0
Saturday 26 Apr 2014 12:38

اوباما کا دورہ ریاض اور امریکہ سعودی عرب تعلقات کا مستقبل

اوباما کا دورہ ریاض اور امریکہ سعودی عرب تعلقات کا مستقبل
تحریر: ڈاکٹر مہدی مطہرنیا

اسلام ٹائمز – سعودی عرب گذشتہ آٹھ دہائیوں سے مشرق وسطی کے خطے میں امریکہ کا ایک انتہائی اہم اور قریبی اتحادی جانا جاتا ہے اور دونوں کے درمیان بہت خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران براک اوباما حکومت کی بعض خارجہ پالیسیاں خاص طور پر ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک ابتدائی معاہدے کا انعقاد اور شام میں جاری بحران کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی سعودی حکام کی ناراضگی اور پریشانی کا سبب بنی ہیں۔ حتی بعض سعودی حکام کی جانب سے یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ اوباما حکومت نے سعودی عرب کو خطے کی سیاسی معادلات سے نکال باہر کیا ہے اور ریاض کی ترجیحات اور مطالبات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ لیکن ان سب کے باوجود امریکی صدر براک اوباما نے حال ہی میں سعودی بادشاہ ملک عبداللہ سے ملاقات کیلئے اس ملک کا دورہ کیا ہے۔ تحریر حاضر میں امریکی صدر براک اوباما اور سعودی بادشاہ ملک عبداللہ کے درمیان انجام پانے والی دو گھنٹے کی ملاقات میں زیربحث عناوین اور اسی طرح دونوں ممالک کے آئندہ تعلقات کا تجزیاتی جائزہ لیا گیا ہے۔

اوباما کے دورہ سعودی عرب کے اہم اہداف:
امریکی صدر براک اوباما کے سعودی عرب دورے کے اہم ترین اہداف کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم پہلے قدم پر اس دورے کے بنیادی فلسفے کو جاننے کی کوشش کریں۔ اس دورے کا بنیادی فلسفہ وائٹ ہاوس اور سعودی خاندان کے درمیان بہتر تعلقات کا قیام ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران خطے میں رونما ہونے والی تحریکوں نے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو تناو کا شکار کر دیا ہے۔ امریکی صدر اوباما کا حالیہ دورہ سعودی عرب اس حیثیت سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے اور یہی نکتہ حالیہ دورے کو اوباما کے گذشتہ دورے اور سابق امریکی صدور کے دوروں سے منفرد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک کے جنم لینے کے بعد اپنے ملک میں تشکیل پانے والے شدت پسند مذہبی گروہوں کی حمایت اور اسی طرح بعض اقدامات نے ریاض – واشنگٹن کے درمیان موجود دوطرفہ تعلقات پر انتہائی منفی اور تخریبی اثرات مرتب کئے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے شام کے بحران اور ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اپنائی گئی پالیسیاں اور ان کے بارے میں سامنے آنے والا سعودی عرب کا ردعمل اور اس کی جانب سے اپنایا گیا موقف اس بات کا باعث بنا کہ امریکہ ریاض پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنی خارجہ پالیسیوں میں شدت پسندی کے عنصر کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کرے۔ لہذا اوباما کا حالیہ دورہ سعودی عرب، امریکی رہنماوں کے گذشتہ دوروں کی نسبت بہت زیادہ سنجیدگی کا حامل رہا ہے۔

دوسری طرف اوباما کی جانب سے سعودی عرب کے دورے کا اہم ترین مقصد ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں پائے جانے والے تناو کی شدت کو کم کرنا تھا۔ اس اصلی مقصد کے سائے میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان موجود اختلافی مسائل جیسے شام میں صدر بشار اسد کی مخالف قوتوں کی حمایت اور ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات سے مربوط امریکی اقدامات کی توجیہ بھی زیربحث لائے گئے۔ ان تمام حقائق کے ساتھ ساتھ ہمیں اس نکتہ پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ براک اوباما امریکی صدر ہونے کے ناطے وقتا فوقتا سیاسی طور پر اپنے حامی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے دوست ممالک کا دورہ کرتے رہتے ہیں تاکہ ایک قابل محسوس ارتباطی فضا کو ایجاد کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے ہم فکر ممالک کی خارجہ پالیسیوں کے درمیان مناسب ہم آہنگی کا زمینہ فراہم کیا جا سکے۔

سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات:
خطے کی سطح پر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان پائے جانے والے اختلافی مسائل میں شام کا مسئلہ، ایران کا جوہری پروگرام اور جاری جوہری مذاکرات اور مصر میں جاری سیاسی تبدیلیاں شامل ہیں۔ یہ تین موضوعات انتہائی اہم ہیں جنہیں سعودی عرب اہم ترین مسائل قرار دیتا ہے۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان سب سے زیادہ اہم اختلافی موضوع جمہوریت پسندی سے متعلق امریکی تصور اور موجودہ امریکی صدر براک اوباما کے دور میں امریکہ کی جانب سے جمہوریت پسندی کے بارے میں اپنایا گیا رویہ اور پالیسیاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق جیسے موضوعات کے بارے میں دوغلی پالیسیاں اپنا رکھی ہیں اور مختلف ممالک کی نسبت ان موضوعات کے بارے میں امریکہ کی جانب سے مختلف موقف اپنایا جاتا ہے۔

موجودہ امریکی صدر براک اوباما کے دور حکومت میں امریکہ کے حامی ممالک میں جمہوریت اور انسانی حقوق سے متعلق جدید منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مناسب زمینہ فراہم کرنے کیلئے انجام پانے والے اقدامات میں تیزی آئی ہے۔ براک اوباما نے جب پہلی بار امریکی صدر بننے کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیا تو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ کی نظر میں سعودی عرب ایک خاص حیثیت کا حامل ملک ہے۔ انہوں نے اس دوران جمہوریت پر زور دیتے ہوئے اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ لیکن جیسے ہی خطے میں اسلامی بیداری کی تحریکوں نے جنم لیا تو امریکہ کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ کہیں یہ انقلابی تحریکیں سعودی عرب تک نہ پھیل جائیں۔ لہذا امریکہ نے ماضی میں جمی کارٹر کے دور میں اسی قسم کے تجربے کی روشنی میں جس میں ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی پر انسانی حقوق کے معیاروں کو عملی شکل دینے پر زور دیا جا رہا تھا لیکن اسی دوران اسلامی انقلاب رونما ہو گیا، یہ فیصلہ کیا کہ سعودی عرب سمیت دوسرے اتحادی ممالک میں آزادانہ سیاسی فضا کے قیام کے منصوبے کو وقتی طور پر موخر کر دیا جائے۔ اس ضمن میں ریاض نے بھی مزاحمت کا ثبوت دیا۔

ان سب کے باوجود براک اوباما جمہوریت کے پھیلاو کی خاطر انجام پانے والی کوششوں میں باقی امریکی صدور مملکت سے زیادہ سرگرم عمل رہے ہیں۔ خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہونے سے قبل امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے قاہرہ یونیورسٹی میں انجام پانے والی تقریر اور اسی طرح خلیج فارس سیکورٹی کانفرنس سے ہیلری کلنٹن کی تقریر انہیں اقدامات کا واضح نمونہ ہیں۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے حامی ممالک جیسے اسرائیل اور سعودی عرب نے صدر براک اوباما کے دور میں باقی ادوار کی نسبت امریکہ کے خلاف سب سے زیادہ ردعمل ظاہر کیا ہے۔ آئیے اب بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافی موضوعات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

ایران:
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان پائے جانے والے اہم ترین اختلافات میں سے ایک ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعات ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں اپنائی جانے والی امریکی پالیسیوں نے سعودی عرب کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ امریکہ نے اس بارے میں اپنی خارجہ پالیسی کی جزئیات سے بھی سعودی عرب کو بے اطلاع رکھا ہوا ہے۔ ایران کے بارے میں سعودی حکام کے درمیان پائی جانے والی تشویش کے پیش نظر امریکی صدر براک اوباما نے سعودی بادشاہ ملک عبداللہ کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی اور ان سے ملاقات میں کہا: "میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ہم ایران سے اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں کوئی برا معاہدہ انجام نہیں دیں گے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاہدے کا نہ ہونا ایک برے معاہدے کے انجام پانے سے بہتر ہے"۔

حقیقت یہ ہے کہ ایران مشرق وسطی میں خطے کی سطح پر سب سے زیادہ طاقتور ملک ہونے کے ناطے علاقائی ثقافت کے پھیلاو کیلئے اپنے اندر ایک طاقتور اور ثمربخش ثقافت کو ایجاد کرنے کی بھرپور صلاحیتوں کا حامل ہے۔ یہ بات ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل پائی جانے والی پہلوی حکومت کے دور میں بھی ایک حد تک صادق آتی ہے۔ لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خطے میں ایران کے مزید طاقتور ہو جانے کے امکان سے متعلق پیدا ہونے والی تشویش اور ایران کے ممکنہ رویوں کے پیش نظر خطے کے عرب ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائیں جن کا مقصد ایران کو زیادہ سے زیادہ محدود کرنا تھا۔ یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان پیدا ہو جانے والے ٹکراو نے خطے کے بعض ممالک اور حکومتوں کیلئے موجودہ صورتحال سے سیاسی مفادات حاصل کرنے کا زمینہ فراہم کر دیا تھا۔ لہذا جب بھی ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات بین الاقوامی قوانین اور دوطرفہ احترام کی بنیاد پر استوار ہونے کا امکان دکھائی دینے لگتا تھا یہ حکومتیں ایران کی جانب سے درپیش خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیتی تھیں۔

ایران میں موجودہ صدر ڈاکٹر روحانی کے برسراقتدار آنے کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی میں اپنے انقلابی اصولوں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ڈپلومیسی اور مذاکراتی عمل کو ایک خاص مقام حاصل ہونے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کی اس ڈاکٹرائن کا مقابلہ کرنے کیلئے تل ابیب اور ریاض میں حکمفرما رژیموں کے درمیان کھلم کھلا اور ڈھکے چھپے تعاون میں تیزی آ جاتی ہے۔ درحقیقت امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہونے کے فیصلے نے ریاض کو پریشان کر دیا ہے۔ سعودی حکومت امریکہ اور ایران کے درمیان مثبت فضا ایجاد ہونے پر سخت پریشان نظر آتی ہے۔ دوسری طرف وہ اس امر سے بھی خوفزدہ ہے کہ ایران اس مثبت فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف میدانوں میں ترقی کے مراحل طے کر کے مشرق وسطی کے خطے میں سعودی عرب کے مقابلے میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھر سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتیں سعودی عرب کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ لہذا امریکی صدر براک اوباما نے اپنے سعودی عرب دورے کے دوران سعودی بادشاہ ملک عبداللہ کی تشویش کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور انہیں ایران کے ساتھ ممکنہ حتمی معاہدے اور مثبت تعلقات کے بارے میں اطمینان دلوایا ہے۔ دوسری طرف اب ایران کیلئے انتہائی مناسب موقع فراہم ہو چکا ہے کہ وہ اپنی موجودہ ڈاکٹرائن کے مطابق سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے اس کی تشویش کو دور کرتے ہوئے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق پائے جانے والے خدشات کو دور کر سکے۔ یعنی ایران اپنی مدبرانہ خارجہ پالیسیوں کے ذریعے خطے اور بین الاقوامی سطح پر پائی جانے والی تشویش کو ختم کر سکتا ہے۔

انرجی:
سعودی عرب کی ایک اور بڑی پریشانی امریکہ کی جانب سے تیل اور گیس کے میدان میں خودکفیل ہونے کی جانب گامزن ہونا ہے۔ گذشتہ سال امریکہ نے اپنی تیل اور گیس کی پیداوار اس حد تک بڑھا دی کہ انرجی کے شعبے میں وہ سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ سعودی حکام سمجھتے ہیں کہ اب امریکہ کی نظر میں مشرق وسطی اور خلیج فارس کے خطے کی پہلے جیسی اسٹریٹجک اہمیت نہیں رہی۔ درحقیقت امریکہ چاہتا ہے کہ سال 2020ء تک وہ خود دنیا کے سب سے بڑے تیل اور گیس برآمد کرنے والے ملک میں تبدیل ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج خام تیل امریکہ کیلئے ایک اسٹریٹجک اثاثہ نہیں رہا اور مشرق وسطی کے بارے میں امریکہ کی پالیسیوں میں وہاں پائے جانے والے تیل کے ذخائر ماضی کی مانند بنیادی کردار کے حامل نہیں رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت مزید کم ہوتی جائے گی۔

اس تناظر میں مستقبل میں امریکہ اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی ممکنہ قربتوں سے متعلق سعودی بادشاہ ملک عبداللہ کی ایک بڑی پریشانی ایران کی جانب سے خام تیل کی پیداوار پر اپنی معیشت کے انحصار کو کم کرنے میں اس سے سبقت حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایران کی طرح سعودی عرب کی معیشت کا انحصار بھی تقریبا مکمل طور پر خام تیل کی پیداوار پر ہے اور اس وقت ایران کی پوری کوشش ہے کہ وہ خام تیل کی پیداوار پر اپنی معیشت کے انحصار کو کم سے کم کر دے۔ لہذا اس میدان میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک قسم کی رقابت پائی جاتی ہے۔ ایران حکومت کی جانب سے اعلان کردہ روڈ میپ کے مطابق اگلے پچاس برس میں خام تیل پر ایران کی معیشت کے انحصار کو چالیس سے ساٹھ فیصد تک کم کر دیا جائے گا۔ لہذا تیل اور انرجی کے کردار پر گہری اور دور اندیشانہ نظر ڈالتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ مشرق وسطی میں موجود تیل کے ذخائر کی ضرورت کم ہو جانے کے پیش نظر خطے پر ایک مثبت اور پرامن فضا حکمفرما کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ اس کے سائے میں اس کی دلخواہ جمہوریت کو اس خطے میں پھیلایا جا سکے۔

لہذا ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ سعودی عرب میں جمہوری تحریکوں کو مزید مضبوط کرنے کا زمینہ فراہم کرے گا۔ جیسا کہ امریکی صدر اوباما کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں بھی اس بات کے ٹھوس شواہد دیکھے گئے ہیں جن میں سے ایک سعودی خواتین کی جانب سے شروع کی گئی ڈرائیونگ مہم کی حوصلہ افزائی کیا جانا ہے۔ درحقیقت یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ بتدریج سعودی عرب جیسے ممالک میں جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے آزادانہ ماحول ایجاد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس امر کو سعودی عرب پر حاکم سعودی خاندان کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ اس مخالفت کا نتیجہ سعودی عرب کی جانب سے خطے کے دوسرے ممالک، یورپی ممالک اور حتی امریکہ میں سرمایہ کاری کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے تاکہ اس طرح ان ممالک میں اپنی لابی کو مضبوط کرتے ہوئے امریکی پالیسیوں پر مناسب انداز میں اثرانداز ہو سکے۔

مصر:
مصر کے بارے میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی جڑیں امریکہ کی جانب سے جنرل السیسی کی حمایت سے جا ملتی ہیں۔ سعودی عرب امریکہ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ مصر میں جنرل السیسی کی کھل کر حمایت کرے اور السیسی کی حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کا حقیقی محور قرار دے۔ لیکن دوسری طرف امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ مصر میں اپنی سرگرمیوں کو اس انداز میں انجام دے کہ السیسی کے ساتھ اس کی قربتیں کھل کر سامنے نہ آئیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ دنیا والوں کی نظر میں اس کا نام السیسی کے نام کے ساتھ یاد کیا جائے۔

شام کا بحران:
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اس وقت انتہائی کشیدگی کا شکار ہو گئے جب امریکہ نے شام میں سرگرم حکومت مخالف باغیوں کو دی جانے والی فوجی امداد کو محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ شام سے متعلق امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کی ایک اور بڑی وجہ امریکہ کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ ہے۔ ان اختلافات کی بنیادی وجہ واشنگٹن اور ریاض کی جانب سے شام کے صدر بشار اسد کے مخالف گروہوں کی حمایت کی نوعیت جانی جاتی ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا اثر شام میں قابل مشاہدہ ہے۔

یاد رہے کہ سعودی عرب کو امریکہ سے توقع تھی کہ وہ بالکل اسی طرح جیسے لیبیا میں جنرل قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے بھرپور فوجی کاروائی انجام دی تھی شام میں صدر بشار اسد کے خلاف بھی ایک بڑا فوجی آپریشن انجام دیتا۔ لیکن امریکہ نے اس بارے میں اپنی مخصوص ڈاکٹرائن کے مطابق عمل کرتے ہوئے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو نابود کرتے ہوئے خطے میں موجود طاقت کے توازن کو اسرائیل کے حق میں تبدیل کرنے پر ہی اکتفا کیا اور خود کو شام کے معاملے سے پیچھے ہٹا لیا۔ اس بارے میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اب تک جاری ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر براک اوباما کے حالیہ سعودی عرب دورے کے دوران یہ اعلان کیا گیا ہے کہ شام اور ایران کے بارے میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے لیکن اوباما اور ملک عبداللہ کے درمیان جاری رہنے والی دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد کسی مشترکہ اعلامیہ کا جاری نہ ہونا بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس اعلان میں زیادہ حقیقت نہیں۔ یعنی کسی مشترکہ اعلامیہ کا جاری نہ ہونا ان موضوعات کے بارے میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کسی اتفاق رائے کے عدم حصول کی نشاندہی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

امریکہ سعودی عرب تعلقات کا مستقبل:
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے مستقبل کو جاننے کیلئے آئندہ برس میں امریکی صدر براک اوباما اور نیولبرل سیاسی قوتوں کی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگلے دو سال کے دوران امریکی ڈیموکریٹس کی کوشش ہو گی کہ وہ کانگریس میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے بعد وائٹ ہاوس میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں۔ لہذا اگلے دو برس کے دوران امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کیلئے بہت زیادہ اتار چڑھاو دیکھنے کو ملیں گے۔ امریکہ اپنی موجودہ پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے گذشتہ دو سالوں کی نسبت زیادہ پرامن اور مدبرانہ انداز اپنائے گا۔ امریکی ڈیموکریٹس کی کوشش ہو گی کہ وہ آئندہ انتخابات میں اپنا سرخ کبوتر میدان میں لائیں۔ یعنی ہیلری کلنٹن جن کے میدان انتخابات میں آنے سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کیلئے مثبت فضا قائم ہو جائے گی اور دونوں ممالک کے درمیان موجود اختلافات کو اچھے انداز میں حل کئے جانے کی امید میں اضافہ ہو گا۔ ہیلری کلنٹن ممکنہ صدارتی امیدوار ہونے کے ناطے ریپبلی کنز کے شدت پسندانہ رویوں اور ڈیموکریٹک اوباما کے ڈھیلے ڈھالے انداز کے مابین تصور کی جاتی ہیں۔ لہذا امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے مستقبل سے متعلق جزئی مسائل کا صحیح جائزہ صرف امریکہ کے اگلے صدارتی انتخابات کے بعد ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ان تعلقات میں پیش آنے والی ممکنہ تبدیلیوں کا اندازہ بھی اسی وقت ہی لگایا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف اس نکتے کی جانب بھی توجہ ضروری ہے کہ سعودی عرب امریکہ کیلئے ایک انتہائی اہم ملک ہے اور عرب دنیا میں سعودی عرب کی حیثیت ایسی چیز نہیں جسے وائٹ ہاوس میں بیٹھا کوئی بھی امریکی صدر نظرانداز کر سکتا ہو۔ لہذا امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی سطح ایک جانی پہچانی سطح ہے جسے ہر حال میں محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر امریکہ کے اگلے صدارتی انتخابات میں ہیلری کلنٹن کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ امریکی حکومت کی پالیسی سعودی عرب کے ساتھ موجود اختلافات کی شدت کو کم کرتے ہوئے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں زیادہ بہتری لانے پر استوار ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 375588
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش