0
Sunday 4 May 2014 09:37

اسرائیلی جنگی جرائم !

اسرائیلی جنگی جرائم !
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


اسلام ٹائمز۔ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر سنہ1948ء سے اب تک پینسٹھ برس کی طویل تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ان پینسٹھ برسوں میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے جتنے مظالم فلسطینیوں پر ڈھائے ہیں شاید ہی تاریخ میں کبھی کسی نے اتنے مظالم ڈھائے ہو گے، میرا عالمی برادری اور پوری دنیا کے باضمیر انسانوں سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ اگر فلسطینیوں کی جگہ یہ مظالم صیہونیوں پر ڈھائے جاتے تو دنیا میں کیا انجام ہوتا؟ ابھی تو صرف یہ شدت پسند یہودی(صیہونی) خود کو Hitlerکے ہاتھوں قتل ہونے کا افسانہ بتا کر مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اگر واقعاً تاریخ میں کبھی ان کے ساتھ ایسا ہوا ہوتا تو یہ دنیا کی کیا حالت کرتے؟ شاید اس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا! کیونکہ دنیا کی بڑی عالمی طاقتیں جو دوسرے ممالک اور حکومتوں میں تو جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے اپنی فوجوں تک کو اتار دیتی ہیں لیکن شاید ان کی نظر میں سر زمین فلسطین پر بسنے والے مظلوم انسان، شاید انسانیت کے ضمرے میں ہی نہیں آتے ہیں کیونکہ یہ انسانی حقوق کے علمبرادر صرف اپنے مفادات کی خاطر دنیا کے دیگر ممالک میں مداخلت کرتے ہیں اور اپنے مفادات حاصل ہونے تک ان ممالک پر قابض رہتے ہیں پھر ان ممالک بدحالی میں چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں جیسا کہ انہوں نے افغانستان، عراق، لیبیا، یمن، بحرین اور شام میں کیا ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ فلسطین میں بسنے والوں کو نہ تو انسان سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی حیوان کیونکہ صیہونی جس طرح وہاں کے باشندوں کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں اس کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ صیہونیوں کو امریکہ اور یورپ نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ مظلوم انسانوں کو جس طرح چاہیں قتل کریں اور ان پر ظلم کا سلسلہ جاری رکھیں، یہاں ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر صیہونی یہ کہتے ہیں کہ ان کو   Hitler نے بدترین ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا تو اس میں فلسطینیوں کا کیا قصور ہے؟ البتہ صیہونیوں کا ہولوکاسٹ سے متعلق بات کرنا بالکل ایک جھوٹے افسانے کے مترادف ہے۔ اور اگر اس بات کو تھوڑی دیر کے لئے سچ مان بھی لیا جائے تو پھر Hitler کے جرائم کی سزا جرمنی کے لوگوں اور یورپ کے لوگوں کو دی جانی چاہئیے نہ کہ فلسطین پر غاصبانہ تسلط اور پھر وہاں کے عوام کو موت کی چکی میں پیس دیا جائے۔

یہ ماہ جنوری کے دنوں کی بات ہے کہ جب فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد صدر محمود عباس نے اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے امریکی اور یورپی دلاسوں پر اکتفا کیا جس میں انہوں نے نام نہاد امن مذاکرات کے متاثر ہونے کے خدشے کا اظہار کیا تھا، مجھے حیرانگی ہوئی کہ محمود عباس نے آخر اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ قائم کرنے سے گریز کیوں کیا؟ اسرائیل کہ جس کا وجود غیر قانونی ہے، ایک غاصب ریاست ہے اور پھرا س سے بھی بڑھ کر کہ نام نہاد امن مذاکرات کے بدلے میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو کیا دیا ہے؟ ان نام نہاد امن مذاکرات کے نتیجے میں اسرائیلی مظالم کا سلسلہ مزید تیز ہوا ہے، معصوم بچوں کو قتل کیا گیا، خواتین کی عصمت دری ہوئی، بزرگوں کو بد ترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا، نوجوانوں کو بلا جواز گرفتار کر کے کئی کئی سالوں کے لئے اسرائیلی جیلوں کی نظر کر دیا گیا، مظلوم فلسطینیو ں کے گھروں کو بھی مسمار کر دیا گیا، فلسطینیوں کے کھیتوں کو اجاڑ دیا گیا، پانی اور سمندر میں کام کرنے والے فلسطینی ماہی گیروں کو کام کرنے سے روک دیا گیا، فلسطینیوں کو ان کی ہی زمینوں، گھروں اور مکانات سے در بدر کر دیا گیا، فلسطینیوں کو جبری طور پر فلسطین سے بے دخل کیا گیا، دنیا کے دیگر ممالک سے یہودیوں کو لا کر فلسطینیوں کی زمینوں پر آباد کیا گیا، اور تصویر کے دوسرے رخ پر عالمی استعمار امریکہ اور یورپی یونین نے محمود عباس اور اسرائیل کے درمیان نام نہاد امن مذاکرات کا راگ الاپنا جاری رکھا۔

سنہ1967ء سے مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس مکمل طور سے صیہونی کنٹرول میں ہے، صیہونیوں نے متعدد مرتبہ قبلہ اول کی بے حرمتی کی ہے اور فلسطین کے عوام کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر عبادت کرنے سے بھی روک دیا اور شدت پسند یہودیوں نے مسجد کے اندر جوتوں سمیت داخل ہو کر تلمودی عبادات انجام دیں اور مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کو مجروح کیا گیا۔ بعض اوقات دنیا میں حریت پسندوں اور فلسطینی تحریک آزادی کے لئے کام کرنے والے کارکنوں نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غاصب اسرائیل کے وجود کو ختم کرنے اور سرزمین فلسطین پر بے گناہ انسانوں پر ڈھائے جانیو الے مظالم کے خلاف ایکشن لے، لیکن ان کوششوں کا نتیجہ بھی خاطر خواہ نہیں رہا ہے کیونکہ بین الاقوامی عدالت انصاف ہو یا پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل، ان تمام مقامات کو عالمی سامراجی قوتوں بالخصوص امریکہ نے اپنے شکنجے میں دبوچ رکھا ہے اور کبھی بھی ان اداروں کی جانب سے دنیا کے کسی مظلوم کی بات نہیں سنی گئی اور نہ ہی کسی مظلوم کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ یہاں سب سے اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل بہت تیزی کے ساتھ یہودی آباد کاروں کو فلسطینی سر زمین میں منتقل کر رہا ہے، ماہ جنوری کے دنوں کی بات ہے کہ ایک رپورٹ میں شائع کیا گیا تھا کہ اسرائیل چھ لاکھ یہودی آباد کاروں کو فلسطینیوں کی سرزمینوں پر قابض کر چکا ہے اور مستقبل میں مزید یہودیوں کو لا کر بسایا جائے گا۔

فلسطین کے عوام دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کیا کوئی ہے جو آخر اسرائیل کے ان جنگی جرائم اور خطرناک عزائم کے چنگل سے مظلوموں کی مدد کو آئے گا، کیا دنیا کے بنائے گئے بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی عدالت انصاف بھی مظلوموں کی داد رسی نہیں کر سکتی؟ دوسری جانب غزہ ہے کہ جو گذشتہ آٹھ برس سے اسرائیلی محاصرے کا شکار ہے اور غزہ میں پندرہ لاکھ سے زائد فلسطینی اپنی زندگی اور موت کی کشمکش کی جنگ لڑ رہے ہیں، غزہ میں توانائی کا شدید بحران ہے۔ پوری دنیا کی سول سوسائٹی اور مہذب معاشروں کو چاہئیے کہ وہ دنیا کے اس سلگتے ہوئے اہم ترین مسئلے کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے عالمی برادری کے خلاف عوامی رائے عامہ کو ہموار کریں تا کہ سر زمین فلسطین پر غاصب اسرائیل کے تسلط کے خاتمے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو اسرائیلی سفاک مظالم سے بھی نجات دلوائی جا سکے، دنیا کی با ضمیر ریاستوں کو چاہئیے کہ غاصب اسرائیل کے خلاف قیام کا اعلان کر دیں اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل جنگی جرائم کے ارتکاب میں اسرائیل کے ان تمام سفاک دہشت گرد حکمرانوں کو سزا دی جائے کہ جنہوںنے گذشتہ پینسٹھ برس میں لاکھوں بے گناہ فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اور ان کے انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔








خبر کا کوڈ : 379055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش