0
Monday 30 Aug 2010 17:03

ایران کے خلاف جنگ کی تیاریاں

ایران کے خلاف جنگ کی تیاریاں
واشنگٹن کے ایوانوں میں طبل جنگ کی آواز پھر سے بلند ہوتی جا رہی ہے۔صیہونی ٹولہ اور اس کے امریکی ہم پیالہ ایک نئی جنگ شروع کرنے میں مگن نظر آتے ہیں۔گو کہ امریکا ابھی افغانستان میں اپنے زخم چاٹنے میں مصروف ہے،ادھر عراقی شاخسانہ کا بھی مستقبل قریب میں کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔لیکن پھر بھی صیہونی طاقتوں کو ٹوٹتی امریکی کمر پر یہ بوجھ کم لگ رہا ہے،جو اُس کے ناتواں کندھوں پر رکھ کر وہ اپنی بندوق چلا رہے ہیں۔یہ جنگ شروع کرنے والے کردار بہت گھسے پٹے ہیں،جن سے ایک دنیا واقف ہے۔ بل کرسٹل،روئیل مارک گرشیڈ،نارم پُاڈہارٹز،رچرڈ پارلے،ڈینیل پائینز،ڈک چینی اور کن ایڈل من۔ 
یہ وہی لوگ ہیں،جنہوں نے 2003ء کی عراقی جنگ میں امریکا کو یہ کہہ کر دھکیلا تھا کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں،جن سے نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔باوجود اس جنگ میں سات سال رہنے کے آج تک اس طرح کے ہتھیاروں کی کھیپ تو کیا،مٹھی بھر مقدار بھی ہاتھ نہیں لگی۔پارلے صاحب نے تو ببانگ دہل امریکی سینیٹ میں یہ اعلان کیا تھا کہ عراقی جنگ کی قیمت عراق سے حاصل ہونے والے تیل سے پوری ہو جائے گی۔اس وقت کے امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے تو یہ دعویٰ تک کیا تھا کہ یہ جنگ چھ مہینے میں ختم  ہو جائے گی۔یہ چھ مہینے سات سال سے پورے ہونے میں نہیں آ رہے۔عراقی کی جنگ شروع کرنے میں نام نہاد آزاد امریکی میڈیا نے بہت جانبدارانہ کردار ادا کیا تھا۔ 
اب ایران کے معاملے میں بھی وہی روش اختیار کی جا رہی ہے،امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پے نیٹا نے ایک بیان میں کہا کہ ایران اگر ابھی فیصلہ کرے تو دو سال میں جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔وال اسٹریٹ جرنل نے اس کی شہ سرخی کچھ یوں لگائی کہ ”ایران جوہری بم کی تیاری سے صرف دوسال دور،جو نہ صرف اسرائیل،یورپ بلکہ دوسرے ممالک کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔“ صیہونی میڈیا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بم ایک ہی سال میں تیار ہو سکتا ہے۔ویسے وہ یہ راگ 1996ء سے الاپ رہا ہے،جنہیں اب خود اسرائیلی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔یہودیوں کا نسلی تفاخر ان تمام جنگی تیاریوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔اُن کے لیے انسانی جان کا مطلب صرف ایک اسرائیلی کی جان ہے اور باقی جانوں کی قیمت ان کے لیے پتھروں جیسی بھی نہیں۔سلامتی ان کے لیے سب سے مقدم ہے۔پر ایک ایسے خطرے سے جس کا کوئی وجود نہیں،یہ پیش بندی ایک ڈھکوسلے سے زیادہ نہیں۔
 درحقیقت اسرائیل کو باہر کی نسبت اس کے اندر پکنے والے نسلی امتیاز سے زیادہ خطرہ ہے۔جو ایک ہی ملک (اسرائیل) میں رہنے والوں میں تفریق کرتا ہے۔اس میں سب سے اونچے درجے پر اشکنازئی،یورپ اور شمالی امریکا سے آنے والے شامل ہیں۔اس کے بعد روس اور مشرقی یورپ سے آنے والے یہودیوں کی باری آتی ہے۔پھر نمبر آتا ہے سفراڈیم اور فلاشا کے یہودیوں کا۔اس نسل پرستی میں سب سے نچلے درجہ پر وہ فلسطینی عرب ہیں،جو صدیوں سے وہیں آباد ہیں۔اسرائیل نے اپنے شہریوں کی تعداد دنیا بھر سے جمع کیے ہوئے یہودیوں سے بڑھائی ہے۔لیکن عدم تحفط اور عدم سلامتی نے ان لوگوں کو بہت مایوس کیا ہے۔آہستہ آہستہ یہ لوگ اس طرز زندگی سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔انہیں یہ جگہ وہ نہیں لگتی،جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ان متنفر ہونے والوں میں یورپ اور مشرقی یورپ کے لوگ سرفہرست ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ طلب ان افراد کا مقصد امریکہ کو ایک کے بعد دوسری جنگ میں مصرورف رکھنا ہے،ان عالمی طاقتوں میں امریکا سب سے اوپر ہے،ابھی افغانستان اور عراق سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلاء کے مبہم سے امکانات کی بات شروع ہوئی تھی کہ ایران کے خلاف الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ان چیزوں کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔امریکی کانگریس میں بھی اُن لوگوں کی کمی نہیں جو اسرائیلی ہمدردوں کے ہم نوالہ وہم پیالہ ہیں۔اس کا واضح ثبوت ریپبلکن پارٹی کے ایک تہائی سے زائد ارکان کا اس قرارداد پر دستخط کرنا ہے،جس کی رو سے ایران پر فوجی حملہ جائز قرار دیا ہے۔لوئس گوہمرٹ کی سرکردگی میں تیار ہونے والی اس قرارداد میں ایران کے خلاف ہر ممکن قدم کی حمایت کی گئی ہے،جس میں فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ 
اس طرح کی قرارداد کسی اعلان جنگ سے کم نہیں،وہ بھی ایک ایسے ملک کے خلاف جس نے امریکا سمیت کسی بھی ملک کے خلاف حملے کا ارادہ نہیں کیا۔غور سے دیکھیں تو اس طرح کا عمل جنگی جرائم کی مد میں آتا ہے۔صدر امریکا باراک حسین ابامہ نے یکم جولائی سے ایران کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت کر دیا۔یہ کارروائی سلامتی کونسل کی قرارداد 1929ء کی خلاف ورزی ہے،جسے 9 جون کو منظور کیا گیا۔اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ پابندیوں کو مزید سخت کرنے سے پہلے سے ازسرنو بات چیت ضروری ہے۔موجودہ کارروائی میں اسے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ حالانکہ ایران کے وزیر خارجہ منوچہر متقی کا جولائی کے آخر میں بیان بھی آیا کہ حالیہ رمضان کے آخر تک ایران اپنے جوہری پروگرام سے متعلق ایک وسیع البنیاد گفتگو کے لیے تیار ہے۔لیکن اس یقین دہانی کے باوجود کینیڈا نے بھی ایران کا معاشی مقاطعہ مزید سخت کر دیا۔بین الاقوامی طور پر جن ممالک نے کسی حد تک امریکی فیصلے کے آگے مزاحمت کی،ان میں چین اور روس نمایاں ہیں۔لیکن پھر بھی انہوں نے ایک ایسی قرارداد کی توثیق کی،جسے کسی طور پر قانونی نہیں کہا جاسکتا۔ ایران این پی ٹی پر دستخط کرنے والا ملک ہے،اس معاہدے کی رُو سے اُسے پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایران پر جوہری ہتھیار رکھنے کا الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے۔
امریکا کی پروردہ( International Atomic Energy Agency) (IAEA) کے پاس بھی محض الزام تراشی کے،ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں۔اس امکانی جنگی کی بات میں یوں بھی صداقت لگتی ہے کہ جون میں ایران پر پابندیاں لگنے کے بعد ہی امریکا،اسرائیل،برطانیہ اور جرمنی کے مسلح بحری جہازوں نے خلیج فارس میں داخل ہونا شروع کر دیا۔18 جون کو جوہری ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی آبدوز نہرسوئز سے گزری۔جسے سوائے جنگی دھمکی کے کسی اور چیز سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس جنگی شروعات کے لیے مسلم ممالک کو ہی آمادہ کیا جا رہا ہے۔نہر سوئز سے میزائل بردار جنگی جہازوں کا گزرنا اور پھر جا کر بحر احمر میں لنگر انداز ہو جانا،مصر کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ 
اسرائیلی جریدے Haaretz کے مطابق بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ میرداگان نے پچھلے دنوں خفیہ طور پر سعودی عرب کا دورہ کیا۔اسرائیلی دانشوروں کے خیال میں اس طرح کی چیزوں کو اسرائیل کے حق دفاع کی آڑ میں آسانی سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے،اور اس کے لیے وسیع حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں بولٹن جیسے ہمنوا سرفہرست ہیں۔سامنے سے حملے کے علاوہ اس جنگ کا ایک پہلو آڑ سے وار ہے،جس کے لیے امریکی سی آئی اے جند اللہ جیسی تنظیموں کو استعمال کر رہی ہے۔یہ وہی تنظیم ہے،جس نے ایرانی سرحدی شہر میں زاہدان میں مسجد کے باہر 27 لوگوں کو  خودکش حملے کا نشانہ بنایا تھا،جن میں انقلابی گارڈز کے اہم عہدیدار بھی شامل تھے۔
اس واقعہ سے قبل اس تنظیم کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو دبئی سے بیشکیک جانے والی پرواز کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔وہ مبینہ طور پر رچرڈ ہالبروک سے ملنے جا رہا تھا۔بعد ازاں اسے پھانسی دے دی گئی تھی۔زاہدان کے واقعہ کو جنداللہ نے اسی پھانسی کا ردعمل بتایا تھا۔امریکا میں بھی مزید کسی بھی طور پر ایک نیا محاذ کھولنے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اس طرح کے کسی بھی قدم کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک نئی جنگ کہاں تک پھیل سکتی ہے،کوئی نہیں جانتا۔ایڈمرل مائیک مولن کے خیال میں ایران کا جوہری ہتھیار بنانا غیرمناسب ہے،لیکن ایران پر حملہ اس سے بھی زیادہ غیر مناسب ہے۔ایک ایسے خطہ جو پہلے ہی غیرمستحکم ہے،اس میں مزید اضافہ کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔لیکن کیا اسرائیل اور اس کے حامی اس طرح کے مشوروں کو خاطر میں لائیں گے؟۔
 اسرائیلی مفادات کے آگے نہ کسی ملک کی حیثیت ہے،نہ کسی قوم کی،چاہے وہ امریکا ہی کیوں نہ ہو۔ویسے یہ بات اس نے 1967ء میں امریکی بحری بیڑے کے 34 افراد کو مار کر ثابت کر دی تھی۔اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی عالمی قوت کا سہارا لے سکتا ہے،جیسے کہ چین ۔جسے اُس نے 1990ء میں دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کی۔ان سب باتوں کے باوجود چند باتیں اسرائیل کو حملے سے روک رہی ہیں،ان میں ایک مسلمانوں کا احساس بیداری ہے۔جو بہت دبانے کے باوجود بھی مزید ابھر رہا ہے۔ حکومتی موقف کچھ بھی ہو،عوامی سطح پر مسلم رائے عامہ اسرائیل اور امریکا کے حق می نہیں۔ ترکی سے اسرائیل کے کشیدہ تعلقات کی ایک وجہ عوامی ردعمل بھی ہے۔پھر ترکی کے بحری جہاز فریڈم فوٹیلا پر اسرائیلی حملے اور 10 افراد کے قتل نے عالمی رائے عامہ بہت حد تک اسرائیل کے خلاف کر دی ہے۔حماس کے رہنما کا دبئی میں قتل،جس میں اسرائیل کی طرف سے برطانیہ،فرانس سمیت کئی مغربی ممالک کے جعلی پاسپورٹ کا استعمال کی وجہ سے حکومتی سطح پر بھی اس کے تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔
لیکن اسرائیل خود کو بچانے کی کوشش میں کسی حد تک بھی جاسکتا ہے،اس حقیقت کو فراموش کرنا حماقت ہو گی،اس کے لیے جوہری ہتھیاروں کا استعمال بعید از قیاس نہیں،گو کہ اس کے استعمال کے بعد ہونے والے اثرات سے اس کا خود بچنا بھی مشکل ہے۔اسرائیل ایک براہ راست طویل مدتی روایتی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا،یہ بات اسرائیل نے گزشتہ سالوں میں حزب اللہ اور فلسطین کے خلاف جنگ میں دیکھ لی ہے۔اس کے لیے سب سے زیادہ بچاﺅ صرف اس چیز میں ہے کہ وہ پس پردہ رہتے ہوئے اپنی جنگ لڑے یعنی اسرائیل کے نام کی بدنامی بھی امریکا کو اپنے دامن میں سمیٹنی پڑے گی،اگر وہ اس میں فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے پر رضامند ہو جاتا ہے۔(یہ مضمون ظفر بنگش کے مضمون Neocon beat drums of war against Islamic Iran سے بہت حد تک متاثر ہوکر لکھا گیا)
 "روزنامہ جسارت"


خبر کا کوڈ : 35778
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش