0
Monday 27 Sep 2010 12:18

زخمی درندہ اور امریکی مسخرہ

زخمی درندہ اور امریکی مسخرہ
تحریر: آر اے سید
شکار سے معمولی شغف رکھنے والے بھی اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا ہیں کہ جب کسی درندے کو زخم لگ جائے تو وہ زندہ درندے سے بھی زيادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ ماہر شکاری کسی درندے کے شکار کے وقت پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ صرف اسی وقت کسی خطرناک درندے کو اپنے ہدف پر لے جب اسکے ہلاک ہونے کے امکانات 70 فیصد سے زیادہ ہوں کیونکہ زخمی درندہ نہ تو جال میں قابو آتا ہے اور نہ ہی کسی اور طریقے سے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ زخمی شیر کی مثال تو زبان زد خاص و عام ہے کہ جب وہ زخمی ہوتا ہے تو اس میں کئی گنا زیادہ طاقت آ جاتی ہے اور وہ اپنے اردگرد کی ہر چیز کو نیست و نابود اور اپنے دشمن کا تیہ پانچہ کرنے سے ذرا برابر دریغ نہیں کرتا۔ البتہ موزی جانوروں میں سانپ ایسا جانور ہے کہ اگر اسے زخمی کر کے چھوڑ دیا جائے تو بہت جلد کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں اسے ہمیشہ کی نیند سلا دیتی ہیں۔ ریچھ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اسے چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر بلاک کیا جائے تو اسکے ردعمل کے نقصانات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ 
ریچھ کی مثال سامنے آئی تو اسلام ٹائمز کے قارئین کو اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے امریکہ کی ایما پر جو جنگي پلان تیار کیا تھا اس کا نام Bear trap تھا۔ اس منصوبے کے خالق جنرل حمید گل اور جنرل اختر عبدالرحمن نے افغان کمانڈروں کو بلا کر جو بریفنگ دی تھی اس میں کہا تھا کہ ہم نے ریچھ کے جسم کے مختلف حصوں پر زخم لگا کر اسے گرانا ہے، کیونکہ اس ریچھ کو ایک وار سے زیر کرنا مشکل ہے۔ 
بات زخمی درندے سے شروع ہوئی اور زخمی ریچھ تک جا پہنچی۔ گزشتہ دنوں ایک امریکی صحافی نے اپنی سنسنی خیز رپورٹ میں جہاں اور بہت کچھ چیزوں کا انکشاف کیا ہے وہاں پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک کیلئے جو اصطلاح استعمال کی وہ زخمی درندے کی ہے۔ اس سے پہلے کہ اس بات کا تذکرہ کیا جائے کہ رچرڈ ہالبروک کو زخمی درندہ کیوں کہا گيا ہے ایک نظر اس امریکی صحافی اور اسکی رپورٹ پر ڈالتے ہیں جس میں ہالبروک کو زخمی درندہ اور امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کو مسخرہ کہا گیا ہے۔
مائیکل ہیسٹنگ امریکہ کے جانے پہچانے صحافی ہیں۔ انہوں نے عراق کے موضوع پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے جسکا نام I lost my love in Baghdad ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسکی منگیتر اینڈی پر ہامووج بغداد میں ماری گئي تھی جس کے غم میں اس نے یہ کتاب تحریر کی ہے۔
مائیکل ہیسٹنگ شروع میں نیوزویک کیلئے رپورٹنگ کرتے تھے تاہم بعد میں پیشہ ورانہ اختلافات پر اس نے نیوزویک سے استعفی دے دیا۔ بعد میں وہ رولنگ اسٹون کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ رولنگ اسٹون نے افغانستان کی جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کیلئے افغانستان میں نیٹو کمانڈر اسٹینلے مک کرسٹل کے اسٹاف سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ افغانستان کے داخلی حالات اور نیٹو کی کارکردگي جاننے کیلئے ایک صحافی کو اپنے ساتھ چند دن گزارنے کی اجازت دیں۔ ما‏ئیکل ہیسٹنگ کے مطابق انہیں اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ نیٹو کا کمانڈر انہیں اپنے ساتھ ایک لمبے وقت تک رہنے کی اجازت دے گا۔ ہیسٹنگ چند گھنٹے کی امید کر رہا تھا جبکہ مک کرسٹال کے اسٹاف نے اسے پیرس بلا لیا جہاں مک کرسٹل کے ساتھ اس نے کچھ وقت گزارا اور اسکے بعد وہ کئی ہفتوں تک افغانستان میں مک کرسٹل کے ساتھ رہا۔ مائیکل ہیسٹنگ آج بھی حیران ہے کہ اسے کس طرح اتنے اہم فوجی مشن کے ساتھ اتنا زيادہ وقت گزارنے کا موقع دیا گيا بہرحال ما‏ئیکل ہیسٹنگ نے چند ہفتے کرسٹل کے ساتھ رہ کر جو رپورٹ تیار کی وہ نیٹو کے اس کمانڈر کے استعفی کا باعث بنی۔ ہیسٹنگ نے The Runaway General کے نام سے یہ رپورٹ اپنے ادارے کو روانہ کی۔ یہ رپورٹ امریکی و نیٹو فوجیوں کے اندر کے راز بلکہ دل کا غبار نیز کئی دیگر انکشافات کا باعث بنی۔
اس رپورٹ کے چند مندرجات درج ذیل ہیں۔
- پاکستان اور افغانستان کے خصوصی امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک ایک زخمی درندہ ہے۔
- امریکہ کا قومی سلامتی کا مشیر جیمز جونز ایک مسخرہ ہے جو اب تک 1985 کی سرد جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔
- اسلامی مزاحمتوں پر قابو پانے کا ماہر اور انتہا پسند مک کرسٹل خواہش کے باوجود افغانستان میں عراق جیسی خونریزی کی پالیسی پر عمل پیرا نہ ہو سکا۔
- مک کرسٹل کے جائزے کے مطابق افغانستان میں ایک معصوم شہری کا قتل دس مزيد مزاحمت کار پیدا کرتا ہے۔
ما‏ئیکل ہیسٹنگ نے اس رپورٹ میں مک کریسٹل کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ نیٹو کے کمانڈر امریکی جنرل مک کرسٹل کے بارے میں لکھتا ہے:
جنرل مک کریسٹل ایک ظالم اور قاتل امریکی کمانڈر کے طور پر بدنام ہے۔ عراق میں جنرل پیٹریاس کی شاگردی میں اس نے عراقیوں کا قتل عام کیا اور وہاں شیعہ سنی منافرت کو ہوا دی۔ اسی طرح اس نے بلیک واٹر اور دیگر کرائے کے قاتلوں کے ذریعے عراق کے مختلف شہروں میں نہ رکنے والے بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کیا۔ مک کرسٹل کو عراق میں شیعہ سنی اختلافات پھیلانے میں کامیابی حاصل ہوئی لہذا اسکے ان تجربات سے استفادے کیلئے اسے افغانستان میں نیٹو فورسز کا کمانڈر مقرر کیا گیا تاکہ وہ عراق کی طرح افغانستان میں بھی بلیک واٹر اور دوسرے ذرائع سے افغان عوام میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مختلف قبائل اور مسالک کو آپس میں لڑانے کی پالیسی پر عمل درآمد کرائے۔ میک کرسٹل ایک پیشہ ور فوجی اور ماہر قاتل ضرور ہے لیکن چالاک اور زيرک سیاستدان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے افغانستان میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد واضح طور پر اعلان کر دیا کہ افغانستان عراق نہیں اور یہاں پر عراق والی پالیسی نہیں چل سکتی، لہذا افغانستان کو فتح کرنے کے لئے بڑی تعداد میں امریکی فوجی درکار ہیں ورنہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوج کو اپنا بستر گول کرنا ہو گا۔
میک کرسٹل نے جب افغانستان میں نیٹو فورسز کی کمانڈ کو خیر آباد کہا یا اس سے جبری استعفی لیا گيا تو اس وقت کسی کے علم میں نہیں تھا کہ مک کرسٹل، ہالبروک اور جیمز جونز کی اصل حقیقت کیا ہے۔ انکے استعفی نے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔
امریکی صحافی نے ہالبروک کو زخمی درندہ کہہ کر بہت سے لوگوں کو اس کے ماضي کی طرف متوجہ کیا۔ ہالبروک وہی امریکی سفارت کار ہے جس کی خونی سفارتکاری کا ایک باب بوسنیا سے متعلق ہے جہاں اس سفاک امریکی سفارتکار نے بوسنیا کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور ظلم و ستم کی ایسی داستانیں رقم کیں جو مدتوں امریکہ اور یورپ کی پیشانیوں پر ایک بدنما کلنگ کے ٹیکے کی طرح نمایاں رہیں گی اور تاریخ مسلمانوں کے اس قتل عام میں ملوث ہالبروک جیسے کرداروں کو کبھی فراموش نہ کر سکے گي۔
مک کرسٹل کے استعفے اور ہیسٹنگ کی اس رپورٹ نے کریسٹل کی حقیقت بھی بیان کر دی ہے کہ اس نے عراق میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کیلئے کس طرح کا خونی راستہ اختیار کیا جو ایک اسلامی ملک کے سیاسی استحکام میں اب بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
مک کریسٹل اور ہالبروک صرف انفرادی کردار نہیں ہیں اور انکی یہ سفاکیاں صرف انکی ذات سے مربوط نہیں ہیں بلکہ اسکے پیچھے امریکہ کی وہ سامراجی، تسلط پسندانہ اور جنگ پسندانہ غیر انسانی پالیسیاں ہیں جسے کبھی بش اور کبھی اوباما کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے۔ جس ملک کی قومی سلامتی کا مشیر جیمز جونز جیسا مسخرہ ہو جو ابھی تک 1985 کی سرد جنگ کی سیاسی و فوجی صورتحال سے باہر نہ آیا ہو اس سے خیر کی توقع کرنا صحرا میں سایہ دیوار کی تلاش کی مانند ہے۔ آج باراک اوباما اقوام متحدہ میں مذاکرات اور عالمی امن کی بات کرتا ہے اور جواب میں ایران کے صدر 11 ستمبر کے مشکوک واقعات کی تحقیقات کی بات کرتے ہیں تو اس سے ‏عالمی برادری کو رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی ایرانی نئے سال کے آغاز میں کی گئی تقریر کے ان الفاظ کو یاد رکھنا چاہئے جس میں آپ نے کہا تھا کہ امریکہ ریشمی دستانوں میں لپٹے ہوئے اپنے خونی ہاتھوں کو مذاکرات کیلئے آگے بڑھا رہا ہے۔ ہالبروک، جیمز جونز، مک کرسٹل اور ان جیسے دیگر امریکی جنگ پسند ٹولے کی موجودگي میں امن کی بات کرنا خواب و خیال کے علاوہ کچھ نہیں اور یوں بھی زخمی درندے سے جتنی دوری اختیار کی جائے اتنا بہتر ہے۔
خبر کا کوڈ : 38307
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش