0
Saturday 26 Apr 2014 18:54

کیا یہ ملک اور معاشرہ بکھرنے کو ہے۔۔؟

کیا یہ ملک اور معاشرہ بکھرنے کو ہے۔۔؟
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ایک مملکت کی عمارت جن ستونوں پر ایستادہ ہوتی ہے انہیں عرف عام میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کہتے ہیں، مگر موجوہ حالات میں میڈیا نے جس قدر ترقی کی ہے، اسے مملکت کے چوتھے ستون کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے، اگر ہم اپنے ملک کے حالات، واقعات اور مسائل دیکھیں تو ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ مملکت کے یہ سارے ستون اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ عملی طور پر ہر ستون پر جو ذمہ داری یعنی جتنا وزن اٹھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اس کو ادا کرنے سے قاصر رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنے بوجھ کو اٹھانے کے بجائے ہر ایک نے دوسرے پر ذمہ داری عائد کرکے جان چھڑانے میں ہی عافیت سمجھی اور اپنا بوجھ بھی دوسرے پر ڈال دیا، جس سے مملکت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی اور اس کے وجود کو ایک بار پھر خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ مملکت ایک بار پھر اپنی جغرافیائی حالت (خدا نخواستہ) تبدیل کرے گی۔ اس پاک وطن کی عمارت کے ستونوں نے اگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنا بوجھ دوسروں کے کاندھوں پر ڈالنے کی کوششیں نہ کی ہوتیں تو کم از کم یہ خطرات لاحق نہ ہوتے، موجودہ تکلیف دہ حالات نے ہر شخص کو پریشان کر رکھا ہے۔ آج کوئی بھی یہاں محفوظ نہیں ہے، کوئی بھی خوش نہیں ہے، ہر طرف دہشت گردی کا راج ہے، ہر سو مایوسیوں نے ڈیرہ لگایا ہے۔ جدھر نگاہ اٹھاؤ ناامیدیاں منہ کھولے کھڑی نطر آئیں گی۔ جہاں دیکھو گھپ اندھیری رات کا منظر ہوگا، جس طرف بھی جائیں لٹیروں کی چاندی ہوگی، عوام کیلئے ہر طرف دکھوں کے طویل سائے ہیں۔ آج ہر آنکھ اشک بار ہے، ہر دل درد میں مبتلا ہے، ہر ایک اس ملک سے بھاگنا چاہتا ہے، ہر ایک اس خطہ ارضی کو بائے بائے کہنا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں ایسا کیوں نہ ہو، یہ ملت گذشتہ سڑسٹھ برسوں سے مسلسل دھوکے کھا رہی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد اسے کبھی بھی ایسی بے مثال قیادت میسر نہیں آئی جو سب کو اکٹھا کر لے اور ان کو یہ احساس دلائے کہ یہ ملک لاکھوں انسانوں کی قربانیاں دیکر حاصل کیا گیا ہے۔
 
آپ اگر عدلیہ کی بات کریں گے تو عوام اس سے شدید ترین مایوس دکھائی دیں گے، ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ اسی عدلیہ کو عوام نے بھرپور جدوجہد کرکے آذادی دلاوائی ہے، مگر یہ آزادی ان کے کس کام کی کہ ان کے کسی ایک قاتل کو بھی اس نے پھانسی گھاٹ پر نہیں پہنچایا، پھر کیوں نہ ہوں اس سے مایوس؟ کیا اسی لئے عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلائی گئی تھی کہ عدلیہ سو سو افراد کا قتل برملا تسلیم کرنے والوں کو آزادی کے پروانے عطا کرے، پھر اسی عوام نے گذشتہ برس ایک نئی حکومت کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجا کہ ان کے حقوق کا دفاع کرے، مگر جن لوگوں کے سر پہ تاج رکھا گیا، انہوں نے پورے سال میں صرف ایک بار ہی اس ایوان کو شکل دکھائی ہے۔ انتظامیہ اور میڈیا کی حالت سے بھی سب آگاہ ہیں اور آج کل تو میڈیا کا کردار سب سے زیادہ زیر بحث ہے، جس نے اپنی تمام حدود کو پھلانگا ہے اور اب اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ پولیس انتظامیہ کا تو یہ حال ہے کہ یہ ابھی تک تفتیش کا طریقہ کار نہیں بدل سکی، آج بھی وہی تھرڈ ڈگری طریقہ رائج ہے، بلکہ یہ انتہائی اہم ستون ہونے کے باوجود دہشت گردی کے جدید طریقوں سے نمٹنے کی صلاحیت اور تربیت ہی نہیں رکھتا، اس کے پاس ایسے امکانات و وسائل ہی نہیں ہیں، جن کو برؤ کار لا کر موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکے لہذا عملی طور پر ریاست کے تمام ستون اس عمارت کو گرانے میں کوشاں نظر آتے ہیں، جسے خود ان کے سہارے کھڑا کیا گیا ہے، دیکھیں یہ ریاست کب تک اپنے وجود کو برقرار رکھ پاتی ہے۔

ریاست و مملکت کیساتھ ساتھ اگر ہم مجموعی معاشرہ یا سوسائٹی کی بات کریں تو وہ بھی بے حد خطرات سے دوچار اور انتہائی دگرگوں صورت حال سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ یہاں اقلیتوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں، فرقوں کے نام پر قتل و غارت گری ہو، مسجدیں نمازیوں کے خون سے رنگین کی جائیں، ہنستے بستے انسانوں کے گلے کاٹ دیئے جائیں اور جنازوں و قبرستانوں کی حفاظت کیلئے بھی افواج پاکستان کو تعینات کیا جائے اور کسی بھی فرقہ کو آزادی سے اپنی عبادت کرنے کیلئے منتیں کرنی پڑیں، لائسنس لینے پڑیں اور ہائیکورٹ کے چکر کاٹنا پڑیں۔ بلاشبہ اس مملکت کے بانیان میں سے کسی کے وہم و خیال اور سوچ و گمان میں بھی ایسا پاکستان اور اس کا معاشرہ نہیں تھا۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس مملکت کے قیام کا مقصد ایسے معاشرے کی تشکیل بھی نہیں تھا، جس میں انسان مردار خوری پر اتر آئے، جہاں تین تین سال کی بچیاں درندگی کا شکار ہوں، جہاں گھروں میں کام کرنے والی بچیاں اور مسجد و مدرسہ میں قرآن کی روحانی و آفاقی تعلیمات کا درس حاصل کرنے کی نیت سے جانے والی کم سن کلیاں نماز کی صفوں پر قرآن کے سامنے جنسی درندگی کا نشانہ بنا دی جائیں اور ان کی زندگی کو ان سے چھین لیا جائے، ان کی ماؤں کو تڑپتا چھوڑ دیا جائے۔ حالیہ دنوں میں معصوم بچوں اور بچیوں کیساتھ جنسی درندگی کے ان گنت واقعات نے ہماری سوسائٹی کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ واقعات اس قدر زیادہ ہوئے ہیں کہ اب ان میں سے کئی ایک تو یاد بھی نہیں آ رہے، بلکہ کئی ایک واقعات تو میڈیا پر رپورٹ ہی نہیں ہوسکے۔ اسی طرح اجتماعی زیادتی کا شکار کی جانے والی کئی ایک جوان لڑکیوں جن کا بس نہیں چلا کہ وہ انصاف کا تقاضا کرسکیں خودکشی کرکے زمانے کی رسوائی کا سامنا کرنے سے بچ گئی ہیں، یہ مملکت اس لئے وجود میں نہیں آئی تھی کہ اس میں ایسا معاشرہ تشکیل پا جائے، جس کا ایک حصہ تو کائنات کی ہر شئے سے لطف اندوز ہو رہا ہو اور اسی جگہ پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بھوک و افلاس سے مر جائیں اور ان کا علاج کرنے والا، ان کو صاف پانی دینے والا کوئی نہ ہو، ان کا پیٹ بھرنے والا کوئی نہ ہو۔
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو 
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں


یہ مملکت و معاشرہ اس لئے تشکیل نہیں پایا تھا کہ اس میں قاتلوں کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو، ان کو ان کے کئے کی سزا دینے میں کسی کو دلچسپی ہی نہ ہو، جہاں سزا و جزا کا تصور ہی ختم ہوجائے، وہاں معاشرہ اور سوسائٹی جنگل کی صورت اختیار کر جاتا ہے، جنگل میں کسی کی عزت نہیں ہوتی، نہ کوئی قانون ہوتا ہے، یہاں ان کا اپنا قانون ہوتا ہے، یہاں کوئی بڑا اور کوئی چھوٹا نہیں ہوتا۔۔۔ بس طاقت اور قوت ہی قانون ہوتا ہے، جو جتنا طاقت ور ہوتا ہے، اس کا قانون چلتا ہے، اس کا حکم چلتا ہے۔ جنگل میں درندے ہوتے ہیں، جو ننھے اور کمزور جانوروں کو چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ آج پاکستان کا معاشرہ ایسی ہی کیفیت اور صورتحال کی منظر کشی کر رہا ہے۔ انڈیا میں کچھ عرصہ پہلے ایک طالبہ کیساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا، اس پر وہاں کے عوام نے آسمان سر پہ اٹھا لیا تھا، یہاں اس طرح کے کام مذہبی لوگ کرتے ہیں تو انہیں اس کی سزا کیا ملتی ہے، بس زیادہ سے زیادہ اس کی مسجد تبدیل ہوجاتی ہے، اس کا محلہ بدل جاتا ہے، اس کے نمازی بدل جاتے ہیں، اس کا محراب بدل جاتا ہے، مگر اس کی حکات کبھی بھی نہیں بدلتیں، چونکہ اسکو اس کے کئے کی سزا نہیں ملتی۔ اس بات کو اہلیان پاکستان بخوبی جانتے ہیں کہ اگر کسی عام آدمی سے کوئی جرم سرزد ہوجائے تو یہی ملاں مساجد کے اسپیکر کھول دیتے ہیں اور اعلان کرکے شہر میں جلاؤ گھیراؤ اور ہڑتال کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ کئی کیسز میں ہم نے خود اس کا تجربہ کیا ہے کہ کیسے ان لوگوں نے جھوٹ کا سہارا لیکر شہروں میں منافرت پھیلائی اور ہڑتالیں کروا کے اپنے ناجائز مطالبات بھی منوائے۔
 
یہ سیاستدان، مذہبی جماعتیں اور شخصیات اس ملک کو جنگل بنتے دیکھ کر بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، بلکہ بہت سے تو اسے جنگل بنائے ہوئے ہیں، اگر اس ملک کو بچانا ہے، اس سوسائٹی اور معاشرہ کو اس کے اصل روایتی ماحول میں واپس لانا ہے تو اس کیلئے ایک منظم اخلاقی تحریک کی ضرورت ہے، مگر اس کیلئے لازم ہے کہ استاد اخلاق تعصب سے دور اور سب کیلئے قابل قبول ہو، اس وقت تک ہمیں دور تک ایسا کوئی دکھائی نہیں دیتا، جس کے اعلٰی اخلاق و کردار کی بدولت سب طبقہ ہائے زندگی و مکاتیب فکر نے اسے متفقہ طور پر قبول کر لیں۔ سیاسی خلفشار اور اداروں کی باہمی اونچ نیچ سے ریاست جن مشکلات سے دوچار ہے، اس میں بھی ہر گذرنے والے دن کیساتھ اضافہ نظر آ رہا ہے جو بہت ہی خطرناک ہے، ایسے میں خدا سے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ وہی اس ملک کی حفاظت فرمائے، وہی اس مملکت خداداد کا نگہبان ہو، وہی اس معاشرہ کو بربادی اور تباہی سے بچائے، آخر یہ ملک اسلام کے نام پر، لا الہٰ الا اللہ کے کے نام جو حاصل کیا گیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 376675
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش