0
Sunday 30 Mar 2014 00:46

سویلین جرنیل

سویلین جرنیل
تحریر: فاطمہ محمدی

اسلام ٹائمز – ایک طرف مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں قاہرہ یونیورسٹی کے اردگرد اخوان المسلمین کے حامی اسٹوڈنٹس کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں جس میں ایک اسٹوڈنٹ جاں بحق اور دوسرے آٹھ اسٹوڈنٹس زخمی ہو گئے تو دوسری طرف مصر کی مسلح افواج کی سپریم کونسل کی میٹنگ جاری تھی جس میں مسلح افواج کے سربراہ اور وزیر دفاع جنرل السیسی نے اپنے دونوں عہدوں سے رسمی طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ جنرل السیسی نے مصر کی وزارت دفاع کا قلمدان چھوڑنے کے بعد اگلے قدم کے طور پر سیاست کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان بھی کر دیا۔ انہوں نے فوجی سربراہان کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرنے کیلئے تمام بڑے کمانڈرز اور آفیسرز کا اجلاس بلوایا اور اس میں اعلان کیا کہ وہ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اگلے انتخابات میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ مصر کے آئین کے مطابق صرف سویلین افراد ہی صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر حصہ لے سکتے ہیں لہذا السیسی صدارتی امیدوار کے طور آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے فوج کی سربراہی اور اسی طرح وزارت دفاع میں وزیر دفاع کا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ عبدالفتاح السیسی جن کی عمر تقریبا ۵۹ برس ہے اخوان المسلمین کے سابق صدر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے حامی حلقوں میں انتہائی محبوب شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے مخالف اسلام پسند حلقوں میں جو انہیں صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت اور اخوان المسلمین کو طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کے منصوبے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہیں، ان کے بارے میں شدید نفرت پائی جاتی ہے۔

البتہ سابق جنرل اور اب سویلین جنرل عبدالفتاح السیسی کی جانب سے یہ فیصلہ اتنا بھی غیرمتوقع نہ تھا اور کافی عرصہ قبل سے ہی آنے والی گرمیوں میں برگزار ہونے والے مصر کے صدارتی انتخابات میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے ان کی شرکت کو تقریبا یقینی طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ السیسی ان انتخابات میں صدارتی امیدوار کے طور پر شرکت کی خاطر وزارت دفاع کے عہدے سے سبکدوش ہونے پر مجبور ہو گئے۔ وہ رسمی طور پر اپنی نامزدگی کے اعلان کیلئے ملک کے انتخاباتی قوانین کی حتمی منظوری کے منتظر تھے۔ اسی طرح وہ وزارت دفاع کے انتہائی اہم عہدے سے مستعفی ہونے سے قبل ایک ایسے قابل اعتماد شخص کی تلاش میں تھے جسے ملٹری انٹیلی جنس کے شعبے کا سربراہ بنا سکیں اور حتی انہوں نے اس مقصد کے حصول کیلئے صدارتی انتخابات میں شرکت کے رسمی اعلان سے قبل فوج کے بنیادی اسٹرکچر میں بھی بعض اہم اصلاحات انجام دیں۔

دوسری طرف وہ ان انتخابات میں شرکت کے رسمی اعلان سے قبل مشرق وسطی کے خطے میں واقع ممالک کی حمایت خاص طور پر ان سے مالی مدد کے حصول کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کیلئے بھی کوشاں تھے۔ انہوں نے دو ہفتے قبل متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور خطے کے ممالک سے مطلوبہ مدد کے حصول کو یقینی بنانے کے بعد ملک میں دس لاکھ نئے مکانوں کی تعمیر پر مشتمل پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا۔ مصر کے حکومتی ذرائع ابلاغ نے اس منصوبے کا کھل کر پرچار کیا ہے اور اسے السیسی کے حق میں انتخابی مہم کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اکثر سیاسی ماہرین کی نظر میں السیسی مستقبل میں اپنی انتخابی مہم کو اقتصادی مسائل پر مرکوز کریں گے۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر مصری عوام کی معیشت بہتر نہ ہوئی تو ان کی محبوبیت کو شدید دھچکہ پہنچنے کا خطرہ ہے۔

لہذا عبدالفتاح السیسی نے مصر کی وزارت دفاع کے قلمدان کو چھوڑنے کے بعد ایک بیانیہ صادر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک شدید قسم کے چیلنجز سے روبرو ہے، مصر کی معیشت جمود اور ضعف کا شکار ہے جبکہ مصری عوام کا حق بنتا ہے کہ وہ بہتر معیشت کے حامل ہوں۔ السیسی نے اسی طرح اپنے بیانئے میں کہا کہ مصر کو اپنی گذشتہ عظمت، مقام اور جاہ و جلال لوٹانا ہو گا، مصر کسی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی قوت کیلئے ایسا کھلونا نہیں جس سے جس انداز میں چاہے کھیلتا رہے۔ جنرل السیسی نے اپنے اس بیانئے میں تاکید کی کہ میری طرف سے صدارتی انتخابات میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے شرکت کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کی شرکت میں رکاوٹ بن جاوں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ عوام کو سب سے زیادہ بہتر کو انتخاب کرنے کا حق دیا جائے۔ یہ عوام کا ہی ارادہ تھا جس نے سابقہ سیاسی نظام [صدر محمد مرسی کی حکومت] کا تختہ الٹا۔ میں الیکشن کمیشن سے منظوری ملتے ہی بہت جلد اپنا پروگرام اور مستقبل کے بارے میں اپنے شفاف نظریات عوام کے سامنے پیش کروں گا۔ مصر آج دہشت گردی جیسی لعنت میں مبتلا ہے اور میں اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اس لعنت سے مقابلہ کروں گا۔

کہا جاتا ہے کہ مصری عوام کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ السیسی ایک مصمم اور ارادہ کے پکے شخص ہیں جو سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی سرنگونی کے بعد شروع ہونے والی بدامنی کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنرل السیسی جو حسنی مبارک کے دور میں ملٹری انٹیلی جنس شعبے کے سربراہ تھے آج کل مصری عوام میں بہت ہی محبوب ہوتے نظر آ رہے ہیں اور ٹی شرٹس، پوسٹرز اور حتی چاکلیٹس کے پیکٹس پر بھی انہی کی تصاویر نظر آتی ہیں۔

ان سب کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صدر مرسی کے حامی اور اخوان المسلمین ان پر فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوریت اور اس سے حاصلہ ثمرات کی بربادی اور نابودی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ جنرل السیسی صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد سے لے کر آج تک انتہائی دقیق منصوبہ بندی کے تحت طاقت کے حصول کیلئے سرگرم رہے ہیں۔ ان کی جانب سے آئندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے شرکت مصر میں سیاسی چپقلش اور تناو میں مزید شدت آنے اور اسلام پسند عناصر کے خشمناک ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔ اسلام پسند عناصر نے جولائی میں صدر محمد مرسی کی سرنگونی کے بعد حکومت کے خلاف اپنے اقدامات کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اخوان المسلمین کے ایک رہنما محمد منیر نے جنرل السیسی کی جانب سے استعفا دینے کے بعد اعلان کیا ہے کہ اگر السیسی صدر بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے دور میں بھی مصر میں پائدار امن قائم نہیں ہو سکے گا۔

جنرل السیسی کا رقیب کون ہے؟
مصری حکام نے اب تک صدارتی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ فی الحال صرف بائیں بازو کے سیاست دان حمدین صباحی جو ۲۰۱۲ء میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں تیسری پوزیشن پر تھے، نے ان انتخابات میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا ہے کہ وہ عبدالفتاح السیسی سے زیادہ امید نہیں رکھتے اور ان کی نظر میں اگر السیسی صدارتی انتخابات میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو وہ جمہوری اقدار کو فروغ نہیں دے پائیں گے کیونکہ صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے اب تک السیسی کئی بار انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ حمدین صباحی نے جنرل السیسی کی جانب سے صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کو قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے عوامی مظاہروں کو طاقت کے زور پر کچلے جانے سے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی یاد تازہ ہو گئی ہے اور اس آمریت کے دور میں رائج غیرجمہوری رویے جنرل السیسی کے دور حکومت میں بھی دیکھے گئے ہیں۔

حمدین صباحی نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا السیسی ایک جمہوری لیڈر کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں یا نہیں؟ کہا کہ مصر میں طاقت کی منتقلی میں ان کا کردار باعث بنا ہے کہ ملک میں انجام پانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری براہ راست یا بالواسطہ طور پر ان کی گردن پر بھی آ جائے۔ حمدین صباحی جو حسنی مبارک کے دور میں ۱۷ مرتبہ جیل جا چکے ہیں نے مزید کہا کہ مصر اب بھی ایک حقیقی جمہوری نظام کا منتظر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مصر کی موجودہ نگران حکومت جمہوری اقدار اور مختلف سیاسی جماعتوں کی آزادانہ فعالیت کا احترام نہیں کر رہی اور آئین کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہی ہے۔ یہ حکومت مصری عوام کو ان کی مطلوبہ آزادی فراہم نہیں کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ مصری عوام کو چاہئے کہ وہ ملک میں موجود کرپٹ نظام کا صفایا کر دیں یا پھر نئے ساست دانوں کو آگے لائیں۔

حمدین صباحی کا خیال ہے کہ وہ رژیم جس نے طاقت اور کرپشن کے بل بوتے پر دسیوں سال ملک پر راج کیا ہے آج بھی برسراقتدار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مصر میں سابقہ آمرانہ نظام کے دوبارہ احیاء کی ہر کوشش ناکامی کا شکار ہو گی کیونکہ عوام اب بیدار ہو چکے ہیں اور ہر ایسے شخص کو جو گذشتہ آمریت کو زندہ کرنے کی کوشش کرے گا نیست و نابود کر دیں گے۔ انہوں نے فوجی قیادت کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فوج کی حمایت یافتہ موجودہ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کیلئے بہانہ قرار دے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر روز بیگناہ افراد پر حملہ کیا جاتا ہے اور دہشت گردی سے مقابلے کیلئے نت نئے قوانین وضع کئے جا رہے ہیں۔

سزائے موت، سیاسی مخالفین کے خلاف جدید ہتھکنڈہ:
مصر میں سال ۲۰۱۱ء میں جنم لینے والی عوامی تحریک جس کے نتیجے میں ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے نے اس امید کو جنم دیا تھا کہ ملک میں جمہوری آزادی میں اضافہ ہو گا لیکن اس وقت مصری معاشرے کا جمہوریت کی جانب سفر بہت سی رکاوٹوں کا شکار ہو چکا ہے۔ مصری عوام کی بڑی تعداد سابق صدر محمد مرسی کو اپنے ایک سالہ دورہ حکومت میں آمرانہ ذہنیت کا حامل شخص قرار دیتے تھے لہذا صدر مرسی اور اخوان المسلمین کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج شروع ہو گیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر کی فوج نے مداخلت کی اور صدر محمد مرسی کو اقتدار سے فارغ کر دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک مصر کی سیکورٹی فورسز اخوان المسلمین کے ہزاروں حامیوں کو مظاہروں اور احتجاج کے دوران قتل کر چکی ہیں اور اتنی ہی تعداد بلکہ اس سے زیادہ کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سابق صدر محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے مرکزی رہنماوں پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

دوسری طرف مصر کی نئی حکومت نے اخوان المسلمین کے رہنماوں اور سرگرم کارکنوں کے خلاف شدید قسم کے اقدامات انجام دیتے ہوئے اس تنظیم کو ایک "دہشت گرد تنظیم" قرار دیا ہے۔ سابق صدر محمد مرسی سمیت اخوان المسلمین کے تقریبا تمام بڑے بڑے رہنما کسی نہ کسی مقدمے میں جیل میں بند ہیں اور سزائے موت جیسی سزا سے روبرو ہیں۔ حال ہی میں المنیا کی کریمینل عدالت نے اخوان المسلمین کے ۵۲۹ حامیوں کو سزائے موت سنا دی ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور ملک کے قانونی اداروں میں اس پر غوغا برپا ہو چکا ہے۔ بعض سابق ججز نے اعلان کیا ہے کہ یہ عدالتی حکم ابھی فائنل نہیں ہوا اور ۲۸ اپریل تک عدالت کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ لیکن قرائن و شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت کا یہی فیصلہ ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہو گی۔

وکلاء اور ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس عدالت نے ملزمان کو اپنے دفاع کا حق نہیں دیا جبکہ بعض دوسرے قانونی ماہرین کی نظر میں اس عدالتی فیصلے پر اس قدر احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر عدالت ان افراد کو سزائے موت دے بھی دے تب بھی ان میں سے تقریبا ۱۴۷ افراد کو رحم کی اپیل کرنے کا حق حاصل ہو گا اور دوسرے ۳۹۸ افراد جو اس وقت مفرور حالت میں ہیں پر دوبارہ مقدمہ چلائے جانے کا امکان موجود ہے۔ سزائے موت کا یہ فیصلہ اس وقت جاری کیا گیا جب اٹارنی جنرل نے اخوان المسلمین کے ان حامیوں پر صوبہ المنیا میں شدت پسندانہ اقدامات انجام دینے، مطای پلیس اسٹیشن پر حملہ کرنے اسے آگ لگانے اور سیکورٹی فورسز کے افراد کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا۔ ان افراد کے خلاف جاری فیصلے کے بارے میں سیاسی یا قانونی بحث اور جھگڑے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ مصر کی عدالتی تاریخ میں بے سابقہ ہے۔

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ملزم کی غیبت میں جاری ہونے والا عدالتی فیصلہ واجب الاجرا نہیں ہوتا کیونکہ جیسے ہی ملزم گرفتار کیا جاتا ہے اس کے خلاف جاری کردہ عدالتی فیصلہ خود بخود ہی باطل ہو جاتا ہے اور اس پر دوبارہ مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ مصر میں کیتھولک قبطیوں کے سربراہ کرلس ویلیم نے اخوان المسلمین کے ۵۲۹ حامیوں کے خلاف سزائے موت جاری کئے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ملکی حالات بہت سخت ہیں، یہ عدالتی فیصلہ بہت سختگیرانہ ہے اور ہمیں چاہئے کہ انتظار کریں۔ کلیسا اور عیسائیوں کی نظر میں سزائے موت کسی بھی مشکل کا حل نہیں۔
مترجم : سید ضیغم عباس ھمدانی
خبر کا کوڈ : 367291
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش