4
0
Friday 14 Mar 2014 01:04

لہو کے داغ

لہو کے داغ
تحریر: رضا مہدی، کراچی

سمجھ نہیں آرہا کہ یہ میرا تجسس ہے یا مقتول سے ہمدردی، یا پھر کوئی تیسرا جذبہ ہے جو مجھے قاتل کی تلاش پر اکسا کر رہا ہے۔ اس خاموش قتل میں، قاتل کون ہے؟ میرے پورے وجود میں یہ سوال گرداب کی مانند گردش کر رہا ہے، میرے دل میں بار بار یہ  سوال کروٹیں لیتا ہے کہ کیا یہ قتل ہے بھی یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ھو کہ یہ کوئی حادثہ ھو؟ مشکل یہی ہے کہ میرے ضمیر نے بغیر کسی تردد کے فیصلہ سنا دیا ہے کہ یہ قتل ہی ہے اور عقل نے بھی اس فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کر دیا ہے۔ اب مرحلہ ہے قاتل کے تعین کا۔ ذھن پر بہت زور دینے کے باوجود سمجھ  نہیں آ رہا ہے کہ قاتل کون ہے اور اس چیز نے مجھے انتہائی کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اے کاش یہ کوئی حادثہ ہوتا، تاکہ معاملہ اظہار تاسف کے بعد ختم ہو جاتا۔ نہ یہ سوال اٹھتا اور نہ میں اس اذیت میں مبتلا ہوتا یا پھر اے کاش میں بھی دوسروں کی طرح اس بات پر قادر ہوتا کہ اس سوال کو سرے سے ذہن سے جھٹک سکوں۔

ماجرا یوں ہے کہ آج افطار کے بعد ہم چند دوستوں کو  ایک بیرون ملک یونیورسٹی کے پاکستان آئے ہوئے استاد سے ملنے جانا تھا۔ اس لئے ہم افطار پر ایک دوست کے گھر جمع ہوگئے تھے، تاکہ بعد از افطار نکلنے میں تاخیر نہ ہو۔ جب ہم لوگ گھر سے نکلنے لگے تو سامنے والے گھر کی چوکیداری کے فرائض انجام دینے والے بابا تیزی سے میری طرف آئے۔ گھر کچھ عرصے سے زیر تعمیر ہے، اس لئے آتے جاتے میری ان سے علیک سلیک ہوگئی ہے اور میں جب بھی اپنے دوست کے گھر جاتا ہوں تو تھوڑی دیر ان کے پاس ضرور رکتا ہوں۔ بابا تیزی سے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کل پہلی منزل کی دیواریں چنی جانی ہیں، جس کے لئے آئی ہوئی اینٹیں پچھلے دروازے پر اتاری گئیں ہیں اور اب ایک انجینئر لڑکا ان کو اوپر لے جانے کی مزدوری کر رہا  ہے۔ وہ مجھ سے کہنے لگے کہ میں اس سے مل کر دیکھوں کہ کیا اس کی کوئی مدد کی جاسکتی ہے۔ 

ہمیں دیر ہو رہی تھی، اس لئے میں نے واپسی پر  ملنے کا وعدہ کر لیا۔ ضرورت مندوں کی ہمارے شہر میں کوئی کمی نہیں ہے، اس لئے مجھے یقین تھا کہ وہ کوئی ضرورت مند لڑکا ہوگا، جو مزدوری پر مجبور ہوگیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کچھ پڑھا لکھا بھی ہو، لیکن انجینئر والی بات ہضم نہیں ہوئی اور پھر بابا بے چارے کو کیا پتہ کہ انجینئر کیا ہوتا ہے۔ واپسی پر ہمیں دیر ہوگئی اور دوست کے گھر پہچنے تک یہ بات میرے ذہن سے بالکل نکل چکی تھی، لیکن گاڑی سے اترتے ہی بابا پھر میری طرف  آئے اور مجھے ان کی بات یاد آگئی۔ حسب وعدہ میں اپنے دو دوستوں کے ہمراہ بابا کے پیچھے گھر کے پچھلے دروازے کی طرف چل دیا، جہاں ان کے بقول وہ لڑکا مزدوری کر رہا تھا۔ 

پچھلے دروازے کے ساتھ رکھی ہوئی اینٹوں کی تقریباً پانچ فٹ کی دو دیواریں موجود تھیں اور ایک ہم سے عمر میں کچھ چھوٹا لڑکا ان پر سے ایک ایک اینٹ اٹھا کر اوپر پہلی منزل پر لے جا رہا تھا۔ پتلون اور ٹی شرٹ میں ملبوس یہ نوجوان شکل و صورت سے پڑھا لکھا لگ رہا تھا۔ اس کا چھریریرا بدن اور اینٹ اٹھانے کا  انداز دونوں اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ وہ مزدوری کا عادی نہیں ہے۔ ہمارے پہنچنے پر وہ اینٹ رکھ  کر ہمارے پاس آگیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے بتایا کہ اس کا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے شہر سے ہے، وہ پڑھنے کے لئے یہاں آیا ہوا ہے اور اب اپنے کچھ لڑکوں کے ساتھ کرائے کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا ہے۔ بابا کی بات سچ تھی، وہ واقعی کراچی کی ایک  معتبر یونیورسٹی میں الیکٹرونیکل اینجینئرنگ کے فورتھ ائیر کا طالب علم تھا۔ اس کی صداقت اس کے لہجے سے عیاں تھی، لیکن پھر بھی میرے ایک دوست نے کہ جو خود بھی اسی فیلڈ سے تعلق رکھتا تھا، اس سے اس کے فائنل ائیر پراجیکٹ کی بارے میں پوچھا۔
 
اس کی بعد کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی نہیں تھی۔ مزدوری کا معمہ کچھ یوں تھا کہ کراچی میں اس کے اخراجات ٹیوشن پڑھا کر پورے ہوتے تھے، لیکن گھر جانے کی وجہ سے ٹیوشنوں کا سلسلہ رک گیا تھا اور واپسی پر کافی تگ و دو کے باوجود یہ سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہو پایا تھا۔ گھر کا کرایہ اور دوسرے اخراجات کی لئے اسے پیسوں کی اشد ضرورت تھی۔ اسی لئے وہ آج  کئی جگہ کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اس علاقے کی مشہور زمانہ مسجد کی انتظامیہ سے ملنے آیا تھا کہ وہ ٹیوشن یا اور کوئی مناسب کام دلانے میں اس کی کچھ مدد کرسکیں۔ وہ اپنے مقصد میں مکمل ناکام نہیں ہوا تھا، اسے  رقیق القلب انتظامیہ کی ہمدردی اور  ایک مذہبی فلاحی ادارے کا ایڈریس دونوں ہی نصیب ہوئے تھے۔ وہ ادارہ ہمارے دوست کی گلی میں ہی واقع ہے۔ 

ادارے والے تو مسجد کی انتظامیہ سے بھی زیادہ دریا دل نکلے۔ انہوں نے اسے  ادارے کیلئے ڈرائیور کی نوکری بڑے کھلے دل سے پیش کی تھی۔ اب یہ اس کا اپنا مسئلہ تھا کہ وہ یونیورسٹی جائے یا ادارے کی وین چلائے۔ وہ مایوس ہو کر وہاں سے نکل رہا تھا کہ اسے اس مکان پر اینٹیں اترتی نطر آئیں۔ پانچ سو اینٹیں اوپر پہنچانا تھیں، ہزار روپے کے عوض۔ "صرف ہزار روپے؟" نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے نکل گیا۔ یہ استفسار نہیں تھا کہ جواب لازم آتا لیکن وہ پھر بھی جواب دینے لگا کہ اسے پیسوں کی اشد ضرورت تو تھی ہی پر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات بھی اس کے فیصلے میں دخیل تھی۔ اسے ٹھیکیدار سے پتہ چلا تھا کہ اگر آج اینٹیں اوپر گئیں تو ہی کل مستری کام کرسکیں گے، ورنہ ان کا کل کا دن بغیر دہاڑی کے جائیگا۔ بابا کو اس سے ہمدردی تھی اور اسے ان دیکھے مزدوروں سے۔ واقعاً کتنا مضبوط ہوتا ہے یہ درد کا رشتہ۔

اس کی کہانی نے ہم سب کو گم سم کر دیا تھا اور ہم واپس آکر بھی بدستور خاموش بیٹھے تھے۔ میرے منہ سے صرف اتنا نکل سکا، "یہ مریض ہوجائیگا۔ اتنی مزدوری عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔" تھوڑی دیر بعد میں اٹھ کر گھر آگیا اور کمرے کی بجائے میرے قدم چھت کی طرف اٹھ گئے۔ میرے نزدیک مزدوری کوئی بری چیز نہیں ہے، مگر ملک کے معمار کے ہاتھوں ایک گھر کی تعمیر، قلم سے قوم کی تقدیر لکھنے والے ہاتھوں میں اینٹوں کی سنگینی، گویا ایک چھوٹے سے بچے نے غڑپ کی آواز کے شوق میں لعل و جواہر پانی کی نظر کر دیئے۔ "ہاں یہ قتل ہے۔" ضمیر فیصلہ سنا چکا تھا اور اب چھت پر بے چینی کے عالم میں ٹہلتے ہوئے میرا ذھن قاتل کی کھوج میں مصروف  ہے۔ اس واقعہ کے چند حاضرین میں سے کوئی ایسا نہیں کہ جسے اس سے ہمدردی نہ ہو۔ مسجد کی انتظامیہ، ادارے والے، بابا، میں اور میرے دوست سب ہی کو اس سے ہمدردی ہے۔ ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اگر اپنے اپنے گھروندوں میں سوئے ہوئے اس شہر کے باسیوں کو اس واقعہ کی خبر ہو تو ان کا دل بھی اس کے لئے ضرور دکھے گا۔ اتنے ہمدرد اور قاتل بے نشان۔ ذہن تلاش کر کرکے ہار مان چکا ہے۔ شاید قاتل ہمیشہ بے سراغ ہی رہے۔ میرے لب خود بخود فیض کی یہ نظم زمزمہ کرنے لگے ہیں۔
کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نا آستیں پہ نشاں
نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ نوک سناں
نہ خاک پر کوئی دھبہ نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمت شاہاں کے خوں بہاں  دیتے
نہ دیں کی نظر کہ بیانہ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کہ مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نا شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
نظم ختم ہوئی تو میری نظر اچانک میرے ہاتھوں پر پڑی ہے اور میں نے انہیں تیزی سے پتلون کی جیب میں ڈال لیا ہے۔ شاید مجھے اپنے ہاتھوں پر بلکہ اپنے پورے سماج اور معاشرے کے ہاتھوں پر لہو کے داغ نظر آرہے ہیں۔۔۔
خبر کا کوڈ : 361469
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

میرا رائٹر سے یہ سوال ہے کہ آپ سب دوست مل کر بھی اس لڑکے کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔؟
میرے بھائی رائیٹر کتنوں کی مل کر مدد کرسکتا ہے! اصل بات اور اس کے راہ حل کی طرف متوجہ ہوں۔ آپ جیسے بے حسوں کو جگانے کے لئے ہے یہ تحریر، لیکن افسوس اس کا بھی آپ لوگوں کے محدود ذہنوں پر اثر نہیں!!!!!! خدا خوش رکھے آپ کو، یوں ہی جگتیں لگانے میں مگن رہیں۔
ماشاءاللہ بہت اچھی کوشش ہے، ہم سب کو مل کر ایسے ادارے بنانے چاہئیں جو ایسے واقعات رونما نہ ہونے دیں۔
میرے بھائی احساس کمتری اور حسد کے مارے ہوئے لوگ تنقید کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ جسطرح رائٹر نے بطور رائٹر اپنا فریضہ ادا کیا ہے اسی طرح حاسد نے بھی ایک لائن لکھ کر حسد کی آگ کو شعلہ ور کیا ہے۔ اللہ کی لعنت ہو حاسدوں پر۔ میری رائٹر بھائی سے گزارش ہے کہ اپنا قلمی سفر جاری رکھیں اور ہمارے مردہ ضمیروں کو اسی طرح بیدار کرتے رہیں۔
شکریہ
ہماری پیشکش