0
Saturday 10 May 2014 20:19

جنرل عبدالفتاح السیسی، اخوان المسلمین میں امریکہ اور حسنی مبارک کا بھیدی

جنرل عبدالفتاح السیسی، اخوان المسلمین میں امریکہ اور حسنی مبارک کا بھیدی
اسلام ٹائمز – مشرق وسطی کا خطہ گذشتہ چند برسوں کے دوران شدید اتار چڑھاو کا شکار رہا ہے اور سیاسی میدان میں بہت سے خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات دیکھنے کو ملے ہیں۔ خوشگوار اس اعتبار سے کہ کئی ممالک میں عوامی تحریکیں آمر حکمرانوں کی سرنگونی کا باعث بنیں اور ناخوشگوار اس لئے کہ بعض انقلاب کے دشمن منافق اور دورو چہرے جنہوں نے انقلابی ہونے کا نقاب چہرے پر چڑھا رکھا تھا، مخلص انقلابی افراد کی صفوں میں گھس کر ان کی انقلابی تحریک کو اپنے اصلی راستے سے منحرف کرنے اور انہیں نابود کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بعض عرب ممالک میں ان انقلابی تحریکوں کے اپنے حقیقی راستے سے منحرف ہونے سے زیادہ تلخ حقیقت آمر حکمرانوں کے ہاتھوں عام اور نہتے انقلابی شہریوں کا وحشیانہ قتل عام ہو سکتا ہے۔ حکمرانوں کے ہاتھوں اپنے ہی نہتے شہریوں کا قتل عام بیرونی قوتوں کی جارحیت کے نتیجے میں انجام پانے والے قتل و غارت سے کہیں زیادہ بدتر شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ایک بیرونی جارح قوت کا مقصد ہی مدمقابل کو نیست و نابود کرنا ہوتا ہے جبکہ ایک ملک کے حکمران کا بنیادی وظیفہ اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت اور پاسداری کرنا ہوتا ہے نہ انہیں قتل کرنا۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریکوں میں سے ایک تحریک مصر میں جنم پائی جس کے دوران مصر کی انقلابی قوم نے عظیم اور تاریخی جدوجہد کے بعد چار عشروں سے قابض ڈکٹیٹر حکمران حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ انقلاب کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والے اخوان المسلمین کے صدر محمد مرسی کی کارکردگی اور طرز عمل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اس اہم نکتے کی جانب اشارہ کریں گے کہ کچھ ماہ بعد اسی شخص نے ان کا تختہ الٹ دیا جسے خود محمد مرسی نے جنرل طنطاوی کو برکنار کرنے کے بعد وزیر دفاع کے عہدے پر فائز کیا تھا۔ یہ شخص جنرل عبدالفتاح سعید حسین خلیل السیسی تھا جو بین الاقوامی حلقوں میں جنرل عبدالفتاح السیسی کے نام سے زیادہ پہچانا جاتا تھا۔ یہ نیا وزیر دفاع اخوان المسلمین کی جانب جھکاو رکھنے کے بارے میں معروف تھا کیونکہ اس کے والدین اخوان المسلمین کے فعال رکن تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبدالفتاح السیسی نے یہ تمام مراحل کیسے طے کئے اور آخرکار ملک کی وزارت دفاع کا عہدہ حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہو گیا؟ عبدالفتاح السیسی نے ملٹری سائنسز میں گریجویشن قاہرہ یونیورسٹی سے کی۔ وہ اس کے بعد برطانیہ چلے گئے اور وہاں سے 1992ء میں ملٹری سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد سپشل انٹیلی جنس کورسز کی خاطر امریکہ کا رخ کیا اور بعض رپورٹس کے مطابق امریکہ کی وار یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ عبدالفتاح السیسی 12 اکتوبر 2012ء کو اخوان المسلمین کے صدر محمد مرسی کے جانب سے نئے وزیر دفاع کے عہدے پر فائز کئے گئے۔ جنوری 2013ء میں جنرل السیسی نے صدر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت انجام دیتے ہوئے انہیں برکنار کر دیا اور خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبدالفتاح السیسی اخوان المسلمین میں کیسے گھسے؟ اس کا جواب جاننے کیلئے کہیں گے کہ اخوان المسلمین میں ان کی شمولیت کی داستان ان کے والدین تک جا پہنچتی ہے کیونکہ عبدالفتاح السیسی کے والدین اخوان المسلمین کے فعال کارکن تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے ٹھوس شواہد و مدارک موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبدالفتاح السیسی نہ صرف اخوانی سوچ کے حامل نہ تھے بلکہ وہ امریکہ اور حسنی مبارک کے بھیدی تھے۔ عبدالفتاح السیسی نے حسنی مبارک کے مہرے کے طور پر اخوان المسلمین میں گھس کر کام کیا۔ اگر ھشام قندیل کے دورہ صدارت میں ملٹری انٹیلی جنس کا شعبہ عبدالفتاح السیسی کو سونپے جانے کو محض اس لئے نہ سمجھا جائے کہ یہ امر انہیں مستقبل میں ایک اہم مہرہ بنانے کیلئے انجام پایا تھا تو اس کا تعلق ان کی صلاحیتوں سے جوڑا جا سکتا ہے۔ حسنی مبارک کے ساتھ عبدالفتاح السیسی کی پہلی شباھت یہ ہے کہ دونوں قاہرہ کی ملٹری یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ عبدالفتاح السیسی اعلی فوجی تعلیم کے حصول کیلئے برطانیہ چلے جاتے ہیں۔ یہ سفر ٹھیک اس وقت انجام پاتا ہے جب حسنی مبارک مصر میں صدر کے عہدے پر فائز تھے اور السیسی ایک فوجی افسر کے طور پر مصر آرمی کی جانب سے اعلی فوجی تعلیم کے حصول کیلئے برطانیہ بھیج دیئے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر جیسے ملک میں جہاں فوجی آمریت برقرار تھی اور کئی سالوں سے ایمرجنسی نافذ تھی صرف بااعتماد افراد کو ہی اعلی تعلیم کے حصول کیلئے بیرون ملک بھیجا جا سکتا تھا اور حکومت اپنے مخالفین کو بیرون ملک بھیجنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی کیونکہ اس صورت میں ایسے افراد کا طاقتور ہو جانا ملک میں حکمفرما آمرانہ نظام حکومت کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔

عبدالفتاح السیسی برطانیہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سپشل انٹیلی جنس کورسز کی تکمیل کیلئے امریکہ بھیج دیئے جاتے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق عبدالفتاح السیسی امریکہ میں کئی ایک سیاسی مقالات بھی لکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ مقالات امریکہ کی وار یونیورسٹی کی درخواست پر لکھے۔ اس تمام مدت کے دوران عبدالفتاح السیسی مصر آرمی اور خود حسنی مبارک کیلئے کام کر رہے تھے۔ عبدالفتاح السیسی کی جانب سے لکھے گئے ایک مقالہ میں جو امریکی نشریات میں شائع بھی ہوا ہے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں جمہوریت کے نفاذ کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اس خطے کے عوام ابھی اس حد تک نہیں پہنچے کہ جمہوریت ان کیلئے مفید ثابت ہو سکے۔ ان کی یہ سوچ جمہوریت کے بارے میں حسنی مبارک کی سوچ سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔

عبدالفتاح السیسی جنہوں نے نہایت ہوشیاری اور چالاکی سے اپنے اخوان المسلمین کے رکن والدین کی وساطت سے خود کو اخوانی سوچ کا حامی اور طرفدار ظاہر کیا تھا صدر محمد مرسی کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جنرل طنطاوی کی برکناری کے بعد انہیں فوج کا نیا سربراہ اور نیا وزیر دفاع بنا دیا جاتا ہے۔ نیا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے مصر آرمی میں اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنایا۔ کچھ عرصہ بعد ہی حسنی مبارک کے حامی آمر عرب حکمرانوں کے اصرار پر اپنا اثرورسوخ بروئے کار لاتے ہوئے صدر محمد مرسی کو اس بات پر قانع کر لیتے ہیں کہ سابق آمر حسنی مبارک کو جیل سے آزاد کر کے ان کے گھر میں نظربند کر دیا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکام مصر میں اخوان المسلمین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے لئے ایک بڑا خطرہ تصور کرتے تھے۔ جیسا کہ اپنے دیرینہ ساتھی حسنی مبارک کی اقتدار سے علیحدگی بھی ان کیلئے زیادہ خوشگوار نہ تھی۔ دوسری طرف حسنی مبارک امریکہ کے انتہائی قریبی دوست اور اس کے حمایت یافتہ افراد میں بھی شمار ہوتے تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب عبدالفتاح السیسی کو اخوانی سوچ کی جانب جھکاو رکھنے کی بنیاد پر صدر محمد مرسی کی جانب سے فوج کے سربراہ اور وزارت دفاع کا عہدہ عطا کیا جاتا ہے تو وائٹ ہاوس کے ترجمان "جی کارنی" بالکل پریشان دکھائی نہیں دیتے بلکہ یہ اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ امریکہ انہیں [عبدالفتاح السیسی کو] بہت پہلے سے اچھی طرح جانتا ہے اور فوج میں جو مناصب ان کے پاس رہے ہیں ان سے آگاہ ہے اور انہیں فوج کا سربراہ اور وزیر دفاع بنائے جانے کا استقبال کرتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وائٹ ہاوس اس بات پر خوش کیوں تھا کہ فوج کی باگ ڈور ایک ایسے مصری جنرل کو سونپ دی گئی ہے جو اخوانی سوچ رکھنے اور اخوان المسلمین کی جانب جھکاو رکھنے کے بارے میں مشہور ہے؟ وائٹ ہاوس کی جانب سے السیسی کو فوج کا نیا سربراہ اور وزیر دفاع بنائے جانے کو خوش آمدید کہنے کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ عبدالفتاح السیسی امریکہ کا دوست اور اس کا مہرہ تھا۔ السیسی امریکہ میں تعلیم حاصل کر چکا تھا اور حسنی مبارک کی قابل اعتماد مصری فوج کی جانب سے امریکہ بھیجا گیا تھا۔ لہذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ السیسی امریکہ پر مکمل اعتماد رکھتے ہوئے امریکہ کے اشاروں پر چلتے رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عبدالفتاح السیسی امریکی انٹیلی جنس سروسز کا ایک مہرہ تھا جسے مصر میں رکھا گیا تھا تاکہ مستقبل میں کسی بھی وقت اس سے کام لیا جا سکے۔ آیا ممکن ہے کہ ایک ایسا شخص جو حسنی مبارک اور امریکہ کیلئے سو فیصد قابل اعتماد نہ ہو اعلی فوجی تعلیم اور مہارت کے حصول کیلئے پہلے برطانیہ اور اس کے بعد امریکہ بھیجا جائے؟

قوی احتمال یہ ہے کہ چونکہ عبدالفتاح السیسی کے والدین اخوان المسلمین کے فعال رکن تھے لہذا انہیں پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت اعلی فوجی تعلیم کے حصول کیلئے برطانیہ بھیجا گیا تھا کیونکہ اس وقت اخوان المسلمین کے چند اہم اور مرکزی رہنما جو حسنی مبارک کے اصلی مخالفین میں شمار کئے جاتے تھے برطانیہ میں مقیم تھے۔ لہذا عبدالفتاح السیسی کو برطانیہ بھیجا جاتا ہے تاکہ اخوان المسلمین کے ان اہم مرکزی رہنماوں سے رابطہ برقرار کرنے اور ان کی جاسوسی کرنے کے علاوہ حسنی مبارک اور امریکہ کے مہرے کے طور پر اخوان المسلمین کی صفوف میں داخل ہو سکے اور مستقبل میں کسی بھی وقت جب اخوان المسلمین مصر میں برسراقتدار آ جائے اس مہرے کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف حاصل کئے جا سکیں۔ البتہ السیسی اس اہم مشن کو انجام دینے کے بعد امریکہ بھیج دیئے جاتے ہیں اور وہاں انہیں سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنے اور کچھ مدت کے بعد سابقہ حکومت کو دوبارہ برسراقتدار لانے کی اسپشل ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مصر میں جنرل السیسی کی جانب سے صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد سعودی حکام اس فوجی بغاوت کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور حتی نئے فوجی حکمران کو بڑی مقدار میں مالی مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔ آخر سعودی حکام کی جانب سے مصری عوام کے مینڈیٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے فوجی بغاوت کی حمایت کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ عبدالفتاح السیسی کے ساتھ امریکی اور سعودی حکام کے دوستانہ تعلقات اور دونوں ممالک کی جانب سے السیسی کی بھرپور حمایت کئے جانے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ جنرل عبدالفتاح السیسی دراصل امریکہ اور مصر آرمی کا مہرہ تھا جو اخوان المسلمین میں ایک بھیدی کے طور پر گھسا ہوا تھا۔ عبدالفتاح السیسی کو ایک ایسے وقت کیلئے تیار کیا گیا تھا جب مصری عوام ملک میں جاری ظلم و ستم سے تنگ آ کر آمرانہ طرز حکومت اور ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ضرورت اس بات کی ہو کہ حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت جیسا بظاہر جمہوری نظام ملک پر مسلط کر دیا جائے۔

عبدالفتاح السیسی مصری عوام کیلئے مخلص نہیں بلکہ ان کا مقصد مصر میں امریکی منصوبوں کو جامہ عمل پہنانا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں السیسی نے پہلے حسنی مبارک کو جیل سے آزاد کروایا، اس کے بعد اخوان المسلمین کی حکومت کا تختہ الٹ کر جمہوری طریقے سے منتخب صدر محمد مرسی کو زندان میں ڈال دیا، پھر اخوان المسلمین کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا اور اب وہ اخوان المسلمین کا وجود ہی ختم کر دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب بھی اخوان المسلمین کا نام دہشت گرد گروہوں کی لسٹ میں شامل کر کے اسے مزید کمزور کرنے کوشش کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 381281
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش