی قوتیں بھی سرگرم عمل ہیں جو نہ تو مذاکرات کے اس عمل کو قبول کرتی ہیں اور نہ ہی مذاکرات میں شامل کسی بھی گروہ کے تحت کام کر رہی ہیں۔ بالفرض اگر امن کی کوئی صورت نکل بھی آئے تو زمین پر اس کو نافذ کرنا فی الحال ناممکن ہے۔ اس حوالے سے حمص میں وقتی جنگ بندی کے معاہدے کی مثال دی گئی، جہاں جنگ بندی کے باوجود اقوام متحدہ کے کارکنوں کے قافلوں پر حملے کیے گئے۔ مذاکرات کے دوران شامی حکومت کا یہی موقف رہا کہ پہلے ہمیں مل کر ملک میں جاری شدت پسندی اور دہشت گردی کو روکنا چاہیے۔ شامی حکومت کے عہدیداروں نے ان مذاکرات میں واضح طور پر مغرب اور خلیجی ممالک کی پالیسی کو ہدف تنقید بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ایک جانب تو یہ ممالک شام میں امن کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں اور دوسری جانب شام میں لڑنے والے جنگجوؤں کو ہتھیار اور دوسری سہولیات بہم پہنچا رہے ہیں۔ شامی وزیر خارجہ ولید المعلم کا کہنا تھا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ ملک میں جاری دہشت گردی اور القاعدہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کرے۔ بات گالم گلوچ اور دھکم پیل پر ختم ہوئی۔

سوال یہ ہے کہ مذاکرات کی ضرورت اس وقت کیوں محسوس کی گئی؟ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے تمام تر جنگی ذرائع کے استعمال اور اس میں ناکامی کے بعد مذاکرات، آخر کیوں؟ شام کے حالات سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ القصیر میں کامیابی کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ شامی افواج مختلف معرکوں کو سر کر رہی ہیں۔ جنگجوؤں کی آپسی لڑائیوں اور مختلف علاقوں پر قبضے کی کوششوں نے بھی ملک میں جاری بدامنی کو ایک نئی شکل دے دی ہے۔ احرار الشام، داعش، النصرہ فرنٹ اور جیش الحر نے بہت سے معرکوں میں ایک دوسرے کے بڑے بڑے عہدیداروں کے قتل کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی طرح کردوں نے داعش کو اپنے اکثریتی علاقوں سے نکالنے کے لیے ایک محاذ کھول رکھا ہے۔ داعش تیل سے مالا مال علاقے دیر الزور سے نکل کر عراق کی سرحدوں سے متصل علاقوں کی جانب پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس موقع پر مذاکرات کا مطلب معاملات کو طول دینے کے سوا کچھ نہیں۔ بہرحال شامی حکومت نے بہتر پوزیشن میں ہونے کے باوجود مذاکرات میں شمولیت کی، جو اس حکومت کی دانش مندی کی دلیل ہے۔

مذاکرات میں ناکامی بدیہی تھی۔ جنیوا ٹو کے ذریعے شام میں حزب اختلاف کی حامی مغربی قوتوں اور ان کے خلیجی ہمنواؤں نے جنگ کے میدان میں ہاری ہوئی بازی کو مذاکرات کی میز پر جیتنے کی کوشش کی، جسے شامی حکومت نے ناکام بنا دیا۔ وہ قوتیں جنھوں نے اس جنگ کو بھڑکانے اور اسے طول دینے کے لیے وسائل پانی کی مانند بہائے، اس دلدل میں خود پھنس چکی ہیں۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارا نہیں کہ وہ جنگ کے میدان میں واپس پلٹیں کیونکہ امن کی صورت میں شام میں بھیجے گئے جنگجو بذات خود ایک بہت بڑا عذاب ہیں۔ ان حکومتوں کی نیندیں یہ سوچ کر حرام ہوجاتی ہیں کہ دنیا کی 50 ملکوں سے آئے ہوئے سوا لاکھ سے زیادہ جنگجو اگر شام سے فارغ ہوگئے تو ان کی مستقبل کی سرگرمیاں کیا ہوں گی۔ حالات نے وقت کے ساتھ ساتھ نکھرنا شروع کر دیا ہے۔ مہرے اور پیادے بدلے جا رہے ہیں۔ 

سعودیہ نے امریکہ کے کہنے پر حال ہی میں شہزادہ بندر بن سلطان کو شام کے معاملات سے علیحدہ کر دیا اور ان کی جگہ شام کے معاملات کا انچارج شہزادہ نائف بن سلطان کو بنا دیا، جو القاعدہ کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہے ہیں۔ شہزادہ بندر بن سلطان کے بارے میں امریکیوں کی رائے تھی کہ وہ شام میں تکفیریوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ شام میں دوسری بڑی تبدیلی جیش الحر کے سربراہ جنرل سلیم ادریس کی جگہ برگیڈیئر جنرل عبداللہ البشیر کی تعیناتی ہے۔ جسے شام کے جنگجو حلقوں میں نہایت تشویش سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک لبنانی روزنامے کے مطابق برگیڈیئر جنرل عبداللہ البشیر کچھ عرصہ قبل ایک معرکے میں شدید زخمی ہوئے تھے اور ان کا علاج مقبوضہ گولان میں قائم ایک اسرائیلی ہسپتال میں کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت بھی شام کے تقریباً سات سو جنگجو اس اسرائیلی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ان جنگجوؤں سے ملاقات اور عیادت آج کل اخباری شہ سرخیوں کا حصہ ہے۔

جنیوا ٹو کے آخری دن جب یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ان مذاکرات سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلنے والا نہیں تو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ جنگجوؤں کو جدید ہتھیار جن میں کندھے پر رکھ کر چلائے جانے والے اینٹی ایئر کرافٹ اور اینٹی ٹینک میزائل شامل ہیں، مہیا کرے گی۔ قارئین کرام آپ کو یاد ہوگا کہ شام میں یہ جنگ جمہوریت کے قیام کے لیے شروع کی گئی تھی، لیکن آج اس دیس میں جمہور کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دو وقت کی روٹی کھانے والے مزدور کو بھلا اس سے کیا کہ بشار الاسد ہو یا کوئی اور، اسے تو ملک میں امن اور روزگار چاہیے۔ کیا ایسے آتی ہے جمہوریت۔؟
خبر کا کوڈ : 355128
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش