0
Friday 28 Mar 2014 00:08

شام کے اسٹریٹجک شہر یبرود کی آزادی اور جاری خانہ جنگی پر اس کے اثرات

شام کے اسٹریٹجک شہر یبرود کی آزادی اور جاری خانہ جنگی پر اس کے اثرات
تحریر: روح اللہ قاسمیان

اسلام ٹائمز – شام کی سیکورٹی فورسز تین دن کی مسلسل اور انتھک لڑائی کے بعد آخرکار دشمن کے تمام دفاعی اقدامات کو تہس نہس کرتے ہوئے لبنان کی سرحد پر واقع القلمون خطے کے انتہائی اسٹریٹجک شہر "یبرود" کو مسلح تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے سے آزاد کروانے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ اس لڑائی میں تکفیری دہشت عناصر کا نقصان اس قدر شدید تھا کہ صرف تین دن کے اندر ہی وہ یبرود شہر کو چھوڑ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہو گئے۔ اس قدر کم مدت میں ایک شہر کو تکفیری دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں سے چھڑوانا بذات خود شام میں شروع ہونے والے بحران اور خانہ جنگی کے دوران ایک ریکارڈ تصور کیا جا رہا ہے۔ یبرود کا شہر تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے اس وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل شہر تھا کہ لبنان کے ذریعے اسلحہ اور دہشت گرد اسمگل کرنے کیلئے بارڈر سے ۱۸ مختلف غیرقانونی اور خفیہ راستے اس شہر تک آتے تھے۔ تکفیری دہشت گرد عناصر نہ صرف ان راستوں سے لبنان کے راستے اسلحہ اور دہشت گرد شام منتقل کرتے تھے بلکہ برعکس بارود بھری گاڑیاں شام سے لبنان کی جانب بھی روانہ کرتے رہتے تھے جو لبنان میں دہشت گردانہ بم حملوں کیلئے استعمال ہوتی تھیں۔ اسی طرح خودکش بمبار بھی انہیں راستوں سے شام سے لبنان میں داخل ہو کر دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دیتے تھے۔

لیکن جو نکتہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ شام میں جاری خانہ جنگی پر اس عظیم اور اسٹریٹجک کامیابی کے اثرات ہیں۔ اس کو جاننے کیلئے کہ اس عظیم کامیابی کے شام میں جاری خانہ جنگی اور اسی طرح ہمسایہ ممالک خاص طور پر لبنان پر کیا اثرات ظاہر ہوں گے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یبرود شہر کی اسٹریٹجک پوزیشن کو واضح کیا جائے۔ لبنان پر اس کامیابی کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یبرود میں عبرت ناک شکست کے بعد تکفیری دہشت گرد عناصر کی بڑی تعداد لبنان کے علاقے عرسال کے شہر "جرود" اور اسی طرح دو سرحدی قصبوں "فلیطہ" اور "رنکوس" کی جانب فرار کر جانے کے بعد وہاں اپنے اڈے قائم کر چکے ہیں۔

القلمون تکفیری دہشت گرد عناصر کی لاجسٹک سپورٹ کا مرکز تھا:
لبنان کی سرحد پر واقع شام کا علاقہ جو القلمون کے نام سے جانا جاتا ہے درحقیقت تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے فوجی اعتبار سے ایک انتہائی اسٹریٹجک علاقہ تصور کیا جاتا تھا۔ تکفیری دہشت گرد عناصر نے اس علاقے کو نو گو ایریا میں تبدیل کر رکھا تھا جہاں سے وہ شام کے دوسرے حصوں جیسے صوبہ دمشق اور ملک کے مرکزی حصے جیسے صوبہ حمص، ریف حمص اور ملک کے مشرق میں واقع صحرائی علاقے جیسے صوبہ دیرالزور میں لڑنے والے دہشت گردوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے تھے۔ اس کے علاوہ شام کے باہر سے بھی ہر قسم کا اسلحہ اور دہشت گردوں کی نئی ٹیمیں اسی راستے شام بھیجی جاتی تھیں۔ القلمون کا خطہ درحقیقت ایک انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل پٹی ہے جس کی لمبائی تقریبا ۱۲۰ کلومیٹر کے قریب اور چوڑائی ۱۰ کلومیٹر ہے۔ بعض حصوں میں اس پٹی کی چوڑائی ۳۵ کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے۔ اس خطے کے مغرب میں لبنان کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے جبکہ اس کے مشرق میں ایسے راستے موجود ہیں جو بڑی تعداد میں دیہاتوں اور قصبوں پر مشتمل شام کے صحرائی علاقوں تک جا پہنچتے ہیں۔ ان علاقوں میں سرگرم مسلح تکفیری دہشت گرد عناصر کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ۲۰ ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ ان دہشت گرد عناصر کے تین بڑے اڈے "رنکوس"، "عسال الورد" اور "یبرود" میں موجود ہیں اور ان کا تعلق رنکوس میں موجود "القادسیہ بریگیڈ"، "فری سیرین آرمی"، "القصیر پیراٹروپرز بریگیڈ"، "اسلام آرمی"، "النصرہ فرنٹ" اور "غریبان شام" اور اسی طرح دوسرے دسیوں تکفیری دہشت گرد گروہوں سے بتایا جاتا ہے۔

شام کی آرمی اور سیکورٹی فورسز نے گذشتہ سال سے ہی القلمون کی آزادی کو اپنی فوجی اسٹریٹجی کی پہلی ترجیح قرار دے رکھا تھا۔ یہ وہ خطہ ہے جس کے جنوب میں "رنکوس" کا شہر واقع ہے جو دمشق سے ۴۵ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور اس کے شمال میں "البریج" کا شہر ہے جو القصیر سے صرف چند کیلومیٹر کے فاصلے پر ہی واقع ہے۔ اس خطے میں کئی اہم شہر اور قصبے جیسے "حوش عرب"، "عسال الورد"، "الجبہ"، "المعرہ بخعہ"، "الصرخہ"، "فلیطہ"، "یبرود"، "دیر عطیہ"، "قارہ"، "جراجیر" وغیرہ موجود ہیں۔ وہ چیز جو القلمون خطے کی اسٹریٹجک اہمیت کو دوبالا کر دیتی ہے اس خطہ کا لبنان کی سرحد پر واقع ہونا ہے۔ یہ چیز اس بات کا باعث بنی تھی کہ شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد لبنان کے تکفیری دہشت گردوں کے ساتھ مل کر مشترکہ کاروائیاں انجام دیں۔ لبنان میں موجود تکفیری دہشت گرد عناصر کا مرکز شام کی سرحد سے قریب لبنانی علاقہ "عرسال" تھا۔ لہذا شام میں سرگرم تکفیری عناصر لبنان کے تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد سے اسلحہ اور مین پاور شام اسمگل کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف شام کے تکفیری دہشت گرد لبنان کے اندر دہشت گردانہ کاروائیوں کیلئے بارود بھری گاڑیاں اور خودکش بمبار لبنان کے تکفیری دہشت گردوں کو فراہم کرتے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے شام کی سیکورٹی فورسز نے لبنان اور شام کے تکفیری دہشت گردوں کے درمیان موجود اس رابطے کو کاٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ گذشتہ سال نومبر کے وسط میں شام کی سیکورٹی فورسز نے چند کامیاب آپریشنز کے ذریعے القلمون خطے میں واقع چند قصبوں جیسے "قارہ"، "دیر عطیہ" اور "النبک" کو تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے سے آزاد کروا لیا۔

یبرود، تکفیری دہشت گرد عناصر کا اصلی گڑھ:
اگر کہا جائے کہ یبرود کا شہر القلمون خطے میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل علاقہ ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد عناصر نے اس شہر کو شام کے دوسرے مرکزی اور جنوبی علاقوں میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی لاجسٹک سپورٹ کا مرکز بنا رکھا تھا۔ یہ مسئلہ صرف اسی حد تک محدود نہ تھا بلکہ تکفیری دہشت گرد عناصر نے یبرود شہر میں دیسی ساختہ بم اور راکٹس بنانے کے بے شمار چھوٹے اور بڑے کارخانے بھی لگا رکھے تھے۔ اس شہر پر شام کی سیکورٹی فورسز کے قبضے کا مطلب تکفیری دہشت گرد عناصر کو مہیا ان تمام سہولیات کا خاتمہ ہے۔ اس خطے پر شام کی سیکورٹی فورسز کے قبضے سے ایک طرف تو شام کے جنوب میں سرگرم مسلح تکفیری دہشت گرد عناصر کا رابطہ ملک کے شمال میں سرگرم تکفیری دہشت گردوں سے مکمل طور پر منقطع ہو گیا ہے اور دوسری طرف شام کے اندر موجود تکفیری دہشت گرد عناصر کا لبنان کے سرحدی علاقوں میں موجود تکفیری عناصر سے بھی رابطہ کٹ چکا ہے۔ اس طرح لبنان کے مشرق میں واقع القلمون پہاڑی سلسلہ بھی تکفیری دہشت گرد عناصر سے پاک ہو گیا ہے۔ کلی طور پر تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے یبرود شہر کو اپنا اصلی گڑھ بنانے کی دو بڑی وجوہات تھیں:

۱۔ شام کے مرکزی حصے میں واقع علاقوں کو دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بنانا۔ دوسری طرف یبرود شہر شام کے دارالحکومت دمشق سے انتہائی قریب ہے اور تکفیری دہشت گردوں کی شروع سے ہی یہ پالیسی رہی ہے کہ دارالحکومت کے قریبی علاقوں میں اپنے اڈے قائم کریں تاکہ وقت پڑنے پر اچانک دارالحکومت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر سکیں۔ اب جبکہ یبرود کا شہر ان کے ہاتھوں سے نکل کر شام کی سیکورٹی فورسز کے قبضے میں آ چکا ہے تو یہ ایک لحاظ سے دارالحکومت دمشق کی سیکورٹی مزید بہتر ہونے کا سبب جانا جا رہا ہے۔ یبرود شہر پر شامی فورسز کے قبضے سے دارالحکومت دمشق پر تکفیری دہشت گردوں کی چڑھائی کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے۔

۲۔ یبرود شہر کو اپنا اصلی گڑھ بنانے سے تکفیری دہشت گردوں کا ایک اور مقصد لبنان کے اندر دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینا تھ۔ جیسا کہ عرض کر چکے ہیں کہ یبرود شہر میں تکفیری دہشت گرد عناصر نے بم اور راکٹ بنانے کے باقاعدہ کارخانے لگا رکھے تھے اور وہ اس شہر سے بارود بھری گاڑیاں تیار کر کے دہشت گردانہ بم حملوں کیلئے لبنان بھیجا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ تکفیری دہشت گرد کئی بار یہاں سے لبنان کے اندر راکٹ حملے بھی انجام دے چکے تھے۔ لبنان کے اندر ان تمام دہشت گردانہ کاروائیوں کا واحد ہدف اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کو لبنان کے اندر مصروف کر کے اسے کمزور کرنا تھا جو مکمل طور ایک اسرائیلی ٹاسک تھا جس کی ذمہ داری تکفیری دہشت گرد عناصر کے سپرد کی گئی تھی۔ لیکن اب یبرود شہر پر شامی فورسز کے قبضے سے یہ اسرائیلی سازش بری طرح ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔

یبرود میں شامی فوج کی کامیابی اس وجہ سے انتہائی اہم اور بڑی ہے کہ اس شہر کے دفاع کیلئے وہاں ۷ ہزار سے زیادہ جنگ کیلئے تیار تکفیری دہشت گرد موجود تھے۔ دوسری طرف یبرود شہر کی جغرافیائی صورتحال بھی حملہ کرنے والی فوج کیلئے انتہائی دشوار اور تسخیر ناپذیر سمجھی جاتی ہے۔ اس علاقے میں ایک ایسا صحرا ہے جو یبرود شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یبرود شہر کے قریب "تیجان"، "مار مارون" اور "العریض" جیسی بلند و بالا اور چٹیل پہاڑ موجود ہیں جن کو سر کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ یبرود کے جنوب میں بھی ایسا پہاڑی علاقہ موجود ہے جو انتہائی صعب العبور اور مشقت والا راستہ ہے۔ یبرود کے شمال میں ریما نامی باغات پائے جاتے ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی موجودگی کے باوجود شام کی سیکورٹی فورسز نے صرف چند دن ہی میں اسے مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ یبرود کے مغربی حصے میں بھی فلک شکاف پہاڑوں کا سلسلہ پایا جاتا ہے جہاں سے آمدورفت کیلئے تکفیری دہشت گرد عناصر نے پہاڑی راستے بنا رکھے تھے۔ یہ پہاڑی راستے لبنان کے سرحدی علاقے عرسال تک جا پہنچتے تھے۔ یبرود کے مشرق میں صرف ایک اصلی راستہ ہے اور شہر میں داخل ہونے کا صرف یہ ایک ہی واحد راستہ ہے۔ یبرود کے شمال مغرب میں "السحل" قصبہ واقع ہے جو اس سے صرف ۳ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ قصبہ حال ہی میں شامی فوج کے ہاتھوں آزاد ہوا تھا۔ یبرود شہر کے نقشے پر ایک ہلکی سے نظر سے ہی سمجھا جا سکتا تھا کہ شام کی سیکورٹی فورسز کو کس قدر بڑا چیلنج درپیش تھا کیونکہ پہاڑی علاقہ ہونے کے ناطے تکفیری دہشت گرد عناصر بہت آسانی سے اسلحہ اسمگل کرنے پر قادر تھے۔

یبرود کی شکست کے تکفیری دہشت گرد عناصر پر اثرات:
تکفیری دہشت گرد عناصر کے ہاتھ سے یبرود جیسے اسٹریٹجک شہر کے نکل جانے کا ان اور ان کے حامیوں پر سب سے بڑا اثر شام میں مسلح دہشت گرد گروہوں کے حق میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کے نظریے کا باطل ہونا ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جس کا ذکر سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل گذشتہ دنوں میں بارہا کر چکے ہیں۔ اس نظریے پر عملدرآمد کی کوشش القصیر میں شامی فوج کی کامیابی سے ہی شروع ہو چکی تھی اور اب حلب میں اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی اور فوجی ماہرین کی نظر میں یبرود جیسے القلمون خطے کے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل شہر سے تکفیری دہشت گرد عناصر کا مکمل صفایا سعودی عرب کیلئے عبرت ناک شکست تصور کی جاتی ہے۔

یبرود میں سرگرم بڑے بڑے تکفیری دہشت گرد گروہوں کا تعلق براہ راست سعودی عرب سے تھا اور ان کی نابودی کا مطلب سعودی عرب کے مقابلے میں شام کی برتری کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ یبرود کی جنگ میں ہلاک ہونے والے تکفیری دہشت گردوں کی کمی کو پورا کرنا سعودی عرب کیلئے آسان کام نہیں ہو گا۔ اسی طرح یبرود کی آزادی لبنان کی قومی سلامتی پر بھی براہ راست طور پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے لبنان میں داخل ہونے کیلئے انتہائی اہم راستہ یبرود کا ہی تھا لیکن اب یہ علاقہ شام کی فورسز کے زیرکنٹرول آنے کے بعد ان کی لبنان آمدورفت بھی رک جائے گی۔ القلمون سے تکفیری دہشت گردوں کے صفایا ہو جانے کے بعد اس کے گردونواح سے بھی ان دہشت گرد عناصر کی صفائی کا کام تیزی سے شروع ہونے والا ہے۔ دمشق، ریف دمشق، حمص اور ریف حمص میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر بھی لبنان سے آنے والی فوجی اور لاجسٹک سپورٹ سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسری طرف ان علاقوں سے تکفیری دہشت گرد عناصر کے مکمل صفایا ہو جانے کے بعد مشرقی الغوطہ اور دمشق کے مغربی حصے میں بھی تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف کاروائیوں میں تیزی آئے گی۔ یبرود شہر کی کامیابی کا ایک اور بڑا اثر تکفیری دہشت گرد عناصر کے مورال پر پڑے گا اور انہیں شدید نفسیاتی دباو کا شکار کر دے گی۔

یبرود کے بعد اگلے محاذ:
اگرچہ پورے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ شام کی سیکورٹی فورسز مستقبل میں کیا پلان رکھتی ہیں لیکن موجودہ صورتحال کی تجزیہ و تحلیل کی بنیاد پر ایک حد تک یہ پیش بینی کی جا سکتی ہے کہ شام کی فوج یبرود کی کامیابی کے بعد اپنے آپریشنز کو دو بڑے موضوعات کے گرد متمرکز رکھے گی۔

۱۔ وہ فوجی محاذ جو ملک کے مختلف حصوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر اور شام کی فوج اور سیکورٹی فورسز کے درمیان کھلے ہوئے ہیں اور وہاں جنگ جاری ہے۔

۲۔ ڈپلومیسی کا میدان تاکہ قومی مفاہمت کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنایا جا سکے جیسا کہ اس کے واضح نمونے ریف دمشق کے مختلف علاقوں اور "بیت سحم"، "ببیلا" اور "یلدا" میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شام آرمی کے یہ اقدامات ملک کے بعض حصوں میں خانہ جنگی کے خاتمے کا باعث بنیں گے اور حکومت مخالف گروہوں کو اس بات کی ترغیب دلائیں گے کہ وہ اپنے تنازعات کو مسلح جدوجہد کی بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ یبرود میں شامی فوج کی عظیم کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ شام کی سیکورٹی فورسز کیلئے کوئی بھی علاقہ ناقابل تسخیر نہیں ہے اور شامی فوج جب ارادہ کرے ہر علاقے میں داخل ہونے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ امر ایسے تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے جنہوں نے ابھی تک اسلحہ اٹھا رکھا ہے اور شام کی فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 366601
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش