0
Tuesday 21 Sep 2010 09:42

پاکستان میں بلیک واٹر،امریکی گواہی

پاکستان میں بلیک واٹر،امریکی گواہی
ہمارے حکمران بڑے زور و شور سے اس حقیقت کی تردید کرتے رہے ہیں کہ امریکا کی دہشت گرد تنظیم بلیک واٹر پاکستان میں سرگرم ہے۔وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب بلیک واٹر کی حمایت میں زیادہ پُرجوش تھے۔لیکن خود اس تنظیم کے بانی ایرک پرنس سے موصول ہونے والی خفیہ معلومات میں یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ بلیک واٹر پاکستان میں بھی کام کر رہی ہے۔افغانستان میں امریکی حکومت کی معاونت سے یہ بے گناہوں کو ہلاک کرتی رہی ہے۔یہی کام اس نے عراق میں کیا۔گزشتہ دنوں امریکی حکومت نے افغانستان میں غیرقانونی طور پر اسلحہ پہنچانے کے الزام میں بلیک واٹر پر جرمانہ عائد کیا ہے۔یہ بھی مضحکہ خیز بات ہے۔افغانستان امریکا کے قبضہ میں ہے۔وہاں اسلحہ پہنچانا امریکی حکام کی لاعلمی میں ممکن نہیں۔اسلحہ بھیجا گیا تھا تو استعمال بھی ہوا ہو گا۔یہ کس پر استعمال ہوا اور کس نے کیا؟ اس کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی۔
 لیکن جہاں امریکی فوجی افغان شہریوں کو قتل کر کے ان کے اعضا بطور یادگار جمع کرتے ہیں اور دوستوں کو بھیجتے ہیں۔وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔گزشتہ دنوں پانچ امریکی فوجیوں پر فرد جرم عائدکی گئی ہے کہ انہوں نے اسی سال جنوری اور مئی میں تین افغان شہریوں کو بلاوجہ قتل کیا۔ان قاتلوں کا کہنا ہے کہ وہ نشے میں تھے۔نشے میں اپنے ساتھیوں کو بھی تو قتل کر سکتے تھے۔افغان شہریوں کے قتل میں دیگر 7 امریکی فوجی بھی ملوث تھے،لیکن انہیں معمولی سزا دی گئی۔ظاہر ہے مسلمانوں کے قتل پر سخت سزا دینے سے امریکی فوج کے حوصلے متاثر ہوتے۔وہ یہی کام تو کرنے آئی ہے۔
وحشت اور درندگی کی ایسی بہت سی داستانیں عراق میں بھی دوہرائی گئی ہیں۔انسانیت سے عاری وحشیوں سے اس کے سوا توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔تاہم بلیک واٹر کے حوالے سے امریکا ہی سے ایک اور گواہی سامنے آئی ہے۔امریکا کے محقق صحافی دین میڈسن نے اپنی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بلیک واٹر ملوث ہے۔(نیا نام ژی سروسز) یہ تنظیم بم ھماکے کر رہی ہے،جبکہ تحریک طالبان پاکستان امریکا کی مقرر کردہ ہے اور اس کا کام صرف ذمہ داری داری قبول کرنا ہے۔رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی امریکی محکمہ خارجہ کر رہا ہے،جس نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی جگہ حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو مقرر کیا ہے۔تحریک طالبان پاکستان کو امریکا کی تیار کردہ دہشت گرد تنظیم قرار دینا بڑا سنگین الزام ہے،اس کی تحقیقات پاکستان میں بھی ہونی چاہیے۔
امریکی صحافی کے مطابق کراچی،پشاور،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بلیک واٹر ہی امریکی سی آئی اے کے احکامات پر دہشت گردی کر رہی ہے۔دین میڈسن نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ بلیک واٹر کو پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان میں کارروائیوں کی منظوری دی گئی۔اس انکشاف پر ایف بی آئی اور سی آئی اے تحقیقاتی ٹیم ان کے پیچھے پڑ گئی ہے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔امریکی صحافی کے مطابق گزشتہ دنوں کوئٹہ میں القدس ریلی میں دھماکہ بھی بلیک واٹر کا کارنامہ ہے جس کی ذمہ داری طالبان پاکستان نے قبول کی۔پچھلے سال کراچی میں یوم عاشور پر بم حملے میں بھی یہی دہشت گرد تنظیم ملوث ہے۔اس میں بلیک واٹر کا کراچی سیل ملوث تھا۔کراچی پر قابض ایک لسانی تنظیم کے بلیک واٹر سے رابطوں کی خبر بھی اخبارات میں شائع ہو چکی ہے۔بلیک واٹر پاکستانی نوجوانوں کو دھماکوں کے لیے تیار کرتی ہے۔
دین میڈسن کے مطابق دہشت گردی کی ان کارروائیوں کا مقصد پاکستان کو اس حد تک غیرمستحکم کرنا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار مغرب کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جائے۔امریکی صحافی دین میڈسن امریکی بحریہ میں کام کر چکا ہے اور اس کی خدمات کے عوض اسے قومی سلامتی کے ادارے میں کمپیوٹر کے ماہر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔غالباً اندر کی یہ معلومات اس نے کمپیوٹر کے ذریعہ ہی حاصل کی ہیں۔یہاں پر امریکا کے سابق لیفٹیننٹ کرنل انتھونی شیفر کے اس اعتراف کا ذکر بھی مناسب ہو گا کہ امریکی فوج کا خصوصی دستہ پاکستان میں خفیہ کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ان انکشافات پر مبنی اس کی کتاب کی اشاعت پر پینٹاگون نے پابندی لگا دی تھی۔بلیک واٹر کے بارے میں یہ انکشافات اب خود امریکا سے آ رہے ہیں۔ہمارے حکمراں اس کے وجود اور پاکستان میں اس کی سرگرمیوں کا کب تک انکار کریں گے۔بلیک واٹر کو کام کرنے کی اجازت پرویز مشرف نے دی تھی۔کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ حکمران اس معاہدے کا احترام بھی کر رہے ہوں؟
 "روزنامہ جسارت"

خبر کا کوڈ : 37760
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش