0
Saturday 1 Mar 2014 23:50

نواز حکومت کا یو ٹرن

نواز حکومت کا یو ٹرن
تحریر: محمد علی نقوی

آج یہ خبر زبان زد خاص و عام ہوچکی ہے کہ شام میں سرگرم عمل دہشتگردوں کے لئے پاکستان سے خریدے ہوئے ہتھیاروں کی کھیپ اردن پہنچ چکی ہے، جہاں سے اسے بہت جلد شام میں سرگرم دہشت گردوں تک پہنچا دیا جائے گا۔ کویت کے اخبار السیاسۃ نے چند دن پہلے یہ رپورٹ دی تھی کہ ایسی مصدقہ خبریں موصول ہوئی ہیں کہ اردن کی عقبہ بندرگاہ پر پاکستان سے خریدے ہوئے ہتھیاروں کی کھیپ اتارلی گئی ہے۔ واضح رہے چند دن پہلے روس نے سرکاری طور پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان سے جدید قسم کے ہتھیار خرید کر انھیں شام میں سرگرم عمل دہشتگردوں کو فراہم کرنے سے حالات مزید بحرانی ہوسکتے ہیں۔ روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں میڈیا کی ان رپورٹوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب، پاکستان سے اینٹی ٹینک اور اینٹی ائیرکرافٹ میزائل خرید کر دہشتگردوں کو دینا چاہتا ہے۔ دریں اثنا جرمن نیوز نے اطلاع دی ہے کہ شام میں حکومت کے خلاف برسرپیکار دہشتگردوں کی متحدہ کمان تشکیل دی گئی ہے۔ ادھر لبنان کے فرانسیسی اخبار لوریان لوژور نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی عرب، شام میں دہشتگردوں کو پاکستان سے خریدے ہوئے پیشرفتہ ہتھیار فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لبنانی اخبار نے اپنی اشاعت میں لکھا ہے کہ سعودی عرب، شام میں سرگرم عمل تکفیری دہشتگردوں کو متحد کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور پاکستان سے اینٹی ائیرکرافٹ اور اینٹی ٹینک ہتھیار حاصل کرکے دہشتگردوں کو دینا چاہتا ہے۔

عالمی میڈیا کے علاوہ پاکستان کے چند معروف تجزیہ نگاروں من جملہ نذیر ناجی اور روؤف کلاسرہ نے اس موضوع پر حکومت پاکستان پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے آگ سے کھیلنے سے تعبیر کیا ہے۔ پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے باہمی تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب نے حال ہی میں شام میں خونریزی کے خاتمے کے لیے بشار الاسد حکومت کی جگہ نئی عبوری حکومت قائم کرنے کے حوالے سے جو فیصلے کئے ہیں، اس نے خطے کی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ فریقین نے جنیوا قرارداد کے مطابق شام میں امن بحال کرنے اور وہاں کے لوگوں کا قتل عام روکنے کے لیے حالیہ بحران کا فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مغربی میڈیا میں یہ حیرت انگیز دعویٰ بھی کیا گیا کہ شام میں بشار حکومت کے خلاف لڑنے والوں میں القاعدہ کے جنگجو بھی شامل ہیں اور امریکہ جو دنیا بھر میں القاعدہ کے خلاف دہشتگردی کی جنگ لڑ رہا ہے وہ شام میں القاعدہ کے جنگجووں کی جدید اسلحے اور ڈالروں سے کمک جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب پاکستان اور سعودی عرب کی طرف سے شام میں بشار الاسد حکومت کی جگہ عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے سے صورتحال میں ایک نیا موڑ پیدا ہوگیا ہے۔ اس سے واضح ہوا ہے کہ شام کی صورت حال کے حوالے سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوچکی ہے اور دونوں ملکوں کا اس حوالے سے ایک ہی موقف ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے جو ملاقات کی ہے، اس میں شام کے حوالے سے دونوں ملکوں کے موقف میں ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔

مبصرین کے مطابق اس قسم کی خارجہ پالیسی واضح طور پر پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے اور شام کے حوالے سے بدلتا ہوا موقف عالم اسلام کے ساتھ خیانت ہے۔ پاکستان کی تمام جمہوری قوتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی امداد سے قائم ہونے والے سترہ ہزار مدارس اور ان میں موجود دہشت گردانہ ذہنیت رکھنے والے چوبیس لاکھ طلبہ پاکستان کی پرامن فضا کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان کے تعلقات سب کے ساتھ ہونے چاہیں، لیکن موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی سعودی نواز ہے، شام کے مسئلے پر پالیسی میں تبدیلی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے، عوامی امنگوں کے برعکس، پاکستان کو دہشت گردوں کے بلاک میں لا کھڑا کیا ہے۔ شام کے حوالے سے نواز حکومت کا یو ٹرن پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

پاکستان اس وقت امریکہ کی ایک جنگ میں شریک ہے اور اس جنگ نے پاکستان کو ایک ایسی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے کہ وہ چاہے بھی تو اس سے آسانی سے نہیں نکل سکتا۔ پاکستان کو طالبان، القاعدہ اور انتہا پسندی کیصورت میں ملنے والے تحائف افغان جنگ سے ہی ملے ہیں۔ اب اگر سعودی ایما پر پاکستان کو جنگ میں دھکیلنے کی سازش ہو رہی ہے تو اسے پاکستان کے سیاسی استحکام کے خلاف ایک اور سازش سمجھنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیراعظم کو پرویز مشرف سے نجات دلائی تھی اور انہیں اپنے ذاتی محلوں میں ٹھرایا تھا، لیکن اس احسان کا بدلہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو دباؤ پر لگا کر تو نہیں اتارہ جاسکتا۔ شام اور سعودی عرب دو عرب ملک ہیں، ممکن ہے کل کسی مصلحت اور علاقائی تعاون کی بنیاد پر دونوں ایک ہو جائیں، ایسی صورت حال میں پاکستان کی کیا پوزیشن ہوگئی، پاکستان کی وزارت خارجہ کے پالیسی سازوں کو اس پر سوچ بچار کرنا ہوگی۔ یوں بھی اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے شام کے موجودہ صدر بشار اسد کو ابھی تک ایک ملک کا باقاعدہ سرکاری صدر سمجھتے ہیں اور سعودی ایما پر پاکستان  کا شام میں ایک عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے۔

کیا مستقبل میں پاکستان میں کسی اپوزیشن جماعت کے مطالبہ پر شام کے حکام  پاکستان میں نواز شریف کی حکومت کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے پاکستان میں عبوری حکومت کی قیام کا مطالبہ کر دیتے ہیں تو پاکستان کا کیا ردعمل ہوگا۔؟ دوسری طرف پاکستان کے وزیرِاعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ شام کے بارے میں پاکستان کی پالیسی اصولوں پر مبنی ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں شام کے بارے میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے دباؤ کی وجہ سے شام کے تنازعے کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انھوں نے شام میں باغیوں کے لیے اسلحے کی فروخت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت یا کسی دوسرے ملک پر اپنا ایجنڈہ مسلط کرنے کے خلاف ہے۔ خیال رہے کہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اتوار کو ایک خبر میں ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاملات طے پانے کی صورت میں سعودی عرب پاکستان سے طیارہ شکن اور ٹینک شکن راکٹ اور میزائل خریدے گا، جو شام میں باغیوں کو فراہم کیے جائیں گے۔ 

سرکاری ریڈیو کے مطابق مشیر خارجہ کے بقول پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور وہ نہ صرف قانونی طریقہ کار اور تمام متعلقہ قومی اور بین الاقوامی قواعدو ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد کے پاکستان کے دورے کے موقع پر فریقین نے صرف دفاع کے شعبے میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان شام کی خود مختاری اور علاقائی استحکام اور تمام فریقوں کی طرف سے جنگی کارروائیاں بند کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ شامی باغیوں کو اسلحے کی فراہمی کی اطلاعات پر حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے وضاحت طلب کی تھی جبکہ مقامی ذرائع ابلاغ پر بھی اس معاملے پر تنقید کی گئی تھی۔ اے ایف پی کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورۂ پاکستان کے موقع پر بھی اس بارے میں تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے سعودی حکومت نے شامی صدر بشار الاسد کی حامی فوج کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں کو جدید اسلحہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں سعودی اور پاکستانی حکام کے درمیان بات چیت بھی ہوئی ہے۔
 
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب طیارہ شکن میزائل "عنزہ" خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور یہ اسلحہ اردن کے راستے شام میں برسرِ پیکار باغیوں کو بھیجا جائے گا۔ اے ایف پی نے اپنی خبر میں یہ بھی کہا کہ اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جبکہ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورۂ پاکستان کے موقعے پر بھی اس بارے میں تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعلقات میں گرم جوشی کی خبریں کچھ عرصے سے گرم ہیں اور گذشتہ برس بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں متعدد ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور سعودی عرب جب چاہے، پاکستان سے یہ ہتھیار حاصل کرسکتا ہے۔ تاہم اس وقت بھی پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے "بے بنیاد، شرانگیز اور فرضی" قرار دیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 356987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش