1
0
Friday 25 Apr 2014 11:06

عراق کے انتخابات اور سعودی عرب

عراق کے انتخابات اور سعودی عرب
تحریر: محمد علی نقوی

امریکہ کے زخم خوردہ تین ملکوں افغانستان، عراق اور شام میں انتخابات کی گہماگہمی جاری ہے۔ افغانستان میں اگرچہ ووٹنگ ہوچکی ہے لیکن نتائج کا انتظار ہے۔ لہذا اس ملک میں بھی انتخابات کا بخار بدستور موجود ہے۔ شام کے صدر نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب انتخابات کا اعلان کیا تو اقوام متحدہ، مغرب اور بعض عرب ممالک کے حکموانوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے اور انہوں نے اس کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ عراق میں تیس اپریل کو پارلیمانی  انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے، اس کی بظاہر مخالفت تو نہیں ہو رہی ہے، تاہم ان انتخابات میں اپنے مرضی کے نتائج کے لئے آل سعود کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ مضمون ہذا میں ہم عراق کے انتخابات کا جائزہ لیں گے، اگر زندگی نے ساتھ دیا تو امریکہ کے زخم خوردہ دوسرے ممالک کا کسی اور آرٹیکل میں تذکرہ کریں گے۔

عراق کی حکومت، اقتدار اور ارضی سالمیت کے خلاف داخلی اور خارجی سازشیں اپنے پورے عروج پر ہیں۔ عراقی کردستان کے علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی ایک ایسے وقت جبکہ عراق میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں، اختلافات پیدا کرنے میں کوشاں ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں عراقی کردستان کو ایک خود مختار ملک میں تبدیل کیے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔ مسعود بارزانی نے عربی اسکائی نیوز ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا ہے کہ عراقی کرد ہر قسم کی لڑائی اور خونریزی سے دور رہ کر مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے کردستان کو ایک خود مختار ملک میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ مسعود بارزانی نے کہا کہ کردستان کو خود مختار ملک بنانا عراقی کردوں کا قدرتی حق ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عراق میں 30 اپریل کو  پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس موقع پر انتخابات میں کرد جماعتوں کی تقویت کے لئے کرد حکام کی جانب سے اس قسم کے بیانات سامنے آرہے ہیں۔ 2010ء میں عراقی کرد جماعتوں کے اتحاد نے تینتالیس پارلیمانی نشستیں حاصل کی تھیں۔  

دوسری جانب عراق میں جیسے جیسے انتخاباتی مہم تیزی ہوتی جارہی ہے، علاقے کے بعض موقع پرست اور کینہ پرور ممالک عراق کے خلاف باقاعدہ طور پر سازشوں کو تیز کر رہے ہیں۔ ادھر بعض عرب ممالک مطلوبہ امیدواروں کی مالی اور سیاسی حمایت اور پروپیگنڈے کے ذریعے عراق کے پارلمانی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عراق کے وزیراعظم نوری مالکی نے حالیہ دنوں میں واضح طور پر سعودی عرب اور قطر پر عراق کے داخلی امور  میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ عراق کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور قطر دہشت گرد گروہوں اور القاعدہ کے سرغنوں کی حمایت کرکے ان سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ عراق کے اقتدار اعلٰی اور ارضی سالمیت کو نقصان پہنچائيں۔ نوری مالکی نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ علاقے، پاکستان، افغانستان، ہندوستان اور عرب ملکوں میں دہشت گردی کی اصل جڑ سعودی عرب میں ہے۔ عراقی وزیراعظم  کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نہ صرف شیعوں کا بلکہ تمام  اسلامی  مذاھب کا دشمن ہے۔

حالیہ برسوں میں سعودی عرب کی کارکردگی پر نظر ڈالنے سے اس نکتے کا وضاحت کے ساتھ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب  نے حالیہ برسوں میں علاقے میں پیدا ہونے والے بہت سے واقعات اور بحرانوں میں منفی کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ تین برسوں میں سعودی عرب نے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرکے شام کو تباہ کن بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ عراق میں بھی دہشت گرد گروہوں القاعدہ  اور داعش کی مالی اور فوجی حمایت کر رہا ہے، حتی سعودی عرب کے  بعض شہزادے دہشت گرد گروہوں کے سرغنوں سے رابطے قائم کرکے ان کے ذریعے شام، عراق اور لبنان جیسے عرب ملکوں میں دہشت گردانہ منصوبوں اور سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں شریک ہیں۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں بعض مذھبی شخصیات اور درباری ملا بھی تکفیری فتوے دے کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حمایت اور ترویج کر رہے ہیں۔ درحقیقت علاقے کے بعض ممالک میں سرگرم عمل دہشت گرد گروہ انہی تکفیری فتؤوں کی بنیاد پر اپنے ظالمانہ اقدامات کی توجیہ کرتے ہیں۔

اس وقت عراق میں القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہ سعودی عرب کے حکم کے مطابق مختلف قسم کی دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اور عراق کے مغربی علاقے میں گھروں کو منہدم اور عوامی اجتماع میں بم دھماکے کرکے نہتے اور عام شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کر رہے ہیں۔ خصوصاً جیسے جیسے  پارلیمانی انتخابات نزدیک ہو رہے ہیں، دہشت گردانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کے  ایک مرجع تقلید نے اس ملک کے عوام سے سفارش کی ہے کہ وہ پارلیمانی انتخابات میں وسیع پیمانے پر شرکت کریں۔
 
شیخ بشیر النجفی نے شہر نجف اشرف میں ایک بیان میں کہا ہے کہ عراق میں غربت، بے روزگاری اور امن و استحکام کے فقدان اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا یہ تقاضا ہے کہ عراقی عوام وسیع پیمانے پر پارلیمانی انتخابات میں شرکت کریں اور پارلیمنٹ کے لئے باصلاحیت اور کارآمد نمائندوں کا انتخاب کریں۔ عراق کی دینی مرجعیت کے نمائندے عبدالمہدی کربلائی نے بھی عراق کے پارلیمانی انتخابات کے نامزد امیدواروں اور سیاسی گروہوں سے مطالبہ کیا ہے کہ غربت کے خاتمے اور عوام کی خدمت کو اپنی ترجیح قرار دیں۔ الکربلائی نے کہا  ہے کہ عراق میں تقریباً ساٹھ لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گذار رہے ہيں اور عراق، تیل سے مالامال ملک ہونے کے باوجود پانچواں غریب عرب ملک ہے، جو معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ عراق کے شیعہ مراجع کرام نے مختلف مواقع پر اس ملک میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات میں عوام کو شرکت کی دعوت دی ہے۔

گذشتہ پارلمانی انتخابات میں ریاض کے حکام نے ایاد علاوی کے حق میں پروپیگنڈہ کیا تھا اور انھیں جتوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور عراق میں ووٹوں کی خرید پر پر اربوں ڈالر خرچ کئے تھے، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے اور نوری مالکی وزیراعظم بن گئے۔ اس مرتبہ بھی سعودی عرب آرام سے نہیں بیٹھا  ہے بلکہ مسلسل اشتعال انگیز اقدامات انجام دے رہا ہے۔ بلاشبہ سعودی عرب اور دہشت گرد گروہوں کا مقصد عراق کے اقتدار اعلٰی کو نقصان پہنچانا اور حکومت عراق کو مختلف مشکلات سے دوچار کرنا ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب عراق میں باہمی اتحاد کے نتیجے میں سامنے آنے والی حکومت اور طاقت سے ناراض اور مقتدر اور مضبوط عراق کے وجود سے خوفزدہ ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ عراق زیادہ سے زیادہ مشکلات میں گھر جائے اور وہاں بدامنی  کا راج ہو۔ اس لئے سعودی عرب اس وقت بعض تکفیری گروہوں اور نوری المالکی کے مخالفین سے نزدیک ہوکر خود نوری مالکی اور انکے اتحاد کے خلاف دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ علاقائی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے ہے کہ سعودی عرب عراق میں  بھی ویسی ہی حکومت کی تشکیل کا خواہاں ہے، جس طرح حکومتیں اس وقت دوسرے عرب ممالک میں قائم ہیں، کیونکہ اگر عراق میں جمہوریت کا تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو دوسرے عرب ممالک کے عوام کے لئے بھی ایک نمونہ بن سکتا ہے اور اس کا منطقی نتیجہ بادشاہتوں اور شہنشاہیت کے خاتمے کے علاوہ کچھ نہیں برآمد ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 376231
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
عراق کو اہمیت دینا آج کل نہایت ضروری ہے کیونکہ ان انتخابات کے نتائج خطے کے لئے نہایت اہم ہیں۔ اس سلسلے کو جاری رکھیں۔
پیشگی شکریہ
ہماری پیشکش