0
Friday 18 Apr 2014 23:57

دہشتگردوں کی گرفتاری، پولیس پاس، عدلیہ کا امتحان شروع

دہشتگردوں کی گرفتاری، پولیس پاس، عدلیہ کا امتحان شروع
تحریر: تصور حسین شہزاد

لاہور پولیس نے ایک ماہ قبل لاہور کے مختلف علاقوں سے ایک حاضر سروس ٹریفک وارڈن سمیت 6 دہشت گردوں کے ایک گینگ کو گرفتار کیا، جو ٹریفک وارڈن کی جانب سے کی جانے والی ریکی پر مختلف روپ دھار کر دہشت گردی کی وارداتیں کرتا تھا۔ پولیس نے اس گروہ سے تفتیش کا عمل پورا ایک ماہ جاری رکھا اور اس کے بعد آج (جمعہ) کو پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ میں ان چھ دہشت گردوں کی ’’تقریب رونمائی‘‘ کی گئی اور سی سی پی او لاہور چوہدری محمد شفیق گجر نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن ذوالفقار حمید، ایس ایس پی رانا عبدالجبار اور دیگر پولیس کے اعلٰی افسران کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور ان دہشت گردوں سے کی جانے والی تفتیش سے میڈیا کے نمائندوں کو آگاہ کیا۔ سی سی پی او نے انکشاف کیا کہ پکڑے جانے والے ان دہشت گردوں کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے ہے اور ان کا سرغنہ عبدالرؤف نامی دہشت گرد ہے، جو بادامی باغ کے علاقے کا رہائشی ہے۔ سی سی پی او نے یہ بھی بتایا کہ عبدالرؤف کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کا دست راست ہے۔

ملزمان نے لاہور میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم کر رکھا تھا اور مختلف اٹھارہ وارداتوں میں 16 شیعہ، سنی دیوبندی اور بریلوی شخصیات کو نشانہ بنا چکے تھے۔ ان ٹارگٹ کلرز نے جہاں اہم ترین شیعہ شخصیات کو نشانہ بنایا، وہاں انہوں نے بریلوی مکتب فکر کے عالم دین علامہ خرم رضا قادری کو بھی اپنی بربریت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ انہوں نے یہی پر بس نہیں کی بلکہ کالعدم سپاہ صحابہ پنجاب کے صدر مولوی شمس الرحمن معاویہ کو بھی اس لئے نشانہ بنا ڈالا کہ اس کے کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کے ساتھ اختلافات تھے۔ گروہ کے سرغنہ عبدالرؤف نے خود مولانا شمس معاویہ کو نشانہ بنایا۔ ملزم نے مسجد میں پہلے ان کی اقتدا میں نماز ادا کی اور پھر انہیں بتی چوک کے قریب راوی روڈ پر گولیاں مار دیں۔

انہی دہشت گردوں نے ممتاز شیعہ وکیل سید شاکر علی رضوی کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، ملزم نے مزدور کے روپ میں ان پر حملہ کیا اور اس حملے کے بعد پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے شاکر علی رضوی کے قتل کو ذاتی دشمنی قرار دے کر کیس کی تفتیش کا رخ بدلنے اور دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن وزیر قانون بھول گئے کہ قدرت کا تو اپنا قانون ہوتا ہے۔ بے گناہوں کا لہو چھپتا نہیں۔ پکڑے جانے والے ان 6 دہشت گردوں میں سرغنہ عبدالرؤف، محمد صابر، شیخ فرحان، شفقات علی فاروقی، محمد ہاشم اور سلمان پٹھان شامل ہیں۔ ان دہشت گردوں نے لاہور کی فردوس مارکیٹ میں علی حسین قزلباش کو سپاہ محمد سے تعلق کے شبے میں قتل کر دیا جبکہ نجی ٹی کے اینکر رضا رومی پر بھی حملہ کیا اور اصغر ندیم سید بھی ان کی بربریت سے بال بال بچ گئے۔ انہوں نے ممتاز ذاکر اہل بیت علامہ ناصر عباس آف ملتان کو بھی شہید کیا۔ انہوں نے پاکستان کے مایہ ناز آئی سرجن ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے معصوم بیٹے مرتضٰی حیدر کو ظہور الٰہی روڈ پر شہید کیا۔

گرفتار ہونے والے یہ لوگ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ملوث نکلے ہیں۔ انہوں نے برانڈرتھ روڈ کے معروف تاجر صہیب احمد کو اغوا کیا تھا اور اس کے بدلے میں 2 کروڑ کا تاوان وصول کیا تھا۔ ابتدائی تفیش کے دوران پولیس ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ ان دہشت گردوں کے بھارتی خفیہ ایجنیسی را سے رابطوں کا بھی سراغ ملا ہے لیکن سی سی پی او لاہور نے اپنی پوری پریس بریفننگ میں ان رابطوں کا ذکر نہیں۔ سی سی پی او نے انتہائی ایمانداری کے ساتھ لاہور میں ہونے والے تمام واقعات اسی گروہ کے کھاتے میں ڈالے ہیں۔ میڈیا کے سامنے بھی ان دہشت گردوں کو منہ ڈھانپ کر پیش کیا گیا لیکن میڈیا کو ان سے سوال و جواب کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پولیس نے اپنا فرض ادا کیا اور ایک ماہ کی محنت شاقہ سے ان دہشت گردوں کو گرفتار کرکے تفتیشی عمل مکمل کیا ہے۔

پولیس کے بعد اب عدلیہ کی ذمہ داری کا وقت آگیا ہے، لاہور پولیس نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ اس گروہ کو لازمی گرفتار کر لیں گے اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا، دہشت گردوں کا گروہ ان کے ہاتھ لگ گیا اور انہوں نے ان سے بہت کچھ اگلوا بھی لیا۔ سی سی پی او نے یہ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ان دہشت گردوں سے کی جانے والی تفتیش کے بعد ہم اس پہلو پر تفتیش کر رہے ہیں کہ کون کون لوگ ان دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے تھے، تاکہ ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب پولیس کالعدم جماعت لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف اب عدلیہ کیا کردار ادا کرتی ہے۔ متاثرین دہشت گردی کی نظریں اب ملک کی آزاد عدلیہ کی جانب لگی ہوئی ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ اب عدالت ان ملک دشمنوں کو کب کیفر کردار تک پہنچاتی ہے۔ اگر عدلیہ کے ججز بھی ان دہشت گردوں کی خونخوار نظروں سے خائف ہوگئے تو ڈاکٹر علی حیدر جیسے قیمتی ترین افراد سے ہمارا ملک محروم ہوتا رہے گا۔ ان دہشت گردوں کا سپیڈی ٹرائل کیا جائے اور بغیر کسی دبائو کے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے، تاکہ عوام سکھ کا سانس لیں سکیں۔
خبر کا کوڈ : 374321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش